نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

مارچ, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

Gazal by Ateeq Ajmal Wazeer, Gulbarga

           غزل             سید عتیق اجمل وزیر                                                                                             موبائل 9036847503 نہیں چاہیے سو نے کی بھی کان مجھے تجھ کو پانے کا ہے فقط ارمان مجھے ادا ہے اسکی یہ بھی اک شرمانے کی دیکھ کے جو وہ ہو تا ہے انجان مجھے

افسانہ : شرارتی : سیف قاضی

شرارتی اُس کی شرارتوں سے سب عاجز تھے چاہے گھر والے ہوں محلے کے لوگ یا رشتے دار ،وہ کسی کے ساتھ رعایت نہ رتتا تھا۔اُس کی شرارتوں ہی نے اسے پورے محلے میں مشہور کیا ہوا تھا۔اکثر لوگ اس کا نام سنتے ہی منہ بنا لیتے اور اکثر کے چہروں پر مسکراہٹ آ جاتی۔اکثر کے منہ سے بے اختیار برے الفاظ اس کے لئے نکل جاتے۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنی ماں اور اس کے رشتے داروں ہی کو دیکھا تھا۔باپ اس کے پیدا ہوتے ہی ماں کو چھوڑ گئے تھے کیوں ؟ یہ راز آج تک کسی کو پتہ نہ تھا ،اور شاید اس کی حرکتوں کا کارن بھی یہ ہی بات تھی۔کیونکہ لوگوں کی اُلٹی سیدھی باتوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا ،اور نہ ہی ابھی سمجھ اتنی تھی کہ ایسی باتوں پر توجہ دے۔لہذا وہ اپنی حرکتوں سے اپنا غبار نکالتا۔ اُس نے آنکھ کھولتے ہی اپنی ماں کو محنت کرتے دیکھا تھا۔ان کی ایک کپڑوں کی دوکان تھی جس میں عورتوں اور بچوں کے سلے سلائے کپڑے ملتے تھے اُ ن کی دوکان صدر کے علاقے میں تھی۔اس کی نانی ان کے ساتھ رہتی تھیں جس کی وجہ سے انہیں کھانے پکانے کا پرابلم نہیں تھا۔وہ اسکول جاتا واپسی پر نانی کھانا کھلاتیں اور اسے

Afsana "Kashmakash" افسانہ کشمکش

”   کشمکش “ صبح ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہورہی تھی سوچا....چلوالطاف کو فون کر لیتے ہیں۔ ہلو ! آوازآئی اسلام علیکم ! سلام کا جواب دیئے بغیر ہم نے سوالات داغ دیے۔....اور.... آج کا کیا پروگرام ہے۔ رفیق کے رشتہ کا کیا ہواکہیں کوئی بات بنی یا نہیں۔ الطاف : نہیں صاب آج گاؤں جانا ہے۔   کیوں؟ الطاف: تمہیں پتہ نہیں؟ نہیں تو ! الطاف : اجی صاب وہ گانوں کے نانی کا انتقال ہوا ہے۔ ارے وہ گا ؤ ں والے نانی کا؟ الطاف : ہاں وہی .... کب؟ الطاف : شایدآج صبح ہی، کچھ ٹھیک سے بتایا نہیںانہوں نے جلدی میں تھے۔ تو تم جارہے ہو؟ الطاف : ہاںمیں تو جاؤںگا اور جنت کو بھی لے جاوں گا۔ توٹھیک ہے میں بھی آؤنگا۔ اسی بہانے سارے نئے پرانے رشتہ داروں سے ملاقات ہوگی؟ چلو اللہ حافظ !             اللہ حافظ !             فون کٹ گیا ........             اب دماغ میں دھندلی یادیں پرانے خیالات تازہ ہونے لگیں۔ ہاں وہ یادیں تو بہت دھندلی تھیں۔ کیونکہ وہ تھی تقریباً 30 سال پرانی یادیں۔ تو ہم ان یادوں پر پڑی دھول صاف کرکے اپنے آپ کو کبھی اپنی نانی کے کچے مکان میں تو کبھی کھیت میں پاتے۔

Editorial

Editorial

Board of editors

Board of Editors

کیوں نہیں کرتے بیوی سے محبت

why don't you love to your wife.
غزل ہرطرف صرف محبت کے اجالے ہوتے دل جو نفرت کی سیاہی سے نہ کالے ہوتے عشق کا دل میں جو ہم روگ نہ پالے ہوتے اتنے پڑتے نہ ہمیں جان کے لالے ہوتے

Gazal by Ateeq Ajmal Wazeer, Gulbarga - 9036847503

غزل آرام سے سوجاؤ ابھی دھوپ بہت ہے باہر نہ نکل آؤ ابھی دھوپ بہت ہے سچ ہے کہ ہمیں ملتی ہے رحت تمہیں دیکھے تم بام پہ مت آؤ ابھی دھوپ بہت ہے جو کچھ بھی ہو شاپنگ وہ سبھی شام میں کرلو بازار نہیں جاؤ ابھی دھوپ بہت ہے ملنا تو ہمارا نہیں فی الحال ضروری کل پرسوں چلے آؤ ابھی دھوپ بہت ہے رخساروں کو گرمی سے بچائے ہوئے رکھنا گھونگھٹ کو نہ سرکاؤ ابھی دھوپ بہت ہے بے کار نہیں مان لو اجمل کی یہ باتیں باہر ذرا دیکھ آؤ ابھی دھوپ بہت ہے

Gazal by Dr. S. Chanda Hussaini Akbar, Gulbarga

غزل   اسے ہے شوق فقط بجلیاں گرانے کا   مرابھی عزم نئے آشیاں بنانے کا  جہاں ہے کام اسےمیرا دل دکھانے کا  وہیں پہ ذوق بڑھا مجھ کو مسکرانے کا یقیں ہے سب کو یہاں اس کے کارخانے پر  اسی کا کام بنانے کا پھر مٹانے کا قدم قدم پہ جہاں دنیا لوٹی جاتی ہے  ملے گا کیسے صلہ یوں ہی گنگنانے کا   یہ دور جورو جفا مکروفریب کا اکبرؔ  ملے گا اجر بھلا کس کے کام آنے کا

Gazal by Dr. Syed Chanda Hussaini Akbar, Gulbarga

Dr. Syed Chanda Hussaini Akbar Cell : 9844707960 ہم وفا کرتے رہے پر وہ دغا دیتے رہے  دوستی کی آڑ میں ہم کو سزا دیتے رہے غیر کو بھی منزلوں کا ہم پتہ دیتے رہے  اور اپنے ہی ہمارا دل دکھادیتے رہے نفرتوں کے شہر میں بھی پیار سے جیتے رہے  ظالموں کے ظلم کا ایسا صلہ دیتے رہے دشمنوں کی خیر بھی چاہی ہے ہم نے ائے خدا  پر ہمارا آشیاں اپنے جلا دیتے رہے کون جانے کس گھڑی آئے گی ایک دن موت کی دشمنوں کو زیست ہی کی ہم دعا دیتے رہے عیب جوئی سے کسی کا ہو نہیں سکتا بھلا  اس لئے ہی راز سب کے ہم چھپا دیتے رہے زندگی کی راہ میں کھائے ہیں دھوکے اس قدر  پھر بھی اکبرؔ ہم یہاں درس وفا دیتے رہے

بلراج بخشی کے افسانے: تجزیاتی مطالعہ

بلراج بخشی کے افسانے: تجزیاتی مطالعہ                 ” ایک بوند زیدنگی“ بلراج بخشی کے اس افسانوی مجموعہ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تب ہمیں ماضی میں اشاعت پذیران افسانں کی یاد آتی ہے۔ جن میں راست بیانیہ، کہانی پن، موضوع کے اعتبار سے افانہ کے مرکزی و ضمنی کرداروں کے انفسیاتی پہلووں کو موثر انداز میں پیش کیاجاتاتھا۔جنہیں ملک کے نامور رسائل نے نہایت اہتمام کے ساتھ شائع کیاتھا۔ وہ افسانے معروف افسانہ نگاروں، ڈاکٹر اظہار اثر، ڈاکٹر بشیشرپر دیپ، م ک مہتاب، م ناگ، رام لعل، گربچن سنگھ، م م راجیندر، کوثر چاندپوری، کشمیر ی لال ذاکر، ہرچرن چاولہ،جتیندر بلو، مقصود الٰہی شیخ، اسرار گاندھی، ش صغیرادیب نے لکھے جن کا شمار بے مثال افسانواں میں ہوتاہے۔ مذکورہ افسانہ نگاروں نے جو افسانے لکھے وہ ان ایام حیات آسودہ، خوش اذہان و خو طبع، کشادہ قلب و ذہن، منکرالمزاج، انسانی پیکر، اوروں کے مصائب و آلام اور مسرت آمیز لمحات زندگی میں ساتھ نبھانے والے کرداروں اور خوشحال معاشرے و سماج کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جن موضوعات پر قندکرہ افسانہ نگاروں نے افسانے لکھے کرداروں کے حوالے کہانی کا تانا بانا خوبصورت انداز میں بن