نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عبدالحمید انصاری کے خدمات

جمیل احمد
ایم ۔اے، پی ۔ہیچ ڈی۔ریسرچ اسکولر
اُردو لیکچرر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، فرسٹ گریڈ کالج بیدر(کرناٹک(
 
عبدالحمید انصاری کے خدمات



اہل یوروپ وطن اور قوم کی خدمت کرنے والوں کی طرف ان کی خدمت کو دیکھتے ہی جو انہوں نے عام بھلائیوں کیلئے کی ہیں اور ان کے عیوب پر مطلق نظر نہیں کرتے لیکن اہل مشرق اپنے قومی رہنماں اور دیگر سماجی کاموں میں مصروف افراد کے عیوب کی تلاشی کرتے ہیں بلکہ انکی تشہیر کرتے ہیں لیکن ان شخصیتوں کی خوبیوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کی عملی، سماجی، تعلیمی اور سیاسی خدمات سے بخوبی واقف رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت روزنامہ’’انقلاب" کے بانی مرحوم عبدالحمید انصاری کی ہے۔
            عبدالحمید انصاری کے آباءواجداد کا تعلق غازی پورہ بارہ بنکی سے ہے ان کے والد حافظ نظام الدین بارہ بنکی سے ممبئی ہجرت کی ممبئی میں اندھیری علاقےہ کی ایک مسجد میں پیش امام کی خدمات انجام دی۔
            عبدالحمید انصاری کی پیدائش31دسمبر1906 ءکو شہر ممبئی میں ہوئی وہ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے یعنی ان سے دو بڑے بھائی اور دوبڑے بہنیں تھیں محض10سال کی عمر میں والدین کا سایہ سے محروم ہوگئے غرض ان کا بچپن یتیمی ور یتیم خانہ میں گذارا یہیں سے انہوں نے اردو انگریزی کی تعلیم حاصل کی پھر انجمن خیر الاسلام میں بھی زیر تعلیم رہے ان ہی دوران انہوں نے اپنے بھائی عبدالرحمن صاحب کی مالی حالت کو محسوس کرلیااور اسی کے پیش نظر ان تعلیمی سلسلہ منقطع کردیا۔ اس وقت وہ انٹر کرچکے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب روزگار کا مرحلہ مشکل ہوچکا تھا انہوں نے اسی کا حل عارضی ملازمت اور ٹیوشن کی شکل میں تلاش کی۔ ملازمت اور ٹیوشن کے بعد اپنا زیادہ تروقت محفل افضال پیمبری (محفل پیمبری نیشلسٹ مسلمانوں کی انجمن تھی) حسینی باغ مدنپورہ میں گذارتے یہیں سے سماجی، سیاسی میدان اور جدوجہد آزادی میں انہوں نے قدم رکھا۔
            عبدالحمید انصاری محفل افضال پیمبری کے سرگرم رکن بنے از بعدصدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور عمر کے اخری حصہ تک اس انجمن سے وابستگی رکھی۔ آپ کی زندگی جدوجہد آزادی اور صحافت پر مشتمل نظر آتی ہے۔ جب برطانوی نظام کے خلاف 1857ءکی ناکام بغاوت کے بعد مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کرکے جلاوطن(رنگون) کردیا گیا اور انگریزوں نے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بجائے ہندوستان کا نظام حکومت برطانوی پارلیمنٹ کے زیر نگرانی آگیا لیکن انگریز مسلمانوں کے اپنے اقتدار کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے انہوں نے "پھوٹ ڈالوراج کرو" کی پالیسی پر عمل شروع کردیا تھا۔ اس کی وجہہ سے ہندوں اور مسلمانوں کے آپسی روہئے میں اچانک تبدیلی رونما ہونے لگی۔ اور عیسائی مشنریاں بھی اسلام کے خلاف کافی غلط فہمیاں پیدا کردی تھی اور دونوں فرقوں کے درمیان نفرت کے روئیے نے برطانوی سامراج کی جڑیں مضبوط کردیں۔1885ءمیں قائم ہونے والی انڈین نیشنل کانگریس بیسویں صدی کے آغاز میں لارڈ کرزن کی پالیسی کی وجہہ سے کانگریس اعتدال اور انتہاہ پسند گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔ ان دو گروپوں کے علاوہ مسلمانوں کے مسائل کومدد نظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ بھی وجود میں آچکی تھی۔ فرقہ وارانہ نوعیت پر بنگال کی تقسیم"ہوم رول تحریک" کو دبانے کیلئے سخت قوانین منظور کئے۔ 1919ءمیں باغیانہ جرائم کی روک تھام کیلئے حکومت نے رولٹ ایکٹ منظور کیا اور انگریز فوج کی مسلح خونریزی کاروائیاں کی وجہہ سے ہندوستانیوں میں بے چینی پھیل گئی۔ دوسری جانب مہاتماگاندھی جنوبی افریقہ میں نسل تعصب سے مقابلہ آرائی کے بعد وطن واپس آئے تو ہندوستان کی سیاسی و سماجی حالات کا بغور جائزہ لیا۔ اہم سیاسی رہنماں سے ملاقات کے صلاح ومشورے کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کی سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔ اسکے کچھ عرصے بعد جدوجہد آزادی کی باگ دوڑ سنبھال لی۔ وہ انگریزوں کی غیر انسانیت پالیسیوں کو منسوخ کرنے کیلئے ستیہ گرہ تحریک شروع کی جس سے ملک کے کئی علاقوں میں تشدد پھوٹ پڑا۔ گاندھی جی اور دوسرے رہنماں سمیت ہزاروں لاکھوں احتجاجیوں کو گرفتار کرکے جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ اسی درمیان بھگت سنگھ، اشفاق، سکھ دیو، چندرشیکھر آزاد وغیرہ کو پھانسی اور جلیان والا باغ میں خون ریزی کا راوئی سے ملک بھر میں برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑک اُٹھے ملک گیر سطح پر احتجاج تیز ہوگیا۔ احتجاجی جلسے منعقد کئے جانے لگے ہر طرف انقلاب زندہ آباد اور آزادی کے نعرے بلند ہونے لگے۔
            ہندو مسلم رشتوں کے درمیان انگریزوں نے جو تفرقہ ڈال دیا تھا لیکن1920ءمیں شروع ہونے والی خلافت تحریک نے بھی آزادی تحریک کو اپنا لیا اور ملک بھر میں بیداری سی پیدا ہوگئی۔ لاکھوں مسلمان مذہبی جذبات وقومی بیداری او ر تحریک خلافت کے بہا میں قوم کا سفینہ حیات لے کر چلے اور کانگریس کے ساتھ جدوجہدآزادی میں شریک ہوگئے۔ جس سے ملک بھر میں تحریک خلافت سے جڑے ہوئے رہنماں کی گرفتاریاں ہوئی علی برادران بھی جیل روانہ کردیئے گئے۔ محفل اضفال پیمبری کے صدر کی حیثیت سے انصاری صاحب بھی اسی احتجاج میں شریک ہوگئے اور گرفتار کرلئے گئے۔ گررفتاری کے بعد یروڈہ جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں پہلے ہی جناب عابد علی ، جعفری بھائی، حافظہ علی، بہادر خاں، گاندھی جی کے سکریٹری پنڈت پیارے لال ودیگر رہنمالیڈروں اور اہل قلم حضرات کی صحبت میں استفادہ کا پورا موقع ملا۔ انصاری صاحب کی باغیانہ طبعیت نے وہاں بھی انہیں چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ بے گناہ قیدیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج بلند کی۔ اسی تعلق سے جناب جاوید جمال الدین نے اپنی کتاب "عبدالحمید انصاری-انقلابی صحافی اور مجاہد آزادی" میں لکھتے ہیں۔
            "جناب عبدالحمید انصاری کو یروڈہ جیل میں ایک ایسا ماحول ملا جس سے انکا دم گھٹنے لگا۔ جیل میں بے گناہ قیدیوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ اخلاقی جرائم میں سزایافتہ قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی اور نارو اسلوک کیا جاتا تھا۔ انصاری صاحب کی باغیانہ طبیعت نے وہاں بھی انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ قیدیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ انہوں نے قیدیوں کی ایذاءرسانی پر جیل کے سپاہیوں اوار وارڈن سے لڑنا جھگڑنا شروع کردیا۔ انصاری صاحب کے باغیانہ رویے کی اطلاع جیلر کوئینس کو دی گئی۔ جیلر نے اس کا سخت نوٹ لیا اور انصاری صاحب کو مختلف نوعیت کی سزائیں دی جانے لگیں۔ اس کے باوجود وہ باز نہیں آئے جیل کے حکام نے انہیں چکی پیسنے کی سزا دینے کا فیصلہ کیا اور انصاری صاحب کو علیحدہ کوٹھری Separte Cell میں بلند کردیا گیا۔
            انصاری صاحب کو گاندھی -لارڈ ارون سمجھوتہ کے بعد ستیہ گرہ کے قیدیوں کے ساتھ نہیں چھوڑا گیا۔ اس بات کا پتہ انہیں بعد میں چلا کہ جیل حکام نے انہیں ناقابل اصلاح قیدی قراردے دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان پر تشدد اور ملکہ معظمہ اور تاج برطانیہ سے بغاوت کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مزید سزا دینے کے سفارش کی گئی جو منظور کرلی گئی۔"      
عبدالحمید انصاری، انقلابی صحافی اور مجاہد آزادی، جاوید بحالدالدین، ص نمبر40

اسی کے باوجود عبدالحمید انصاری صاحب قیدیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھا اور بھوک ہڑتال شروع کردی پہلے جیل کے حکام نے انہیں ایک علیحدہ کوٹھری میں متصل کال کوٹھری میں منتقل کردیا اور انہیں کئی طریقوں سے ہموار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے پھر جیل انتظامیہ نے ایک انتہائی سنگ دل اور بے رحم شخص جمعہ دار والایت خان کو متعین کررکھا وہ باتوں باتوں میں خوف زدہ کرتا۔ داصل وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ یہ بھوک ہڑتال کے دوران ان کی موت واقع ہوجائے تو حکام کی اس بات کے متعلق پرواہ نہیں ہے اس ڈرانے دھمکانے کے حربوں کے ساتھ یہ بی باور کرانے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ سزا کے دوران مرنے کے بجائے انگریز حکومت کی شرائط قبول کرلیں۔ وہ اپنے طور پر انصاری صاحب کو ہموار کرنے میں ناکام رہا۔ اس نے کئی مرتبہ اپنے ازیت کے طریقے بھی استعمال کرنے کی کوشش کی اس کے باوجود انگریزی حکومت کی پیش کشی کو ٹھکرادیا چنانچہ اس تعلق سے عبدالحمید انصاری رقمطراز ہیں وہ لکھتے ہیں۔
            "ولایت خان مجھے اس بات کا بھی بار بار احساس کراتا رہتا کہ ڈھائی سال کے سزائے قید بھگتے بھگتے مجھے جیل میں موت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس لئے میرے لئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ میں کافروں یعنی کانگریسیوں کا ساتھ چھوڑ دوں اور قسم کھا کر یقین دلایا کرتے کہ اگر میں معافی مانگ لوں تو وہ جیل حکما کے ذریعے حکومت سے سفارش کریں گے اور مجھے رہائی نصیب ہوگی۔ لیکن میں نے ان کے معرفت حکومت کی اس پیشکش کو مسترد کردیا۔ میں نے ایک روز ولایت خاں کو نصیحت کی کہ وہ بے کس اور مجبور قیدیوں پر وحشیانہ مظالم سے باز آجائے۔ ورنہ قیامت کے دن اسے ان معصوم قیدیوں پر کئے جانے والے مظالم کا حساب دینا مشکل پڑجائے گا۔ میں نے کہا کہ میں نے طون کی محبت میں جیل کی زندگی برضا قبول کی ہے جو اسلام کی ہدایت کے مطابق ہے کی حب الوطنی ایمان کا جز ہے۔ میں نے اسے حق کی خاطر بھوکے پیاسے رہ کر اپنے سرکٹوادیئے مگر یزید کی بیعت قبول نہ کی۔ آخر میں بھی ان بزرگوں کا نام لیوا اور پرستار ہوں۔ کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں معافی مانگ کر اپنے خدا کے حکم کی خلاف ورزی کروں۔ ایک ایسے رسول کا امتی ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے جس نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا۔ میں ذلت اور غداری کا طوق پہن لوں، یہ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا ہے۔"
            عبدالحمید انصاری-انقلابی صحافی اور جدوجہد آزادی- ازجاوید جمال الدین، ص نمبر41,42
            مہاتما گاندھی اور لارڈ ارون کے درمیان مجھوتہ کے پیش نظر ستیہ گرہ کے سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا گیا۔ لیکن انصاری صاحب پر حکومت برطانیہ کے خلاف بغاوت کا الزام عائد کیا گیا تھا اسی لئے انھیں مزید ایک سال جیل میں گزارنا پڑا۔
            حافظ علی اور عبدالحمید انصاری کے ہمراہ روزنامہ"ہال"جاری ہوا لیکن ایک ناقابل اعتراض مضمون شائع ہونے پر دوسری مرتبہ عبدالحمید انصاری کو یروڈہ جیل بھجوایا گیا۔ عبدالحمید انصاری کا بچپن یتیم خانہ اور زمانہ شباب جیل خانہ1936ءتک مصیبتوں اور تکالیف کا ایک سخت ترین دور رہا رجس میں جواں مردی اور عزم کے ستھ یروڈہ جیل میں ظالم انگریزوں حاکموں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
            عبدالحمید انصاری مالی دشواریوں کے سبب تعلیم مکمل نہیں کرسکے لیکن جیل کے ازیتوں اور وہاں وقت میسر ہونے کی وجہہ سے کتابوں کے مطالعے کے ساتھ ساتھ قابل اور باصلاحیت سیاستدانوں اور اہل قلم حضرات کی صحبت کے نتیجے میں انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ خلافت تحریک کے دوران روزنامہ خلافت سے کچھ عرصہ وابستگی اور پھر روزنامہ"ہلال"میں باقاعدہ ملازمت نے ان میں صحافتی شعور پیدا کردیا تھا بلکہ اس میدان کے نشیب وفراز میں انہیں واقفیت حاصل ہوگئی تھی۔
            عبدالحمید انصاری روزنامہ"ہلال" سے علیحدگی کے سبب اپنے چند دوستوں کی مدد سے عینی (انسانیت رشتہ) دسمبر1938ءروزنامہ" انقلاب" کا اجراءعمل میں لایا اور اپنے عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں تن من دھن کی بازی لگادی تھی اسی زمانے میں اردو کے دوسرے روزنامہ بھی مقابلہ آرائی میں عروج پر تھے لیکن عبدالحمید انصاری نے اپنی سیاسی اور سماجی مصروفیات کے باوجود روزنامہ"انقلاب کو چند سالوںمیں ترقی کی منزل تک پہنچادیا غرض روزنامہ"انقلاب" اُردو داں طبقہ کا ترجمان بن بدلتی ہوئی صورت حال میں اردوداں طبقہ اور مسلمانوں کے مسائل کا حل کروانے اور انکی آواز کو حکومت کے ایوانوں تک پہنچانے کیلئے روزنامہ"انقلاب"کو مزید مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے تحت انصاری صاحب نے سب سے پہلے سرگرم سیاست سے کنارہ کشی کرلی اور کانگریس سے مستعفیٰ ہوگئے۔ انصاری صاحب آزادی اور آزادی سے قبل کانگریس کے جھنڈے تلے جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کے باوجود صحافتی اصول پر کاربند رہتے ہوئے انقلاب کو ایک غیر اجنبدار اخبار بنائے رکھا۔ روزنامہ"انقلاب"کی غیر جانبداری کے تعلق سے6جولائی1965ءکو جناب عبدالحمید انصاری نے بعنوان"انقلاب کی پالیسی میں کسی قسم کی مداخلت گوارا نہیں کی جاسکتی۔ وہ اپنے ایک ادارے میں لکھے میںملاظم ہو۔
            "اس حقیقت سے نہ صرف انقلاب کے تمام قارئین بلکہ مجموعی طور پر اردو داں طبقہ واقف ہے کہ تقریباً۷۲سال سے یعنی اپنے یوم اجراءہی سے روزنامہ انقلاب اپنے طریقے کار کے لحاظ سے ایک خاص پالیسی پر کاربند رہا۔ وہ یہ ہے کہ اس نے جب کبھی کسی مسئلے کو اُٹھایا ہے تو اسے اپنے عقل ودانست اور علم بصیرت کے مطابق ایمانداری اور پورے خلوص سے پیش کیا ہے۔ اس نے کہیں کسی معاملے یا مسئلے میں نہ مصلحتوں کی پروا کی ہے اور نہ اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کی۔ انقلاب کا ہمیشہ یہ وطیرہ اور طریقہ رہا کہ جس شخص کو لائق مدح سمجھا اس کی ستائش اور دل کھول کر تعریف کی لیکن ایسی شخصیتوں کی جانب سے بھی اگر کوئی قابل اعتراض حرکت سرزد ہوئی تو بلا روورعایت اور بے خوف وخطر اس کی مذمت کی۔ بمبئی کے محلے مدنپور ہ کے پیر محمد اور عبدالجبار جیسے ذہنی پربودے کامریڈوں سے لے ڈانگے اور رندیو ے جیسے بین الاقوامی شہرت یافتہ اشتراکی لیڈروں تک سب کے ساتھ ایکساں سلوک کیا گیا۔ اچھے اور نیک قدم اُٹھانے پر تعریف کی اور غلط حرکت پر ان کی مذمت کی گئی۔ یہی حال کانگریس لیڈر شپ کے ساتھ کیا گیا۔ ہندوستان کے محبوب ترین رہنما جواہرلال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ بھی اسی قسم کارویہ رورکھا۔ گزشتہ27سال کے طویل مدت میں انقلاب کو اس کی اس ڈگر سے ہٹانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ مگر انقلاب کے قدموں کو اکھاڑ نہیں سکے۔ اس کے قدم اور مضبوطی اور سختی اور مزید عزم سے آگے بڑھتے رہے۔ انقلاب کے پارٹز جناب صالح بھائی عبدالقادر اور دیرینہ رفیق اور محسن جناب عبد جعفر بھائی انقلاب کو کانگریس کی سو فیصد حمایت کی جانب لے جانا چاہا تو رقم الحروف نے پارٹز شپ ٹوٹ گئی اور انقلاب کی کشتی حیات ہلاکت کے بحرزخار کی عظیم منجد ھار میں پھنس گئی۔ لیکن جوچونکہ انقلاب نے اپنے محافظ حقیقی پر بھروسہ کیا اور اپنی کشتی حیات اپنے اصولوں اور پالیسی کی بقاءکے لئے مصیبتوں اور آزمائشوں کے طوفان کے حوالے کردی تھی۔ اس لئے بفضل ایزدی وہ ڈوبنے کے بجائے نہ صرف زندہ سلامت ساحل مراد سے ہمکنار ہوئی بلکہ دن بہ دن کامیابیوں اور کامرانیوں کے نئے مرحلے بھی طئے کرتی رہی۔"
            عبدالحمید انصاری: انقلاب صحافی اور مجاہد آزادی، جاوید جمال الدین ، ص نمبر81,80
            روزنامہ "انقلاب کی بے باکی اور اسی کی خصوصیت رہی ہے کہ اس نے جب بھی حکومت وقت کی غلطی کو سمجھا تو برابر اسی پر توجہ دلائی تنقید کا صحیح راستہ دکھایا۔ مظلموں اور کمزور طبقوں اُردو کے فروغ کیلئے اقدامات، دینی ادبی تعلیمی نسواں کی تائید اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ وغیرہ کی خمایت اور ان کے دفاع میں ہمیشہ کھڑا رہنا انقلاب کا وطیرہ رہا ہے۔ عبدالحمید انصاری کی عوامی خدمات کا سلسلہ روزنامہ انقلاب کے اجراءسے قبل محفل افضال پیمبری اور کانگریس کے ذریعہ شروع ہوچکا تھا وہ ضرور ایک قوم پرست مسلمان تھے۔ 1940-47ءکے درمیان محمد علی جناح کی سیاست کے سبب مسلمانوں پر کافی اثر ہوا ایسے حالات انصاری صاحب کی کچھ اخبار کی مجبوری اور وقت کا تقاضاءاور مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا خیال کرتے ہوئے وہ مسلم لیگ کے قریب ہوئے اس کے بعد بھی مسلم لیگ کی غلطیوں اور خامیوں کی کھل کر مخالفت کرتے رہے۔مسلم لیگ سے قربت کی غلطی کا احساس انہیں ہمیشہ رہا۔ آزادی سے قبل آزاد ی کے بعد ارد صحافت میں اتنے مشہور ہونے کے باوجود انہوں نے ہجرت نہیں کی۔ بہ حیثیت انسان عبدالحمید انصاری اپنے وقت کے ایک بہت ہی دلچسپ نباض انسان تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ شروع سے اصل معنی میں ملک عزیز کے مرد مجاہد صحافی اور ایک بہترین انسان بھی تھے انہوں نے جب اور جہاں بھی قدم رکھا پہلے سوچتے تھے اور جب اطمینان ہوتا تھا تو اسی کام پر دل وجاں سے لگ جاتے اور اسے کمل کرکے دم لیتے تھے یہی وجہہ ہے کہ انہوں نے عہد جوانی میں ہی برطانیہ کی سامراجیت کے خلاف خلافت اور اس طرھ کے دیگر تحریکوں میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس میں زیادہ خطرہ ہے۔ شرکت کی اور برسوں تک مجاہدانہ سرگرمیوں کے لئے تکلیف ومصیبت اُٹھاتے رہے اور آخری دم تک روزنامہ"انقلاب"کے ذریعہ اسی ہندوستان کے قارئین کو روز سر نو خبریں مہیا کرتے رہے اور ۷مارچ۲۷۹۱ کو ادارفانی اجل کو لبیک کہا۔
            عبدالحمید انصاری نے جس جوانمردی اور عزم کے ساتھ جنگ آزادی اور صحافتی زندگی میں جدوجہد کا مقابلہ کیا وہ قابل تعریف ہے جو سنہری لفظوں سے لکھنے کے لائق ہے۔

                       

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو