نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

Maulana Azad Ka Tasawware Taleem مولانا آزاد کا تصور تعلیم




مولانا آزاد کا تصور تعلیم
                                                                                                             قمرالنساء، ریسرچ اسکالر، گلبرگہ یونیورسٹی
مولانا آزاد ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے علم سے گہری دلچسپی تھی انکا علم کافی وسیع تھااور یہ اسوقت سے عیاں ہونا شروع شروع ہوا جب عام بچے ابھی کھیلنے کی عمر میں ہوتے ہیں یا سیکھنے کی عمر میں ہوتے ہیں۔مولانا کی تحریریں پڑھ کر شبلیؔ اور حالیؔ جیسے نابغہ روزگاربھی حیرت واستعجاب میں ڈوب گئے۔اور انہوں نے یہ جانا کہ آزاد گویا ایک بڑی عمر کے منجھے ہوئے مفکر ومدبر ہیں۔مگر جب ملاقات کی تو انھیں یقین نہیں آیا کہ گیارہ بارہ سال کی عمر کا لڑکا اس طرز کی فکر رکھتا ہو۔

اسی لئے بلبل ہند سروجنی نائیڈو  نے کہا تھا کہ                

               "مولانا کی عمر انکی ولادت کے وقت ہی پچاس برس تھی'' 

          گیارہ برس کی عمر اور عقل پچاس برس کی یہ نہ صرف حالیؔ اور شبلیؔبلکہ ہر شخص کے لئے حیرت و استعجاب کی بات تھی بلاشبہ مولانا ساری عمراپنے علم وعمل کے ذریعے اپنے سامعین و قارئین کو حیرت میں ڈالتے رہے آج بھی لوگ آپکی تحریروں کو پڑھ کر مستفید ہوتے ہیں۔

بقول ناقد:



             " اگرقرآن مجید اگر آج کے دور میں نازل ہوتا تو وہ یا تو اقبال کی نظم میں ہوتا یا پھر مولانا کی نثر میں"

           اس سے آپکی نثر کا اندازہ ہوتا ہے آپکی نثر آپکی علمیت کو منواتی ہے اس سے آپکے علم اور آپکے تعلم کا پتہ چلتا ہے  مولانا کی نثر کا اندازہ حسرت موہانی کے اس شعر سے ہوتا ہے۔

   جب سے دیکھی ابولکلام کی نثر
 نظم ِحسرت میں کچھ مزہ نہ رہا

                    مولانا آزاد کو اُس عالم الغیب ہستی نے ایسا علم عطا کیا تھاکہ مولانا نے جب اسے صفحہ قرطاس پر ڈھالنے کے لئے قلم اُٹھایا تو وہ قلم روشنی بکھیرتا چلا گیااور جب تقریر میں استعمال ہواتو سامعین کو محفوظ ومفروح کرتے ہوئے سامان ِفرحت و انبساط عطا کرتا چلاگیا۔

 دفن تجھ میں کوئی فخرِروزگار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے

          مولانا آزاد کی تعلیم روایت کی زنجیروں سے بندھی ہونے کے باوجود انکی فکر روشن خیال اور جدید تھی مولانا آزاد کا تعلیمی تصوّر قوم کی بقاء کا ضامن بن گیا۔زبانیں سیکھنے ،علم حاصل کرنے اور ہندوستانی ذہنوں تک معیاری تعلیم کا تصوّر پیش کرنے کا شوق انمیں بدرجہ اتم موجود تھا۔کسی بھی مُفکر تعلیم کے لئے ضروری نہیں کے وہ اپنے تصوّرات کا عنوان دیکر ہی دنیا کے سامنے پیش کرے ۔

                   یہ صحیح ہے کہ اصطلاحی معنوں میں مولانا آزا د کو ماہر تعلیم قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ پیشے کے لحاظ سے  روایتی طور پروہ معلم تھے لیکن جب ہم انکے بلیغ افکار اور عظیم رہنمائی کے گراں قدر کارناموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو انکے یہاں ہمیں تعلیم نظام کی درستگی اور خاص کر ہمارے تعلیمی فلسفے کی تشکیل میں نمایاں حصہ پاتے ہیں اس تناظر میں مولانا کی علمیت ااور آپکی تعلیم کا تصور ہمیں اسوقت نظر آتا ہے جب آزاد ہندوستان کے آپ پہلے وزیر ِتعلیم کا قلمدان حاصل کر لیتے ہیں ۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ھیکہ آزاد ہندوستان میں کئی ایسی شخصیتیں موجود تھیں جو راست طور پر تعلیم حاصل کی ہوئی تھیں اور سند یافتہ بھی تھیں جیسے سر ۔سی۔وی۔رامن،سروپلے  رادھا کرشنن وغیرہ وغیرہ۔مگر کیا بات تبی کے تمام زعمائے سیاست کی نظر مولانا آزاد کی طرف گئی اور تمام اربابِ سیاست نے مولانا آزاد کو اس قلمدان کے لئے موزوں بھی سمجھا۔

       ہمایوں کبیر نے اپنی مشہور کتاب "ہندوستان میں تعلیم EDUCATION IN INDIA ))"کے انتساب میں لکھا ہے کہ

     "ابولکلام آزاد نے گاندھی اور ٹیگور کے ساتھ ہمارے قومی نظام ِتعلیم کی تشکیل میں اہم حصہ ادا کیا۔"

          وزیر تعلیم کا عہدہ ۱۵جنوری ۱۹۴۷کو دیا گیا ۔وزیر تعلیم کی حیثیت سے آپ نے پٹنہ یونیورسٹی کے کانوکیشن میں اپنے خطبے میں ان الفاظ  آزاد ہندوستانیوں کو آگاہ کیا۔

 "اب تک ہمارا تعلیم پر کوئی کنٹرول نہیں تھا اس پر غیر ملکی مملکت کا قبضہ تھاجوکچھ انہوں نے پڑھا ممکن تھا صحیح ہو لیکن اسطرح پڑھایا کے ہمارے  ذہنوں کو بجائے کھولنے کے بند کر دیا۔"

           اس سے آپکی ذہنی استعداد اور تعلیمی تفکر وتصور کا پتہ چلتا ہے اور تعلیم کی وضاحت کھلے طور پر سامنے آتی ھیکہ تعلیم اذہان کو کھولنے ،شعور کو بیدار کرنے ،اخلاقی حالات کو سدھارنے،اسلاف کے کارناموں کو سمجھنے،ثقافت کے تشخص کو بر  قرار رکھنے ،فنونِ لطیفہ کو سیکھنے،سائینسی تجربات سے استفادہ کرنے  کے لئے ہو نہ کہ ذریعہ کاروبار بنے ۔ہندوستان میں اسوقت ضرورت تھی اپنے قومی تشخص کی ۔ دنیا میں ہندوستان کو نہ صرف ایک قوم بلکہ انھیں ساری دنیا میں اپنی ساکھ بنانا اور بتانا تھا کہ ملک اور اسکے باشندے کس مقام پر ہیں چنانچہ انھوں نے تعلیم کو نہایت ضروری قرار دیاایک  تقریر میں کہا تھا کہ۔

 "ہم اپنی قسمت کے آج معمار ہیں قومی نظام تعلیم زندگی کے لئے ایک لازمی ضرورت ہے۔"

          آپ ہندوستان کے ہر فرد کو باشعور بنانے کے لئے قومی یکجہتی کاایک مضبوط نمونہ پیش کرنا چاہتے تھے اور تعلیمی پالیسی کے تحت ہندوستان کے ہر شہری ،ہر فرد خصوصی طورسے دیہی لوگ ،کسان ،ناخواندہ افراد کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تھے ۔اسکے ساتھ ساتھ اپنے ملک کو سائنس میں خود مکتفی دیکھنا چاہتے تھے ۔وہ قوم کو بیدار اور تعلیم کو فروغ دینا چاہتے تھے ۔مولانا آزاد ثانوع تعلیم کو بنیادی اہمیت دیتے تھے ۔وہ جانتے تھے کہ ہندوستان کی بیشتر آبادی کا ایک بڑا حصّہ اعلیٰ تعلیم تک نہیں پہنچ سکتا ۔چنانچہ ثانوی تعلیم کو نو جوانوں تک پہنچانے کے لئے اہم خدمات کئے ،انکی تجویز تھی ثانوی  تعلیم ے لئے ہمارے اسکول کثیر المقاصد ہوں نونہالان قوم کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوسکیں اور انھیں مکمل زندگی گزارنے کے اہل بنا پائیں ۔وہ ہر شہری کے تعلیم کے حق میں تھے اور تعلیم کو پیدائشی حق سمجھتے تھے ۔موجودہ حکومت نے پارلیمنٹ کے ایک بل کے ذریعے ہر بچے کے تعلیمی حق کو اب تسلیم کیاہے یہ دراصل مولانا کے تعلیمی نظریات کی صدائے بازگشت ہے ہر بچے کے تعلیمی حق کو تسلیم کرنا اس بات کی دلیل ھیکہ مولاناآزاد کے افکار وخیالات اور نظریات کی معنویت آج بھی برقرارہے اسلئے آج پہلے سے کہیں زیادہ انکے افکارکی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

          اپنے تعلیمی وزارت کے دور میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے سکینڈری ایجوکیشن بورڈ کا قیام عمل میں آیا ۔یو نیورسٹیوں کی اصلاح اور اسکی ازسِر نو تنظیم کے لئے انڈین یونیورسٹیز قائم ہوا۔یونیورسٹی گرانٹس کمیشن UGC)  (کا قیام عمل میں آیا۔UGC کاکام یہ تھا کہ وہ  یونیورسٹیوں کی مالی اعانت کرے اسوقت نئی نئی یونیورسٹیاں قایم کی گئیں ،سارے ملک میں کالجوں کا جال بجھ گیا ۔تحقیق کے لئے راہیں ہموار ہوئیں ۔تعلیمِ نسواں اور تعلیمِ بالغاں پر زور دیا گیا ۔میڈیسن میں تحقیق کی ترقی کے لئے انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ کا قیام عمل ،شانتی سوروپ بھٹناگر کی سر کردگی میں سائنس کا اعلیٰ تحقیقاتی ادارہ وجود میں آیا ۔گھریلو اور اعلیٰ صنعتوں کے لئے انڈین کونسل فار اگریکلچرل اینڈ ریسرچ(Indian council for agricultural and research )   کا قیام عمل میں لایا،ملک کی زراعتی ترقی کے لئے ادارے وجود میں لائے گئے۔

          مولانا کے تعلیمی تصور کو قوم کے اعلیٰ معیار اور اخلاقی قدروں اور تہذیب وثقافت کی حفاظت کا علمبردار مانا جاتا ہے وہ بنیادی طور پر ایک ادیب تھے ۔لیکن دوسرے علوم و فنون پر بھی انکی نظر گہری تھی معیاریِ نمونہِ فن حقیقی تعلیم کا موثر ذریعہ ہوتا ہے انکے خیال میں فنونِ  لطیفہ امن اور خیر سگالی کے پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں انکا خیال تھا کہ فن برائے فن اور فن برائے زندگی کی بحث بالکل فضول  ہے حقیقی فن افراد کی پسندیدگی اور نا پسندیدگی کا محتاج نہیں ہوتا معیاری نمونہ فن حقیقی رعلیم کا موثر ذریعہ ہوتا ہے اس سے جذبات کی تہذیب اور ادراک وتخیل کی تربیت ہوتی ہے ۔     

 ۱۹۴۹ میں فنون لطیفہ کی کل ہند کانفرنس میں اختتامی خطبہ دیتے ہوئے آزاد نے کہا تھا۔

" ایک سماج کی صحت مندی اور اعتدال پسندی کا اظہار اسکے افراد میں ذوقِ لطیف کی ترویج سے ہوا کرتا ہے۔"          

           مولانا کے نزدیک تعلیم محض ذہنی قویٰ کی بیداری کا نام نہیں ہے بلکہ جذباتی آسودگی ،جسمانی ترقی ،تہذیب و شائستگی غرض اسکے ذریعے شخصیت کے تمام پہلوئوں کی تربیت ضروری ہے شخصیت کی نشوونما کیلئے مولانا مصوری ،موسیقی،رقاسی ،فنِ سنگتراشی ،ڈرامہ تمام فنون کو اہم خیال کرتے تھے فنون ِلطیفہ کی اسی دلچسپی کا اظہارساہتیہ اکاڈمی ،سنگیت ناٹک اکاڈمی اور للت کلا اکاڈمی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ساہتیہ اکاڈمی  ہندوستانی ادیبوں کی تخلیقات چھاپتی ہے انھیں علاقائی زبانوں میں شائع کرتی ہے ادیبوں اور شاعروں کو انعامات دیتی ہے ۔موسیقی اور ڈرامے کے فن کو فروغ دینے کے لئے سنگیت اکاڈمی قائم کی گئی ۔اسی طرح مصوری ،مجسمہ سازی جیسے فنون کو فروغ دینے کے لئے للت اکاڈمی قائم کی گئی۔ 

          ہندوستان کی نئی نسل اپنے مذہبی و قومی فکر سے دور جاچکی تھی اور اپنے ورثہ ، تاریخ ،تہذیب و ثقافت کی اصل حقیقت سے ناواقف تھے۔جو مستقبل کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی ۔انکا ماننا تھا تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو اپنے تمدنی ورثہ کو محفوظ رکھ سکتا ہے بلکہ اسمیں مناسب ترمیم کے ذریعے اصلاح بھی کرسکتی ہے ۔تعلیم اور تمدن میں گہرا تعلق ہے وہ تعلیم کو تمدن کا تابع بنانا چاہتے تھے ۔اسی لئے انہوں نے آثارِ قدیمہ کی طرف بھی توجہ دی اور ادارے قائم کئے جسکا کام قدیم عمارتوں کی حفاظت کرنا تھا۔

           مولانا آزاد کی ادبی عظمت اور انفرادی شان کا اعتراف ہر مکتبہ فکر کو ہے الہلال والبلاغ کے شعلہ نوا مضامین ترجمان القرآن کے حکیمانہ و بلیغانہ نکتے اور غبارِخاطر کی شکل میں انانیتی ادب اور انشائیہ کی خصوصیت رکھنے والے خطوط اردو میں اپنا ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں۔    

اجمل خان نے غبارِخاطر کے دیباچے میں مولانا کے بارے میں لکھا ہے کہ ۔ 

   "وہ ایک ہی زندگی اور ایک ہی وقت میں مصنف بھی ہیں مقرر بھی ہیں ،مُفکّر بھی ہے  فلسفی بھی ہیں ،مُدبر بھی اور ساتھ ہی سیاسی جدوجہد کے میدان کے سپہ سالار بھی ہیں" 

           مولانا صحافت کو ایک مقدس پیشہ سمجھتے تھے اپنی صحافتی تحریروں کے ذریعے مسلسل متحدہ قومیت اور مشترکہ تحریک کے لئے کوشاں رہے ۔اسکے لئے انہوں نے فصاحت و بلاغت سے بھی کام لیا دلکش و دلنشین اسلوب بھی اختیار کیا اور قدیم وجدید کا موازنہ بھی کیاتہذیب اور ثقافت کے فرق کو بھی بتلایا ۔قرآن اور حدیث کے دلائل بھی دئے وطنیت مذہب اور سیاست کے حقیقی معنی الہلال اور البلاغ کے ذریعہ انہوں نے پیش کئے ۔الہلال اور البلاغ کے ذریعے عوامی بیداری ،آزادی ذہن اور وسیع القلبی کی روح پھونکی۔ کیونکہ ہندوستانی ذہن غلامی پر قانع ،عمل سے بیگانہ ،محکومی پر راضی ،تقلید کا پروردہ ،مذہب وحریت سے نا آشنا لوگوں کے ذہنوں کو بیدارکرنے میں الہلال اور البلاغ نے ایسا کارنامہ انجام دیا جس سے علم کا دریچہ وا ہوا اور تعلیم کی روشنی لوگوں کے ذہنوں تک منتقل ہوئی۔

          مولانا آزاد کا سیاسی اندازہِ فکرانتہائی اعلیٰ ہے ڈپلومیسی اور دکھاوا جو سیاست کی جان مانا گیا ہے اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا ،انکو نہ اہلِ وطن کے طعنے ڈرا سکے نہ حکومت کے قید خانے ،انہوں نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ۔

" آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑا  ہو کر یہ اعلان کر دے سوراج۲۴ گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں سورا سے دستبردار ہوجاوٗں گا لیکن ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا"۔

          وہ صحافت اور سیاست کے مردِمیدان تھے ملکی وسیاسی مصلحتوںکی جو تفہیم مولانا کو تھی شاید ہی کسی اور رہنما کو رہی ہو ۔غرض کہ مولانا نے گیارہ برس کی مُدّت میںجو بیش قیمتی خدمات انجام دیں وہ ہمیشہ یاد رہیں گی ۔دراصل تعلیم کی وزارت کا عہدہ مولانا کے سپرد کر کے وزیرآعظم جواہر لال نہرو نے ہندوستان کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا اہم کام انجام دیا ہندوستان میں تعلیم کو جو فروغ حاصل ہوا ہے اسکی بنیاد مولانا نے ہی رکھی تھی۔ جو ادارے انہوں نے قائم کئے تھے وہ کامیابی اور حسن و خوبی سے آج بھی اپنے فرائض نجام دے رہے ہیں ۔

اس سلسلے میں خواجہ غلام سیدین کے خیالات اہمیت کے حامل ہیں انہوں نے لکھا ہیکہ۔

"مولانا ہرلحاظ سے ایک معلم تھے انہوں نے جو کچھ بھی اپنی تصنیفات میں لکھااسکی تعلیم بھی دی ا ن میں خود وہ ذہانت تھی اور کردار صالح بھی موجود تھا جسے وہ ملک کی عوام کو دینا چاہتے تھے وہ صداقت اور اخلاص کی تصویر تھے ۔انہوں نے سقراط کی طرح حق و صداقت کی حمایت کی۔"

          مولانا آزاد کے تعلیمی افکار میں نہایت اہم چیز یہ ھیکہ تعلیمی نظام فراخدلانہ  اور روادارانہ بنیادوں پر تعمیر کیا جائے ۔تاکہ نوجان نسل کو تمام قوم  سے یکساں محبت و سلوک کا سلیقہ ہاتھ آئے اور بین الاقوامی تعاون کا جذبہ ہو تاکہ تنگ نظری پر مبنی سیاسی ،نسلی اور جغرافیائی حد بندیوں سے مجونانہ محبت کو ختم کیا جائے۔       

          جاگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو افراد کی حقیقت طرزِ تعلیم سے آشکار ہوتی ہے ۔حقیقت حریت اور انسانیت کی بنیاد پر جس نظامِ تعلیم کی داغ بیل پڑتی ہے ان افراد کی فکر روشن اور اندازِخیال بدل جاتا ہے اور وہ شاہرائے ترقی پر گامزن ہو جاتے ہیں ۔مولانا آزاد کے تعلیمی تصورات بھی ہمارے ملک کے لئے تعلیمی پالیسی سے ہمکنار کرنے میں معاون ثابت ہوئے ۔

          انکا تصور تعلیم بہت قوی تھامولاناآزاد کی جدیدعلم وحکمت اور جدید نقطہِ نظر سے اتنی گہری واقفیت ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتی ہیکہ قدیم طرز تعلیم کا یہ سب سے ممتاز  نمائندہ جدید فکری رجحانات اور میلانات کا اتنا گہرا علم کیسے حاصل کر سکاآپ کے افکار وخیالات آج بھی زندہ و تابندہ ہیں بہر حال مولانا نے لیل ونہار کی جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کے ذریعے ہندوستان کے مستقبل کو لالہ زار بنانے کی کوشش کی ہے ہندوستان کی تاریخ میں آزاد نے اپنی ہمہ جہت شخصیت کے ذریعے جو فکر و تصور عطا کیا ہے وہ ہمارے خوشحال مستقبل کے لئے مشعلِ راہ ہے۔

 بنا لیتا ہے موجیں خونِ دل سے اک چمن اپنا
 وہ پابندِقفس جو فطرتًا آزاد ہوتا ہے 

           آج بھی ہمارا تعلیمی نظام وہی ہے جو آج سے ۶۹ سال پہلے مولانا آزاد نے بنایا تھافرق ہے تو صرف اتنا کہ وسیع القلبی،وسیع النظری اور دیانتداری کی کمی ہے اُس دور میں نصابی کتابوں کا بوجھ نہیں تھا بلکہ تعلیم کے معیارکو بلند کرنے کیلئے تعلیم کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے تعلیم و تدریس میں پختگی تھی آج دورِ حاضر میں ہم شدت کے ساتھ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ تعلیم معیاری اور فائدہ مند ہونے کے بجائے تجارت کا جامہ پہن چکی ہے اور ذہن کاروباری ہو چکے ہیں جس سے تعلیم کا تصور حقیقی معنوں میں دور ہوتا ہوامحسوس ہورہا ہے مولانا آزاد نے جس تعلیمی تصور کو پیش کیا تھا تعلیم کی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے انکی کاوشوں اور کوششوں کو دیکھ کر ہمیں یہ محسوس ہوتا ہیکہ۔

 اوالعزمان باہمت جو کچھ کرنے پہ آتے ہیں
سمندر پاٹتے ہیں کوہ سے دریا بہاتے ہیں

Qamerunnisa
Research Scholar,
Department of Urdu and Persian,
Gulbarga University, Kalaburagi
٭٭٭٭٭

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو