نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایک پیغام ادب دوستوں کے نام

ایک پیغام ادب دوستوں کے نام

                ادب کیا ادبیت دل کو خوش کرتے ہیں ضرور مگر آدمی کو اس کا جسکہ ضرور ہونا چاہیے اس کے غیر ادب کی قدر و قیمت نہیں ہوسکتی۔ میں کرکٹ کی مثال دے کر اپنی بات واضح کرنا چاہوں گا۔ کرکٹ اےک اےسا کھےل ہے جو ساری دنکیا میں کھےلاجاتا ہے اور اس سے لطف حاصل کیا جاتا ہے ۔ دنکیا میں بہت سے اےسے کھلاڑی ہےں جنھوںنے کرکٹ کو ہی اپنا مقصد زندگی بنارکھا ہے جسے مثال کے طورپر کپل دےو ہےں برسوں پہلے وہ کرکٹ کے اےک بےن الاقوامی شہرت کے حامل فرد تھے۔ انھوںنے خوب خوب کھےلا اور خوب نام کماکیا بلکہ دولت بھی کمائی اور اب غالباً اپنی کمائی ہوئی دولت کے سہارے زندگی گذار رہے ہےں۔ اور اب کرکٹ سے دلچسپی ان کی روح میں سرائیت کرگئی ہے۔ ےہی حال سچن تندولکر کا ہوسکتا ہے اور دھونی بھی اسی زمرے میں آسکتے ہےں ۔ دیگر ممالک میں بھی اےسے وظیفہ کیاب کھلاڑی ہےں جو کھےل کے لیے اپنی زندگکیاں وقف کرچکے ہےں اور اب وہ خود تو کھےلنے نہیں مگر اےک اچھا اور کامکیاب کھےل کھےلنے کے پورے طریقے وہ جانتے ہےں اور ان کی ےہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ اپنے فن کو وہ نئی نسلوں اور خود اپنی اولاد میں منتقل کردےں ۔ ٹھےک اسی طرح جس طرح اےک کامکیاب سکیاست دان اپنی اولاد کو بھی مےدان سکیاست میں کامکیاب دےکھنا چاہتا ہے۔ اس کی کامکیابی کا راز ےہ ہوتا ہے دولت ان کے قدم چومتی ہے ، پھر شہرت بھی اس کے ساتھ رہتی ہے۔ دولت کے ساتھ حسن اور جوانی بھی کافی عرصے تک باقی اور برقرار رہتی ہےں اور جو دنکیا میں کرکٹ کیا سکیاست کے پریمی ہوتے ہےں وہ اےک دوسرے سے بڑا تال مےل رکھتے ہےں اور اجتماعی طورپر اپنے فن کو تروتازہ اور متحرک رکھنا چاہتے ہےں۔
                بالکل اسی طرح ادب دوستوں کا ےہ حال ہوتا ہے کہ وہ اگر شاعر ہےں تو ان کے شعری مجموعے منظرعام پر آتے ہےں اخبارات میں طویل طویل تبصرے شائع ہوتے ہےں ان پر تنقیدیں ہوتی ہےں اور فن شاعری کی سان پر کس کرانھےں پر کھا جاتا ہے۔ اےک شاعر کو سب سے زکیادہ حظ مشاعروں میں حاصل ہوتا ادھر شعر منہ سے نکلا ادھر واہ واہ کی آوازےں آنے لگتی ہےں اور شاعر جھک جھک کر سامعین کو سلام کرتے ہوئے سامعین کی دادحاصل کرتا ہے ۔ شاعروں میں مختلف منصب اور مرتبے کے شاعر ہوتے ہےں چونکہ اشعار بھرتی کے کم اور معنی و مطلب کے اعتبار سے زکیادہ قیمتی ہوتے ہےں اور زبان زد حاصل و عام ہوجاتے ہےں گلیوں اور بازاروں میں ، سکیاسی اےوانوں میں ،مدرسوں اور کالجوں میں حتیٰ کہ عدالتوں اور دواخانوں میں تک ان کی گونج سنائی دےتی ہے۔ شاعر کے دنکیا سے چلے جانے کے باوجود ان کے اشعار ان کے لیے ثوابِ جاریہ کا حکم بن جاتے ہیں اور اےسے اشعار پر دیگر استاد شاعر بھی سر دھنستے ہےں بلکہ ان کی تعریف کا انداز ےہ ہوتا ہے وہ کہتے ہےں آپ اپنا شعر دے کر مےرا پورا دیوان لے لےں، کیا پھر ےوں فرماتے ہےں آپ بے بہرہ ہے جو معتقد مےرے نہیں شاعروں کو دولت سے زکیادہ داد کی فکر ہوتی ہے۔ دولت کو وہ اپنی ٹھوکر پر رکھتے ہےں انھےں صرف ےہ فکر ہوتی ہے وقت پر روٹی مل جائے اور اگر شراب ھی مےسر آجائے تو فبھاشاعروں کے پاس شراب اس درجہ حرام نہیں ہوتی جو کہ اےک عام مسلمان کے پاس ہوتی ہے۔ جو شراب کا نام سن کر ہی ہو اپنے کانوں کو بند کرلےتے ہےں مگر جو شاعر شراب کے عادی بن جاتے ہےں وہ اندر پائے جانے والے شاعر کو زندہ پائےذہ رکھنا چاہتے ہےں ۔ بہت سے اےسے شاعر گزرے ہےں کہ لوگ ان کے شعروں کی قدر ضرور کرتے ہےں ، مگر شراب کی وجہ سے ان کی ذاتوں کی ناقدری نہیں کرتے ۔ شاےد ےہی وجہ ہے اےسا معلوم ہوتا ہے شاعر نے شراب کو جواز کے مقام پر لاکر رکھ دکیا ہے اس طرح شاعری اور شراب لازم و ملزوم بن جاتے ہےں جےسا کہ فےض احمد فےض نے کہا تھا۔
آئے کچھ ابر اور کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
اور جگر نے کہا تھا
لوگوں کو جگر کے شعروں نے مارا
اورجگر کو شراب نے مارا
غالب نے شراب نوشی کے بارے میں کہا تھا
مئے سے غرض نشاط ہے  کس روسیاہ کو
تھوڑی سی بے خودی مجھے دن رات چاہیے
                لےکن ےہ بات تحقیق طلب ہے کہ ککیا واقعی شراب پی کر جو اشعار کہے جاتے ہےں وہ فن کے اور فکر کے اعتبار کے معکیاری ہوتے ہےں؟
                مےرے خکیال میں اس بات کی تحقیق وہی تنقید نگار کرسکتا ہے جو ذاتی طورپر سائنس دان بھی کیا پھر شراب کے اثرات پر ڈاکٹری میں تحصص ےعنی Specializetionکرچکا ہو۔
                تنقید نگاری :                  ادب میں ےہ بھی بڑا قابلِ قدر فن ہوتا ہے ۔ اس فن کے ماہر اےسے ہوتے ہےں جےسے کرکٹ میں سچن اور دھونی کیا حنیف محمد ہوتے ہےں ،عمران خان کرکٹ کی شہرت کو کام میں لاکر اےک سکیاسی لیڈر بن گئے۔مگر کرکٹ سے لگا بھی باقی رکھا۔
                تنقید نگار کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی شاعر ہو، شاعری کا جہاں تک سوال ہے ۔ ےہ قدرتی وصف ہوتا ہے اس کے لیے جم Gymمیں جاکر اےک پہلوان اپنے مسلز بناتا ہے ٹھیک اسی طرح کوئی اپنے آپ کو شاعر نہیں بتاسکتا۔ اگر وہ بن بھی جاتا ہے تو بھرتی کے اشعار سے اپنے دیوان کو بھردے گا لوگ اس دیوان کے گٹ اپ اور سےٹ اپ کو دےکھ کر پڑھنے کے لیے ہاتھ میں ضرور لےں گے مگر وہ اس کے اشعار پر داد دےنے کے لیے مجبور نہیں پائےںگے۔ ہر زبان کے اندر ادیبوں شاعروں کی اےک اچھی خاصی ’قوم‘ ہوتی ہے اور ان کا اےک قومی دھارا بھی ہوتا ہے۔
                اس قوم کا مذہب سے دوری پر رہنا اےک لازمی امرہے۔ مذہب ان حضرات کے پاس اےک زبردستی کا معاملہ ہے ۔ نماز پڑھنے کو وہ فرض تو جاتے ہےں مگر دوران نماز ان کے اندر کا شاعر جاگتا رہتا ہے اور عجب نہیں کہ نماز کچھ عمدہ اشعار بھی اگل دے علامہ نے اےسے ہی حضرات کے لیے اےک شعر کہا ہے۔
جو میں کبھی سربسجدہ ہوا تو زمیں سے آنے لگی یہ صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
                میں کافی غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شعر وادب مذہب کے لیے سم قاتل نہیں بھی ہے تو Composeضرور ہے۔ کارل مارکس نے مذہب کو افیوںقرار دکیا تھا ، میں اسی طرح شعر وادب کو مذہب اور تقویٰ کے لیے افیون کہوںگا۔وہ ادب کے دلدل میں اس درجہ پھنس جاتا ہے کہ وہاں اس کو مذہب کی کیاد ہی نہیں آتی جسے دور حاضر میں شمس الرحمن فارو کی صاحب ہےنے بہت اونچے درجہ کے آدمی ہےں وہ اس بات سے بے فکر ہےں کہ مسلمان ان کو ککیا مذہبی مقام دےتے ہےں ۔ اگر وہ مولوی کیا ملابننے تو شہرت کی وہ معراج حاصل نہ کر پاتے جو آج ان کو حاصل ہے۔ اسی طرح داغ، غالب اور میر گزرے ہےں ۔ علامہ اقبال میں حالی اور جوش ہےں۔ منشی پریم چند، فراق گورکھپوری ، چکبت فنا نظامی کانپوری ، کرشن چندر ،کنور مہندر سنگھ بیدی، سحر، علی حیدر طباطباعی ، حفیظ میرٹھی، ماہر القادری ، عامر عثمانی ، علی سردار جعفری ، مجروح سلطانپوری ، مجاز لکھنوی ، فےض احمد فےض، الغرض کسی سوشعراءہےں اور لاکھوں ان کے چاہنے والے ہےں۔ دنکیا سے گزر جانے کے بعد حشر میں ان کا انجام ککیا ہوگا ۔ پتہ نہیں۔
میر اکہنا ےہ ہے کہ خدانے بہت مختصر مدت حکیات کی دی ہے
اے شمع ہے تیری عمر طبغی ہے اےک رات
چاہے روکر گزار دے کیا ہنس کر گزار دے
                زندگی کا مقصد بندگی ہے ۔ اگر ادب کی بناپر بندگی میں کوتاہی ہوجائے تو ےہ بڑے گھاٹے کا سودا ہوگا۔ ادب میں اس قدر گم نہ ہوجا کہ بندگی کے ضروری تقاضے ہی فراموش ہوجائےں۔ پچاس سال پہلے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کا دور گزرا ہے۔ وہاں خدا کاتک انکار کردکیا گکیا ۔ جب خدا ہی نہیں ہے تو بندگی کا ککیا سوال؟۔ اےسے کئی شاعر اور ادیب دنکیا سے رخصت ہوگئے اب وہ کف افسوس مل رہے ہوںگے اور کہہ رہے ہوں گے خدا کو مان کر چلتے تو آج ےہ نوبت نہ آتی ، آج بھی بہت سے ادیبوں اور شاعروں میں خدا بےزاری پائی جاتی ہے اگر اب وہ ترقی پسندی مہلک مرض میں مبتلا نہیں ہیں ، مگر ادب نے ضرور ان کو ”بے ادب“ بنادکیا ہے۔ ادب کو انھوںنے کرکٹ اور شراب کی طرح وقت گزاری کا ذریعہ بنالیا ہے۔ وقت تو گزرہی جائے گا مگر بعد کے مشکل مرحلوں میں ہ بندگی گریزSTANCEبڑا مہنگا پڑے گا۔ غالب نے فرماکیا تھا ۔
جانتا ہوں زہد و اطاعت
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
مولانا رومی کا ےہ شعر قابلِ غور ہے
ہم خدا خواہی وہ ہم دنکیائے دوں
ایں خکیال است ومحال است و جنوں
حیات ابدی : کوئی مسلمان شاعر کیا ادیب اخروی زندگی سے انکار نہیں کرسکتا اور نہ اس کے ابدی ہونے کا انکار کرسکتا ہے۔ اور جنھوں نے ان کار کیاہے ۔ ان کے دلائل بالکل پھسپھسے اور کمزور ہوتے ہےں محض وہ انکار اس لیے کرتے ہےں کہ دنکیا کی ناجائز لذتوں کو چھوڑنا پڑے گا۔
                                                                               
                 بقول شاعر کے چھٹتی نہیں ہے کا فر منہ سے لگی ہوئی ، چنانچہ ان لذتوںمیں عورت ، شراب، راگ اور رنگ ناچ گانے اور اداکاری پھر اقتدار کی لےلیٰ دولت اور شہرت ان سب سے بکبخت دستبردار ہونا ناممکن نہیں تو محال ضرور ہوتا ہے ۔ حالانکہ ان لذتوں کے کھوکھلے پن سے وہ بھی خوب واقف رہتے ہےں اور ان کے وقتی و عارضی ہونے کے وہ بھی قائل ہےں۔ لےکن جب وہ خدا کی معرفت اور اس پر پکاایمان اس کا ذکر اس کی اطاعت اور فرمابردار اور دین کی خدمت اور اس کی اقامت کی مخلصانہ جدوجہد میں لگ جاتا ہے تو اس کا ایمان بھی اےسی ہی بلکہ اس سے زکیادہ لذیز بن جاتا ہے اور ان عارضی دولت اور اس کی خوشکیاں دےنے کے ساتھ عزت وقار ، شہرت اور تسکین قلب کی پےش بہا دولت سے ہمکنار کرتا ہے اور ےہ نفس کی لذتےںاسے ہے فےض نظرآتی ہےں۔ اگر شاعر کیا ادیب چاہے تو اپنی شاعری کا رخ ادھر موڑسکتا ہے جےسے علامہ اقبال نے کردکھاکیا۔ وہاں ادب بھی ہے شاعری بھی ہے ، تقویٰ اور پرہیز گاری بھی ہے اور دینی اقدار کی آبکیاری بھی ہے اور اپنے زوق کی تکمیل کے لیے فلسفہ خودی کا پےچیدہ اور گنچھک گنج بک فلسفہ بھی ہے جو سمجھنے والوں کیا سمجھانے والوں کو وےسا ہی لطف دےتا ہے جےسا کسی کو انڈکیا اور پاکستان کا مےچ دےکھنے کیا دو چار پگ لگانے سے حاصل ہوتا ہے ۔ اور ادب دوستوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ شراب اور ذہنی عکیاشی بھی تو خدا سی کی دین ہے اگر اس کے نافرما بردار بندے نافرمانی کرکے اس کی لذت سے ہمکنار ہوتے ہےں تو ککیا وہ اپنے فرمابردار بندوں کی لذت رسانی کے لیے کوئی دوسرا انتظام نہیں کررکھا ہوگا؟ اضرور ککیا ہے۔ دنکیا کی لذیذ ترین ’شہ‘ عورت ہے اس نے چار تک کی اجازت دے رکھی ہے۔اور جہاں تک علمی پکیاس بجھانے کا مسئلہ ہے، قرآن ہے اس کے اندر بڑے بڑے خزانے ہےں مگر ہم ان کو عقیدتاًمانتے ہےں تجربتاً نہیں تجربہ اس کا وقت ہوگا جب آپ عربی زبان پڑھےں گے اور پےش رو مفسرین کی تفسیروں کا مطالعہ کرےں گے ان کی غلطیوں کیا کوتاہیوں کا احاطہ کرےںگے اور اپنی علمی لکیاقت کے کرتب دکھائےں گے تو اس میں بھی اےک لذت ہوگی۔ پھر تصوف کا اےک گہرا سمندر ہے جو ماہر تیراک ہےں اس میں اپنی شناوری کرکے داد حاصل کرسکتے ہےں جےسے کہ امام غذالی ، مستوحات مکیہ محی الدین ابن عربی ، اشرف علی صاحب تھانوی، کی کتاب انکشف ، بندہ نواز کی کتاب معراج العاشقین اور ادھر مولانا مودودی کی معرکتہ الارا کتاب الجھاد فی الاسلام ہے۔ اسلامی رکیاست ہے۔ سیرت سرور عالم ہے امام احمد رضا خان کی تصنیفات ہےں۔ پھر علم الحدیث ہے اور رفقہ ہے۔ سیرت صحابہ ؓ ، سیرت اولکیائؒ ، دینی مدارس کی خامکیاں جماعتوں اور تنظیموں کی خرابکیاں الغرض اےسے بے شمار areasہےں جن میں ادب دوست حضرات کچھ اچھے کارنامے انجام دے کر خود کو بھی خوش کرسکتے ہےں اور خدا کو بھی خوش کرسکتے ہےں۔
                ہندوستان میں اےک بہت بڑا سکیاسی اور دستوری بہران پےدا ہوچکا ہے۔ 130سے زکیادہ دفعہ دستور میں ترمیمات ہوچکی ہےں اور جواب تک کی ترمیمات ہےں۔ اسلام نے کس طرح 1400سال پہلے ان پررہنمائی دے چکا ہے ۔ سکیاست سے دین کو خارج کرکے کس طرح چنگیز نے اپنی جگہ بنالی ہے؟ ہندوستان میں دین کو قائم کرنے کے لیے ککیا طریقہ کار اختکیار ککیا جاسکتا ہے ؟ برہمنوں کی اسلام دشمنی کو کس طرح ختم ککیا جاسکتا ہے؟ ملک کی خارجہ پالیسی کو کس طرح نارمل بناکیا جاسکتا ہے؟ اس کی اےک تاریخ کسے مرتب کی جائے الغرض اےسے بہت سے علمی کام ہےں اور جو ہمارے اسکالروں کے کرنے کے ہےں۔ مگر ان حضرات کے لاشعور میں اےک خوف بسا ہوا ہے اور اپنی عافیت کی فکر زکیادہ ہے اور حکومت وقت کی خوشنودی کو خدا کی خوشنودی پر ترجیح دی جاتی ہے کیا پھر مفادات حاصلہ اوڑہ بن جاتے ہےں۔ تنظیمیں تو بہت ہےں مگر اہل تنظیم اپنے مفادات کو تنظیم کے مفادات پر ترجیح دےتے ہےں۔ اس کے نتیجے میں تنظیمیں ٹھٹر کر رہ جاتی ہےں اور وقت گذرتا چلا جاتا ہے۔
نقش ہےں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
لقمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو