نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

افسانہ : شرارتی : سیف قاضی

شرارتی


اُس کی شرارتوں سے سب عاجز تھے چاہے گھر والے ہوں محلے کے لوگ یا رشتے دار ،وہ کسی کے ساتھ رعایت نہ رتتا تھا۔اُس کی شرارتوں ہی نے اسے پورے محلے میں مشہور کیا ہوا تھا۔اکثر لوگ اس کا نام سنتے ہی منہ بنا لیتے اور اکثر کے چہروں پر مسکراہٹ آ جاتی۔اکثر کے منہ سے بے اختیار برے الفاظ اس کے لئے نکل جاتے۔
وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنی ماں اور اس کے رشتے داروں ہی کو دیکھا تھا۔باپ اس کے پیدا ہوتے ہی ماں کو چھوڑ گئے تھے کیوں ؟ یہ راز آج تک کسی کو پتہ نہ تھا ،اور شاید اس کی حرکتوں کا کارن بھی یہ ہی بات تھی۔کیونکہ لوگوں کی اُلٹی سیدھی باتوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا ،اور نہ ہی ابھی سمجھ اتنی تھی کہ ایسی باتوں پر توجہ دے۔لہذا وہ اپنی حرکتوں سے اپنا غبار نکالتا۔

اُس نے آنکھ کھولتے ہی اپنی ماں کو محنت کرتے دیکھا تھا۔ان کی ایک کپڑوں کی دوکان تھی جس میں عورتوں اور بچوں کے سلے سلائے کپڑے ملتے تھے اُ ن کی دوکان صدر کے علاقے میں تھی۔اس کی نانی ان کے ساتھ رہتی تھیں جس کی وجہ سے انہیں کھانے پکانے کا پرابلم نہیں تھا۔وہ اسکول جاتا واپسی پر نانی کھانا کھلاتیں اور اسے ہوم ورک کرنے کے لئے کہتیں اور خود کیونکہ تھک جاتی تھیں اس لئے بیچاری لیٹتے ہی سو جاتیں ،اور یہ ہی اس کے لئے سنہرا وقت ہوتا وہ چپکے سے گھر سے باہر نکلتا۔
کسی گھر کی کنڈی باہر سے بند کر دیتا۔کسی کی کیاری کھود ڈالتا۔کسی گھر پر چاک سے چار سو بیس لکھ دیتا۔کسی کا دروازہ کھٹ کھٹا کر بھاگ جاتا۔آدھے گھنٹے میں وہ یہ سارے کام نمٹا کر گھر آ جاتا اور نانی کے اُٹھنے سے پہلے پہلے گھر واپس آ کر کام کرنے بیٹھ جاتا۔
جب لوگ شکایتیں لے کر آتے تو نانی بیچاری معصومیت سے قس میں کھا کھا کر کہتیں کہ وہ گھر میں تھا اور اسکول کا کام کر رہا تھا۔اور یہ خود معصوم صورت بنائے بیٹھا رہتا۔اور دل ہی دل میں قہقہے لگاتا۔کبھی کبھی اسے نانی پر ترس بھی آتا مگر بہت کم۔
ماں اسے بہت سمجھاتی جب اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تو رونے لگتی اسے ماں سے ہمدردی ہوتی مگر بس تھوڑی دیر اور پھر باپ کی کمی ماں کی ہمدردی پر حاوی ہو جاتی ،اور لوگوں کے الٹے سیدھے سوال اس کے کانوں میں گونجنے لگتے۔
سب سے عجیب بات یہ تھی وہ پڑھائی میں بہت اچھا تھا اسکول سے کبھی اس کی کوئی شکایت نہیں آئی تھی۔اور یہ ہی بات اس کی ماں اور نانی کے لئے اطمینان کا باعث تھی۔
اسی طرح شکایتیں سنتے شرارتیں کرتے اور پٹتے اس نے پرائمری اسکول ختم کیا اور سیکنڈری اسکول میں آ گیا وہ اب بھی شرارتیں کرتا مگر اب اس کی شرارتیں بھی بڑی ہو گئیں تھیں۔اب وہ ایک گھر کی کندی میں دھاگہ باندھتا اس کو دو تین دفعہ کھٹکھٹاتا اور دھاگہ سامنے والے گھر میں پھینک کر خود اپنے گھر آ جاتا ،اُن دونوں گھروں میں لڑائی ہو جاتی اور یہ گھر میں بیٹھ کر ہنستا رہتا۔
نانی اب کافی ضعیف ہو گئیں تھیں۔اس لئے انہوں نے ایک ماسی برتن دھونے کے لئے رکھ لی تھی ،شام کے وقت ماسی برتن دھونے آتی وہ برتن دھو کر اُٹھتی تو یہ پلاسٹک ی چھپکلی اس مہارت سے رکھتا کہ وہ سچ مُچ کی چھپکلی سمجھ کر چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اُٹھا لیتی اور یہ ایسا بن جاتا جیسے کچھ پتہ ہی نہیں۔ماں کو پتہ چلتا وہ بہت سمجھاتی کہ کسی دن بہت بڑا وبال کھڑا ہو جائے گا۔ وہ وعدہ کرتا کہ آئندہ ایسا نہیں کرے گا مگر دو دن بھی اپنی بات پر قائم نہ رہ پاتا۔
اُن کے کسی رشتے دار کی شادی تھی یہ لوگ وہاں جا رہے تھے۔شادی میں کھانے کا بھی انتظام تھا۔کھا نے میں صرف ایک ڈش کی اجازت تھی اس لئے زیادہ تر لوگ بریانی اور رائتہ یا دہی رکھتے تھے اور ایک میٹھی ڈش ہوتی تھی۔ٹیبلز پر کھانا رکھا جا رہا تھا دو ٹیبلز پر اس نے ویٹر سے کہہ کر دہی کے کونڈوں کی جگہ کھیر کے کونڈے رکھوا دئے۔اور لوگوں نے بریانی میں کھیر ڈال لی ،مارے شرمندگی کے کچھ نے تو اسی طرح کھایا اور کچھ نے پلیٹیں چھوڑ دیں۔جب ویٹرز پر ڈانٹ پڑی تو وہ اس لڑکے کو ڈھونڈھتے ہی رہ گئے۔
ایک دفعہ اس کی کوئی رشتے دار ان کے گھر ایک دن ٹھہر کر اگلے دن دوسرے شہر جانے والی تھیں ان کا گھر کیونکہ ٹرین اسٹیشن کے قریب تھا اس لئے وہ ایک دن ان کے پاس رہ کر اگلے شہر جانے والی تھیں وہ ان کے گھر پہنچیں سب ملنے ملانے میں لگے اسے موقعہ ملا اس نے ان کے دونوں سوٹ کیس سب سے نظر بچا کر اسٹور میں رکھ دئے۔جب سب لوگ ذرا اطمینان سے بیٹھے تو انہوں نے اپنا سامان دیکھا تو دو سوٹ کیس غائب۔اب تو وہ بڑی پریشان ہوئیں ماں اور نانی بھی حیران کہ سامان کہاں گیا ایک ہنگامہ مچ گیا سب کمرے میں برآمدے میں سب جگہ دیکھ لیا باہر بھی دیکھ آئے سوٹ کیس کہیں نظر نہ آئے سب حیران ماں کو ایک دم اس کا خیال آیا جا کر کان پکڑ لیا اس نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا مگر ماں نے سب کے سامنے مارنے کی دھمکی دی تو اس نے بتایا کہ اس نے وہ سوٹ کیس اسٹور میں رکھ دئے ہیں۔
دوسرے دن اُن لوگوں کے جانے کے بعد ماں نے پھر سمجھایا کہ خدا را اپنی شرارتوں سے باز آ جاؤ ورنہ کسی دن بہت برا پھنسو گے۔وہ خاموش سنتا رہا پھر اُٹھ کر باہر چل دیا۔اُسے لوگوں کو اس طرح پریشان کر کے تسکین ملتی تھی۔اور اُن باتوں کا جواب جو لوگ اس کے باپ کے بارے میں پوچھتے تھے۔جو وہ ماں اور نانی سے شیئر نہیں کر سکتا تھا۔
وہ گھر سے باہر نکلا ہاتھ میں پرکار تھا۔برابر کے گھر والوں کے یہاں ایک گدھا گاڑی کھڑی تھی جس پر سیمنٹ کے بلاک رکھے تھے جو مزدور اُٹھا اُٹھا کر گھر کے اندر لے جا رہا تھا اور گدھا گاڑی کا مالک دروازے کے قریب کھڑا چائے پی رہا تھا۔اس کی رگِ شرارت پھڑکی اور اس نے گدھے کے قریب سے گزرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا ہوا پرکار گدھے کے چبھا دیا گدھا ایک دم چیختا ہوا بھاگا اس کے پیچھے پیچھے گدھا گاڑی کا مالک اور مزدور بھی حیران پریشان بھاگے۔بڑی مشکل سے گدھے کو قابو کیا اور ایک دوسرے سے اس کے بھاگنے کی وجہ پوچھتے رہے اور یہ چپ چاپ گھر واپس آ گیا۔
اس نے میٹرک بڑی اچھی پوزیشن سے پاس کیا پورے صوبے میں سیکنڈ آیا تھا اس لئے اسے وظیفہ دیا گیا۔ماں اور نانی بہت خوش تھیں وہ خود بھی خوش تھا اور کسی بہت اچھے کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا جو اب اس کے لئے مشکل نہ تھا اس نے اپنے شہر کے سب سے اچھے کالج میں داخلہ لیا اور پڑھائی میں پورے تن من دھن سے لگ گیا۔ نانی بہت بوڑھی ہو گئیں تھیں اور ماں بھی تیزی سے بڑھاپے کی طرف رواں دواں تھیں۔مگر وہ اپنے بیٹے کو بہت بڑا آدمی دیکھنا چاہتی تھیں ،اس لئے کبھی اس کے سامنے اپنی کسی تکلیف کا ذکر نہ کرتی تھیں تاکہ وہ سکون سے پڑھ سکے۔اب اسے شرارتوں کا وقت کم ملتا مگر جب بھی ملتا وہ اسے ضائع نہ کرتا۔
محلے میں شادی تھی یہ لوگ بھی مدعو تھے یہ بھی ماں اور نانی کے ساتھ شریک تھا۔اسے شرارت سوجھی اور ایک پرچی پر یہ لکھ کر مولانا صاحب کو دے آیا کہ ،آپ کے چہرے پر کالک لگی ہے۔مولانا صاحب نے پرچی پڑھی اور اس کے بعد بیچارے پورا وقت اپنا چہرہ پونچھتے رہے کہ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا سب مولانا صاحب کی بے چینی اور اس حرکت پر حیران تھے بڑی مشکل سے بیچاروں نے نکاح پڑھایا۔اور نکاح پڑھاتے ہی بھاگ نکلے اور یہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا۔
اس نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ایک اچھا آرکیٹکٹ بن گیا۔ماں کے بھی دن تھوڑے آسان ہو گئے۔مگر انہوں نے اپنا کاروبار نہیں چھوڑا۔اب اس کی شرارتیں بھی اس کی طرح میچور ہو گئیں تھیں۔لیکن چھوٹی نہیں تھیں۔پھر اس کی زندگی میں ایک لڑکی آئی۔وہ اس کے آفس ہی میں کام کرتی تھی آہستہ آہستہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے اب ماں بھی اور نانی بھی اس کی شادی کرنا چاہتی تھیں جب ماں نے اپنی خواہش اس کے سامنے رکھی تو اس نے ماں کو اپنی دوست کے بارے میں بتایا۔ماں نے کوئی اعتراض نہ کیا اور اس لڑکی کے ماں باپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اس نے ماں سے وعدہ کیا کہ جلد ہی وہ اس کی ملاقات کرائے گا۔
سب لوگ آپس میں ملے اور ان دونوں کا رشتہ طے ہو گیا۔اب دونوں اور بھی قریب آ گئے وہ خود بھی اپنی پسند پر بہت خوش اور مطمئن تھا ،سب سے زیادہ خوش اس لئے تھا کہ اسے اس کی پسند مل رہی تھی۔ماں نے خواہش ظاہر کی کہ پہلے منگنی کر دیں پھر شادی کریں گے وہ لوگ تیار ہو گئے۔منگنی کے چار ماہ بعد شادی کی تاریخ رکھی گئی۔دن تیزی سے گزر گئے۔
شادی سے دو دن پہلے اس کی رگِ شرارت پھڑکی اور اس نے ایک لمبی چوڑی جہیز کی لسٹ بنا کر لڑکی والوں کو بھیج دی۔وہ سارے بڑے حیران ہوئے خاص کر لڑکی کے باپ کو بہت غصہ آیا انہوں نے اس کے گھر فون کیا ماں نے لا علمی کا اظہار کیا اور انہیں اپنے بیٹے کی شرارتی طبیعت سے بھی آگاہ کیا مگر وہ اتنے شدید ناراض ہو گئے کہ کچھ سننے کو تیار نہ ہوئے۔ماں بہت پریشان ہوئی نانی کا بھی برا حال تھا جب یہ گھر آیا تو ماں نے سارا قصہ سنا یا وہ خوب ہنسا مگر یہ شرارت اسے بہت مہنگی پڑی اس لڑکی نے شادی ہی سے انکار کر دیا کیونکہ اس کے باپ کو ہارٹ اٹیک ہو گیا تھا وہ اسپتال میں تھے اور اس طرح اسے یہ شرارت نہ صرف مہنگی پڑی بلکہ بہت ہی مہنگی پڑی نانی بھی اس سے بالکل خفا ہو گئیں۔اور ماں بھی بالکل خاموش ہو گئیں۔آج پہلی دفعہ اسے اپنی شرارتوں پر غصہ آیا اور اس نے سنجیدہ ہو جانے کا عہد کر لیا۔
وہ ماں کے پاس آیا اور اس نے ماں کے سامنے عہد کیا کہ اب وہ بالکل سنجیدہ ہو جائے گا۔ماں کا دل اندر سے بہت دکھا مگر وہ خاموش رہیں اس نے اپنی شادی کا اختیار بھی ماں اور نانی کو دے دیا۔
ماں نے اس کے لئے ایک لڑکی تلاش کی اور اس کی شادی کر دی۔
یہ وہ کہانی تھی جو اس نے اپنی بیوی کو سنائی تھی کیونکہ وہ اس کی سنجیدہ طبیعت سے اکثر ہراساں ہو جاتی۔
اس کی بیوی نے مجھے بتایا کہ اس کے شوہر کی زندگی میں باپ کی کمی نے ایسی محرومی پیدا کر دی تھی جو وہ ہر طرح دوسروں کو ستا کر نکالنا چاہتا تھا کیونکہ باپ کے نہ ہونے کا صحیح جواب اس کے پاس نہیں تھا۔اس نے اپنی بیوی سے بھی وعدہ لیا تھا کہ وہ کتنا ہی اس سے ناراض ہو مگر علیحدہ ہر گز نہ ہو گی۔کیونکہ مرنے کے علاوہ بچوں کی زندگی میں ماں باپ کی محرومی بڑی ظالم ہوتی ہے۔اور جب انہیں اس کمی کے بارے میں کچھ علم بھی نہ ہو۔
اسکی بیوی نے اس سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا اور وعدہ بھی لیا تھا کہ وہ ہلکی پھلکی شرارتیں کرتا رہے گا ،کیونکہ زندگی کا لطف ہی ہلکے پھلکے ماحول میں ہے اور اگر ایک دوسرے کی کمزوریوں کو سمجھ کر ساتھ دیا جائے تو زندگی بہت خوبصورت ہو جاتی ہے۔مجھے اس کی بات بہت ہی اچھی اور حقیقت سے قریب لگی۔ وہ دونوں بہت خوش ہیں ماں اور نانی بھی مطمئن ہیں۔لیکن اسے اپنے آپ کو روکنے کے لئے بڑا صبر کرنا پڑتا ہے
اس کی بیوی نے مجھے بتایا کہ اس سے نکاح کے وقت کسی بات پر جب اس کے والد نے ٹوکا تو کہنے لگا ،انکل پہلی شادی ہے اس لئے دوسری میں بالکل ٹھیک بولوں گا ‘‘ وہ بیچارے اس کا منہ دیکھتے رہ گئے۔لیکن کیونکہ اس کی والدہ اس کی طبیعت کے بارے میں بتا چکی تھیں اس لئے انہوں نے برا نہیں مانا۔
اس کی باتیں سن کر مجھے بہت اچھا لگا۔واقعی اگر کمزوریوں کو سمجھ کر ایک دوسرے کا ساتھ دیا جائے تو زندگی گزارنا بہت آسان ہو جاتی ہے۔بیوی میں اگر صلاحیت اور سمجھ ہو اور شوہر اس کا ساتھ دے تو بہت کچھ بدل سکتا ہے کہ یہ بندھن ہر حالت نبھانے کے لئے ہوتا ہے۔
ساتھ ہی مجھے احساس ہوا کہ کمی کیسی بھی ہو انسان کے اوپر اچھائی یا برائی کی صورت میں ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ جب بچے سمجھنے کے قابل ہو جائیں تو ان کی زندگی میں اگر خدانخواستہ ایسی کوئی کمی ہو جس پر بڑوں کا اختیار نہیں تھا تو ان کو اچھے پیرائے میں ضرور آگاہ کر دینا چاہئے تاکہ اس کے منفی اثرات کم سے کم ہوں اور وہ کسی ایک کو موردِ الزام نہ سمجھیں اور نہ ہی اپنی زندگی میں تلخیاں پیدا کریں۔کیونکہ زیادہ تر لوگ منفی رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
خوش قسمت ہوتے ہیں وہ جنہیں ایسے جیون ساتھی میسر آ جائیں جو ان کی ذہنی اذیت کو سمجھ لیں اور ان کا ساتھ خلوص سے دیں تو زندگی آسان اور خوبصورت ہو جاتی ہے۔ساتھی وہ ہی ہیں جو ایک دوسرے کو تمام تر اچھائیوں اور تمام تر برائیوں کے ساتھ قبول کریں اور ہر کمزور لمحے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں کہ کمزوریوں سے عاری تو کوئی بھی نہیں۔جو لوگ یہ نکتہ سمجھ لیتے ہیں۔وہ ہر سخت سے سخت وقت کا مقابلہ کر لیتے ہیں کہ انہیں اپنی کمزوریوں کا بھی ادراک ہوتا ہے۔اور یہ ادراک ہی شادی شدہ زندگی کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔
سیف قاضی
ماخذ:
بزم اردو لائبریری

٭٭٭


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو