نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بلراج بخشی کے افسانے: تجزیاتی مطالعہ


بلراج بخشی کے افسانے: تجزیاتی مطالعہ

                ”ایک بوند زیدنگی“ بلراج بخشی کے اس افسانوی مجموعہ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تب ہمیں ماضی میں اشاعت پذیران افسانں کی یاد آتی ہے۔ جن میں راست بیانیہ، کہانی پن، موضوع کے اعتبار سے افانہ کے مرکزی و ضمنی کرداروں کے انفسیاتی پہلووں کو موثر انداز میں پیش کیاجاتاتھا۔جنہیں ملک کے نامور رسائل نے نہایت اہتمام کے ساتھ شائع کیاتھا۔ وہ افسانے معروف افسانہ نگاروں، ڈاکٹر اظہار اثر، ڈاکٹر بشیشرپر دیپ، م ک مہتاب، م ناگ، رام لعل، گربچن سنگھ، م م راجیندر، کوثر چاندپوری، کشمیر ی لال ذاکر، ہرچرن چاولہ،جتیندر بلو، مقصود الٰہی شیخ، اسرار گاندھی، ش صغیرادیب نے لکھے جن کا شمار بے مثال افسانواں میں ہوتاہے۔ مذکورہ افسانہ نگاروں نے جو افسانے لکھے وہ ان ایام حیات آسودہ، خوش اذہان و خو طبع، کشادہ قلب و ذہن، منکرالمزاج، انسانی پیکر، اوروں کے مصائب و آلام اور مسرت آمیز لمحات زندگی میں ساتھ نبھانے والے کرداروں اور خوشحال معاشرے و سماج کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جن موضوعات پر قندکرہ افسانہ نگاروں نے افسانے لکھے کرداروں کے حوالے کہانی کا تانا بانا خوبصورت انداز میں بناگیا جن میں مستعمل سلیس زبان اور تسلسل ان کے تفہیم وادراک میں کوئی دشواری نہ تھی شاید یہی وجہ تھی کہ ان افسانوں کے قارئین کا دائرہ وسیع تھا۔

                ان ہی افسانہ نگاروں کے منتخب افسانوں پر مشتمل معتبر رسالوں نے سالنامے ترتیب دیئے اور شائع کئے جن کا قارئین بے چینی سے انتظار کرتے تھے جوں ہی وہ کتب فروش یا اخبار فروشوں کے ہاں دستیاب ہوتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیاجاتاتھا۔ ادب نے ہردور میں سماج و معاشرے کی نمائندگی کی ہے۔ پریم چند، منٹو، بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور قرة العین حیدر جنہوں نے افسانوی ادب کے حوالے سے اپنے عصرکے سماجی مسائل پیش کئے مگر ان افسانوں میں انسانی ذاتی اور نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج اور کسی مخصوص طبقے سے وابسطہ کرداروں کی جانب اشارہ متاہے۔ افسانوی ادب کے تخلیق دور میں ایک ایسا تغیر بھی پیدا ہوا جن کے زیراثر ایسے فسانے تحریر کئے گئے جن میں ابہام اور علامتوں کے علاوہ تجریدی انداز تحریر جس سے نہ خواص عوام متاثر تھا یہ افسانے جن حلقہ قارئین کے مطالعہ کا باعث بنے وہ محدود رہا۔ وقت آگے بڑھتا گیا مگر افسانہ نے اسی بیانیہ اور کہانی پن کے تکنیکی اظہار کی واپس راہ اختار کی ”ایک بوند زندگی“ جس میں شامل سبھی افسانوں سے قلم کار کی فنی صلاحیتیں نمایاں ہیں جس نے افسانے کے تسلسل اور بیانیہ کے سہارے قارئین کی توجہہ و دلچسپی کو افسانے کی اختتام تک برقرار رکھا۔

                موضوع کے اعتبار سے ”زچ“ اور ”ہارا ہوا محاذ“ یہ افسانے طوالت کے باوجود زبان و بیان اور افسانوی انداز تحریر ہمیں بے حد متاثر کرتے ہیں۔ شامل مجموعہ افسانوں میں پہلا جس کا عنوان ہے۔ ”فیصلہ“ جس میں مرکزی کردار جج شکری مرغ کو اپنا شکار بنانے کی بجائے آزادی کا حکم صدار کرتاہے۔ جو انصاف کے عہدے پر فائز شخص کے نرم گوشہ قلب کی دلیل ہے جسے مرغ عنا ی ہاحساس دلایا اور رحم طلب نظر ڈالی کہ ناحق زندہ کو درگور یا زبح کرتایہ کہاں کا انصاف ہے۔”ڈیتھ سرٹیفکیٹ“ افسانہ جس میں سرکاری دفاتر میں رائج سسٹم کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ جہاں سرکاری قوانین و اصولوں کی آڑ میں کسی بھی انسان کے سامنے دشواریاں پیدا کی جاتی ہیں۔ جن سے وہ یا مطلوبہ حصول دستاویزات کا ارادہ ترک کرے یا پھر افسران ادنیٰ و اعلیٰ دونوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے جنہوں نے مسائل حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ کردیاہے۔ افسانہ ”زچ“ حصول اولاد کی تمنا میں اٹھائے ان اقدام کی کہانی ہے جس نے ازدواجی رشتہ کی پاکیزگی کو روند کر ایسی راہ اختیار کرلی جو مذہبی روایات کے اس غار تک لے جاتی ہے۔ جہاں امید کی کرن ذہن و دل کے مایوس گوشہ کو روشن کرتی ہے مگر اَنا کا جگنوہردل انساں میں شب و روز اڑتا پھرتاہے جس نے کردار افسانہ سا دل کے دل میں بھی ایک ایسی روشنی پھیلادی جس میں وہ کبھی اپنے آپ کو نیلام ھوتا دیکھنے کا خواہاں نہیں تھا۔ دوران افسانہ کرداروں سادل اور خوشو کے درمیان مکالمات دلچسپ ہیں۔

                ”مکتی“ نجات، یہ افسانہ بلیدان کی ایک مثال ہے جو مذہبی روایات کے پیش نظر کہانی ضمنی کردار کی زندگی کے یثار پر ختم ہوتی ہے۔
                ”کیا نہیں ہوسکتا“ اس افسانہ میں عصری مسائل کو تخیل کی بنیاد پر افسانوی رنگ میں پیش کیاگیاہے جس میں رشوت جیسے مہلک مرض کو سرکاری دفاتر و ملازمین میں پھیلنے اور ان سے چھٹکارہ لاحاصل وغیرہ ممکن بتلایا گیاہے۔ سیاسی لیڈران کی راہ نمائی میں افسران بالا کا راہ رشوت اختار کرنا اور ان کے خرابئی ایمان اورپراگندہ ماحول کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ افسانہ ”مکلاوہ“ طویل ہونے کے باوجود ہی کلائمکس جاننے کیلئے قاری اسکی گرفت سے نہیں نکل پاتا۔ کردار افسانہ رفلوکی موت واقع ہونے پر دلہن نے جو انکشاف کیا وہ رفلو کے ایثار کا نتیجہ ہے کیوں کہ خود رفلو نے بھی فرضی طورپر دلہن کے تئیں اپنے دل میں ایک احساس وفا لیئے ایسی راہ اختیار کرچکا تھا جو موت کے جانب پڑھتی ہے افسانہ نگار نے متاثر کن انداز میں واقعہ کو افسانوی رنگ دیاہے۔
                قلم کار جب اپنے قرب جواز کے ماحول سے کوئی تاثرلیتاہے تب تخلیقی اظہار کے لیئے ذہن قلم تھامے پر مجبورتاہے اور گردونواح پر گہری نظر ڈالتا ہے جس نظریئے، فکری زاویہ نگاہ معاشرے کی جانب دوڑاتاہے تو شہکار تحریریں صفحہ قرطاس پر براجمان ھوجاتی ہیں افسانہ ”گرفتہ“ بھی حالات قرب و جواز قلم کار کی ترجمانی کرتاہے ادتیہ کردار افسانہ کو درپیش دشواریوں کا تذکرہ افسانوی انداز میں متاثرکن ہے۔
                افسانہ ”کھانسی ایک شام کی “ جس میں ایام موجودہ کی ھورہی مقدس و محترم رشتوں کی پائمالی اورمخلص جذبوں کے استحصال کی بہترین عکاسی کی گئی ہے حالات حاضرہ اور تیزرفتار زندگی کے تناظر میں بنی لال کردار افسانہ جس کا اپنا بیٹا باپ کے جذبات کو مجروح کرتاہے جو اس نے موت کو بیٹے کے بدلے گلے لگالیا۔
                ”ہارا ہوا محاز“ آج کل نئی دہلی نے اس افسانہ کو شائع کیا تھا راقم الحروف نے مابعد مطالعہ افسانہ مذکورہ یہ تصور کیا کہ قلم کا رشاید محکمہ جنگلات میں ملازم ہے یا پھر حیوانات سے متعلق کسی شعبہ سے وابستہ ہوگا جس نے شیر کی حیوانی زندگی کو اتنی قریب سے دیکھا اور کس طرح دشت میں اس حیوان کے شب و روز گذرتے ہیں جہاں ان کی اپنی تہذیب ہوتی ہے ان کے اپنے جینے کے اصول بھی ہوتے ہیں جن کے نسل افزائش سے لے کر پرورش اور موت تک کے فاصلے سے افسانوی تخیل کا گذرھوتاہے قلم کار کے ساتھ ساتھ قاری بھی خود کو دشت و شہر کے بیچ محسوس کرتاہے۔ یہ بیانیہ انداز کی گرفت ہے جو قاری کو دشت سے نکلنے نہیں دیتی۔
                ”چور“ اس افسانہ سے یہ واضح نہیں کہ ھوٹل کے روم بوائے کو مرکزی کردار افسانہ نے خطیر رقم ایک لاکھ کیوں کردی خود جس نے دو لاکھ روپیئے انشورنس کمپنی سے بطور بونس حاصل کئے تھے۔ جس کے صرقہ کی جھوٹی اطلاع پولس کو دی گئی تھی یا روم بائے کے تئیں مرکزی کردار اس اپنے قلب میں نرم گوشہ رکھتا ہے کہ خود چل کر ایک لاکھ اسکے حوالے کردے بطور ٹپ موٹی رقم ھوٹل کے کسی روم بوائے کو کھلے عام نہیں عطا کی جاسکتی۔ موضوع افسانہ اور کلائمس دونوں کے درمیان قاری تذبذب میں مبتلا رہتاہے۔
                قندکرہ بالا افسانوں پرمشتمل”ایک بوندزندگی“ بلراج بخشی کا اولین مجموعہ ہے جسے حلقہ ارباب ذوق و قارئین افسانہ نگار کی فنی صلاحتوں کو پرکھیں گے تب انہیں بیانیہ انداز و تسلسل پر مبنی ان افسانوں کو ایک معیاری مقام عطا ہوگا۔ بلراج بخشی کے افسانے قابل شتائش اور وہ مبارکباد کے مستحق ہیں جن سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ تخلیقات افسانہ کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
                                                                تجزیہ نگار : مسعود علی تماپوری، گلبرگہ
                                                                رابطہ : 9886049489


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو