نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ساحر لدھیانوی فلمی نغموں کا آفاقی شاعر Sahir Ludhiyanvi Filmi Naghmown Ka Aafaqi Shir

ساحر لدھیانوی فلمی نغموں کا آفاقی شاعر                                   By Prof. Abdul Rub Ustad

ہندوستانی فلموں اور اردو اداب کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندوستانی فلموں میں اردو اور اردو کو بنام ھندی ، اردو کے ادیبوں اور شاعروں نے برتا، نہ صرف برتا بلکہ بطور آرٹ اس میں نت نئے تجربے بھی کئے۔ ان میں کئی نام آتے ہیں مگر ساحر ان تمام میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
ساحر ہندوستانی فلموں کا ہی نہیں بلکہ اردو شاعری کا اور خاص طور سے ترقی پسند شعراء میں اہمیت رکھتے ہیں۔ مگر ایک سوال یہ کھٹکتا ہے کہ آخر ساحر کو ادب میں اتنی پزیرائی کیوں نہیں ملی جسکے وہ حقدار تھے ۔ بجائے ادب کے انھیں شہرت اگر ملی تو فلموں کے ذریئے ملی اور ایورڈس بھی اگر ملے تو انھیں فلموں کی وجہ سے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ادبی دنیا میں پزیرائی کے لئے کیا کچھ کار ہائے نمایاں انجام دینے پڑتے ہیں یا کسی گروہ سے وابستگی ضروری ہوتی ہے۔ اگر اسے مان بھی لیا جائے اور اس طرز پر ساحر کے کلام کو جانچا جائے تو وہاں بھی ساحر کھرے اترتے ہیں، کیوں کہ ساحر کی جملہ شاعری تو درکنار، صرف انکی طویل نظم پرچھا ئیاں ہی انکی ادبی حیثیت کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہے۔ کیوں کہ اس نظم میں امن عالم اور تہذیب کے بقا اور اسکے تحفظ کے تعلق سے ایک حساس شاعر کا اظہار ملتا ہے۔ خود شاعر کی زبان سے سنتے ہیں کہ آیا وہ اس نظم کے تعلق سے کیا کہتا ہے، ساحر لکھتا ہے:

’’ پرچھائیاں میری طویل نظم ہے، اس وقت ساری دنیا میں امن اور تہذیب کے تحفظ کے لئے جو تحریک چل رہی ہے یہ نظم اس کا ایک حصہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہر نوجوان نسل کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اسے جو دنیا اپنے بزرگوں سے ورثہ میں ملی ہے وہ آئیندہ نسلوں کو اس سے بہتر اور خوبصورت دنیا دے کر جائے۔ میری یہ نظم اس کوشش کا ادبی روپ ہے۔‘‘ 

جبکہ معروف ترقی پسند شاعر اور ادیب گیان پیٹھ ایوارڈی علی سردار جعفری نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا 
’’ساحرلدھیانوی نے اس نظم کے ذریعہ اردو کے طویل نظموں اور امن عالم کے ادب میں ایک خوبصورت اضافہ کیاہے۔‘‘

اب جبکہ خودشاعر نے اسے ادبی روپ سے تعبیر کیاہے۔ اور یقیناًیہ ادب میں اضافہ کا باعث ہے کیوں کہ شاعر اپنے دور کا نباض ہوتاہے۔ وہ اپنے دور کے سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے اور اپنا عندیہ عوام کے آگے رکھ دیتاہے۔ بلاشبہ فنکار صرف عکاسی کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مثبت اور مستحسن تبدیلی کا نام بھی ہے۔ اور یہی فنکاری زندہ بھی رہتی ہے۔ چہ جائے کہ وہ کسی گروہ سے وابستہ ہو یا نہ ہو۔ساحر گویہ ان قیود و پابندیوں سے بالا نظر آتاہے۔ اسی لئے وہ کہتا ہے۔ ؂
لے دے کہ اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم 

زندگی اور زندگی کا فلسفہ ساحر نے اپنے تجربات و حوادث سے حاصل کیا اور سیکھا تھا جسے اپنے طورپر برتنا چاہا اور برت کر بتایا۔ ادب جسے سماج کا آئنہ دار کہاگیاہے اور سماج جسے افراد کا مجموعہ بتایاگیا جو عوام پر مشتمل ہوتاہے۔ چنانچہ ساحر نے اپنی شاعری کو اسی زندگی اور اسی سماج کیلئے وقف کردیا۔ اس میں اس نے کبھی مدرسہ کی قیل و قال کو آنے نہیں دیا۔ صرف جذبات اور احساسات کی ترجمانی پر زور دیا۔ اور انہیں کیلئے پیش بھی دیا۔ اپنے دور پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے دیکھا کہ اس وقت مضبوط اور بہتر میڈیا فلم ہے تو اس نے فلم کی معرفت اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ساحر کے دور کی فلم انڈسٹری اور اس وقت کے سماج پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتاہے کہ شرفا فلم کو بازاری یا اوچھے پن سے تعبیر کرتے تھے۔ جبکہ عوام اس سے ذہنی تلذذ حاصل کرتے۔ (یہ اور بات ہے کہ شرفا بھی چوری چھپے صحیح مگر دیکھتے ضرور تھے) ان حالات میں ساحر نے ان فلموں کو شائستہ ادب سے مزین کیا کہیں بھی اس میں سوقیانہ کلیمات کو آنے نہیں دیا۔ اور ناہی غیر مہذب لفظیات کا استعمال کیا۔ ان فلمی نغموں کو اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اس میں بھی قدرتی مناظر کی عکاسی، انسانی فطرت کشی ، سماجی بے اعتدالیاں۔ سیاسی اتھل پتھل ، طبقاتی کشمکش ، انسانی رشتوں کی پاسداری، وطن اور ابنائے وطن سے محبت، صلح کل کا درس، انسانی جذبات اور احساسات کا تذکرہ بڑی شدت سے محسوس کیاجاسکتاہے۔ ان تمام کو مختلف جگہوں پر راست عوامی زبان میں ادا کیاگیا۔ اور پڑھنے یا سننے والے کے دل میں اتر جانے والی کیفیت ساحر کے فلمی نغموں کی خاصیت رہی۔اسطرح ساحر نے ہندوستانی فلموں کو سلجھے ہوئے ادب سے روشناس کرایا۔
لڑکی جدائی پر جو نغمہ ساحر نے لکھا وہ آج بھی وہی تاثر دیتاہے جو اس وقت لکھا گیا تھا بلکہ ہر وقت اور ہر پل کیلئے یہ نغمہ لازوال ہوگیا۔ 

بابل کی دعائیں لے تی جا جا تجھ کو سکھی سنسار کرے
میکے کی کبھی نا یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے

وہ کون ماں باپ ہوں گے جو ساحر کے اس نغمہ کو سن کر ان کی آنکھیں نم دیدہ نہ ہوں۔ ہر دل کی دھڑکن کو ساحر نے اس نظم کے ذریعہ اس رنگ میں ادا کردیا کہ معاشرے کا ہر فرد اس کو اپنا ہی نغمہ اور اپنا ہی تجربہ سمجھتاہے۔ اسی طرح ایک بہن کا اپنے بھائی کیلئے پیار کیاہوتاہے اسے اگر ہندوستانی تہذیب کے تناظر میں دیکھیں اور راکھی کے پوتر بندھن کے موقعہ پر یہ نغمہ کس قدر معنی خیز اور انسانی جذبات کو برانگیختہ کرنے والا ہے کہ ؂

میرے بھیا میرے چندہ میرے انمول رتن
تیرے بدلے میں زمانے کی کوئی چیز نہ لوں
انسانی نفسیات خاص طور سے ماں کے جذبات اور بچوں کی نفسیات پر ساحر کو قدرت حاصل تھی ہے۔ ماں کے جذبات اپنی معصوم بچے کیلئے کیا ہوسکتے ہیں اس نغمہ سے معلوم ہوتے ہیں۔ 
تیرے بچپن کو جوانی کی دعا دیتی ہوں
اور دعا دے کے پریشان سی ہوجاتی ہوں

میرے بچے ! میرے گلزار کے ننھے پودے
تجھ کو حالات کی اندھی سے بچانے کیلئے

آج میں پیار کے انچل میں چھپا لیتی ہوں
کل یہ کمزور سہارا بھی نہ حاصل ہوگا

کل تجھے کانٹوں بھری راہ پہ چلنا ہوگا
زندگانی کی کڑی دھوپ میں جلنا ہوگا

اپنے دور کے حالات اور واقعات کو دیکھ نے کے بعد جس سیاسی اور سماجی اتھل پتھل سے وہ دور گزر رہاتھا اس میں انسانوں کو انسانیت کا درس دینے کیلئے بڑے ہی کرب سے اس نغمے میں اپنے خیالات کو ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔ 

تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا

مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا
ہم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا

قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی
ہم نہیں کھیں بھارت کہیں ایران بنایا

بچوں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ان میں پریم بھائی چارگی اور محبت جیسے جذبات سے پرکرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں ؂
بچے من کے سچے ساری جگ کے آنکھ کے تارے
یہ وہ ننھے پھول ہیں جو بھگوان کو لگتے پیارے
تن کومل من سندر ہے بچے بڑوں سے بہتر ہیں
ان میں چھوت اور چھات نہیں جھوٹی ذات اور پات نہیں

بھاشا کی تکرار نہیں مذہب کی دیوار نہیں
ان کی نظروں میں ایک ہیں مندر مسجد گردوارے

اس کے ساتھ ہی بچوں کو اپنے خالق کے روبرو کرنے اور انہیں وحدانیت کا درس دیتے ہیں 
تیری ہے زمیں تیرا آسماں
تو بڑا مہرباں تو بخشش کر

سبھی کا ہے تو سبھی تیرے
خدا میرے تو بخشش کر

یہ وہ نغمہ ہے جو تمام بنی نوع انسانوں کیلئے اور ہر کوئی اسے بڑی گرم جوشی سے پڑھے گا اور اس خدا کی ذات پر توکل کرے گا ہر انسان کو اس کے در پر جھکنے کی تلخین بھی فلمی نغموں سے کرتے نظر آتے ہیں۔ د
آنا ہے تو آ راہ میں کچھ پھر نہیں
بھگوان کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں

ایشور اللہ تیرے نام
سب کو سنمتی دے بھگوان
یہ وہ نغمے ہیں جس سے ساحر کی ابتدائی تربیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ خواہ وہ جوانی میں ترقی پسند نظریہ کے قائل ہوں مگر ان کی سرشت میں جو باتیں یا تعلیمات جاگزیں تھیں وہ بھلا کیسے نکل پاتیں۔ ہاں اسے وسیع معنوں میں نغموں کی شکل میں ڈھل کر انسانیت کا درس دیتی نظر آتی ہیں۔ کبھی کبھی ان کا لہجہ تلخ ہوجاتا ہے اور وہ خدا سے پرجوش انداز میں سوال بھی کرتے نظر آتے ہیں ؂
خدائے برتر! تیری زمیں پر زمیں کی خاطر یہ جنگ کیوں ہے
ہر ایک فتح وظفر کے دامن پے خون انساں کا رنگ کیوں ہے

اور کبھی ملک کے رہبر اور قوم کے سردار سے سوال کرتے نظر آتے ہیں ؂
جس رام کے نام پہ خون بہے اس رام کی عزت کیا ہوگی
جس دین کے ہاتھوں لاج لٹے اس دین کی قیمت کیا ہوگی
انسان کی ذلت سے پرے شیطان کی ذلت کیاہوگی
یہ وید ہٹا قرآن اٹھا یہ کس کا لہو ہے کون مرا
اے رہبر ملک و قوم بتا 

عورت پر ہونے والے مظالم کی داستان بھی بڑی طویل ہے مگر ساحر نے ان کی عزت اور آبرو اور مشرقیت کے حوالے سے جس کرب اور جس نفاست سے پیش کیاہے یہ انہی کا خاصہ ہے فی زمانہ ہمارا میڈیا جن چیزوں کو ابھارکربتانے میں فخرمحسوس کرتاہے اسے بہت پہلے ساحر کی آنکھ نے دیکھ لیا تھا اور اس نغمہ کے الفاظ کو سنئے اور آج کی میڈیاکی خبروں کو اپنے ذہن میں لائے پھر موازنہ کیجئے ؂
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے
کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج
لوگ عورت کی ہر ایک چیخ کو نغمہ سمجھے 
وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ شہر کا رواج
ان تمام حالات اور واقعات کے باوجود انسان جس شکست و ریخت سے گزر رہاہے اس سے خود ساحر بھی بچا ہوا نہیں مگر اس نے جینے کا ہنر جان لیا اور ایک ایسا کلیہ تمام بنی نوع انسانوں کے ہاتھوں دیا کہ اگر اس پر عمل پیرا ہو تو زندگی بڑے آرام سے بسر کرسکتاہے یہ ہر بڑے فنکار کی پہچان ہوتی ہے اور بلاشبہ ایک بڑے فنکار کے روپ میں ہمارے سامنے آتا ہے ۔ کیونکہ دنیا جس ڈگر پر چل رہی ہوتی ہے وہ ہمیشہ اس کی مخالف سمت پر گامزن ہوتاہے اور ایک نیا اور انوکھا طریقہ اپناتا ہے جسے خود ساحر نے ان اشعار میں پیش کیا
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلاگیا
ہر فکر کو دھویں میں اڑاتا چلاگیا
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا 
بربادیوں کا جشن مناتا چلاگیا
جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا
جو کھوگیا میں اس کو بھلاتا چلاگیا
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلاگیا

ان سے قطعہ نظر ساحر کے بھجن بھی دل موہ لینے والے ہیں اور ان میں خالص ہندوستانیت اور ہندوستانی بھائیوں کے تئیں محبت کے جذبات اور ان کے مذاہب کا احترام جھلکتا ہے۔ ان تمام فلمی نغموں کو پڑھنے سے یہ اندازہ ضرور ہوتاہے کہ ساحر نے اپنی شہرت کے خاطر یہ نغمے نہیں لکھے بلکہ زمانے نے ان سے یہ نغمے لکھوائے اور ان کو زندگی اور روز مرہ کے معمولات کا کس قدر گہرا ادراک رہا یہ عیاں کرتاہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلمی دنیا کی چکا چوند روشنی میں خود کو گم نہیں کیا بلکہ فلمی دنیا والوں کو اور فلم کے حوالے سے تمام قارین اور ناظرین کو اچھے اور سلجھے ہوئے ادب سے روشناس کرایا۔ یہی ان کو تادیر زندہ رکھے گا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو