نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پکوڑے (طنزومزاح) از گل افشاں انجم۔۔۔ Pakody by Gul-e-Afshan Anjum, Gulbarga


پکوڑے  (طنزومزاح(

                                                گل افشاں انجم،
                                                ایم اے سال آخر، شعبہ اردو و فارسی، گلبرگہ یونیورسٹی، کلبرگہ

          دوستو! کیا آپکو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں آجکل ایک لفظ بہت سننے میں آرہاہے ”پکوڑے“  یہ لفظ پہلے ہی موجود تھا پر اس لفظ کا زیادہ استعمال نہیں ہوتا تھا۔ پر اس لفظ کو عام کرنے کا سحرا ہمارے ہردل عزیز وزیراعظم کے سر جاتاہے۔
          ہمارے ملک کے وزیر اعظم ہر نوجوانوں کو جو ڈگری یافتہ ہیں انکے لئے تحفہ خلوص دیا جو ”پکوڑا بیچنا“ ہے ہمارے ملک کے نوجوانوں کی وزیراعظم نے اتنی بڑی مشکل سے دور کیا۔ ہمارے ملک کے نوجوان بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرکے گھر میں بیکار بیٹھے ہوئے ہیں انکے لئے بہت بڑی آسانی ہوگئی۔ لیکن ہمارے وزیراعظم نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جو نوجوان بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرکے بیکار رہے ان لوگوں کیلئے وزیراعظم نے پکوڑے بیچنے کو بھی روزگار بتایا۔
          دوستو! کیا آپ لوگ اتنی محنت سے پڑھ کر ایک نیا آسمان چھونا چاہتے تھے کیا آپ لوگ پکوڑے بیچ کر اپنا گزارا کرینگے ہم نوجوانوں کا یہ مستقبل خطرے میں نظر آرہاہے کہ کیا اتنی بڑی ڈگریاں جیسے ڈاکٹر انجینئر کیا صرف پکوڑے بیچنے کیلئے لی ہیں؟ ہمارے نوجوانوں کو وزیراعظم نے پکوڑے بیچنے کا مشہورہ تو دیا لیکن کسی بھی یونیورسٹی اور کالج میں پکوڑے کا کورس یا کسی بھی کورس میں پکوڑے سبجکٹ نہیں ہے۔ میرا ہمارے وزیرعظم کو مشہورہ ہے کہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے Professional Coursesمیں بھی پکوڑے Subjectکو جاری کیاجائے۔ کیونکہ آج جو ہم بے روزگاری کیلئے پریشان ہو رہے ہیں وہ آنے والی نسلوں کو نہ ہو۔
          ہمارے وزیرعظم کو یہ کرسی سنبھالے 4سال ہوئے ہیں جس میں زیادہ تر وہ باہر کے ملکوں کی ہوا کھائی ہے۔ لیکن جب کبھی بھی دوسرے ملک کے دورے پر جاتے تو وہاں سے کچھ دیکھ کر یہاں بھارت میں لانے کی بات کرتے مثلا جب وزیراعظم کا دورہ جاپان کو جانا ہوا تو انہوں نے وہاں Bullet Trainدیکھا تو انہوں نے بھارت میں بھی اسے لانے کی بات کی ہمارے دیش کی اتنی بھاری ریل پٹریاں ہے کہ اس پر Bullet Trainنہیں چل پائیگی۔  وزیراعظم جہاں کہیں بھی دورے پر جاتے تو وہاں سے کچھ ترتیب سوچ کر آئے پر ”پکوڑے“ ناجانے انہوں نے کس ملک سے لایا۔
          جب وزیراعظم حکومت میں آنے سے بھارت کے بھولے بھالے لوگوں سے جو وعدے کئے تھے وہ وعدے سچ ہوئے جیسے کہ وزیراعظم نے کیا تھا کہ ہر ہندوستانی کے پاس اتنے روپئے ہونگے کے اسے سمجھ میں نہیں آئیگا کہ وہ ان روپیوں کا کیا کرے اگئی نوٹ بندی ہم نے دیکھا کہ ہر فرد کے پاس بہت روپئے تھے لیکن وہ اسے استعمال نہیں کرپایا۔ دوسرا وعدہ عورتوں کیلئے برا اور مردوں کیلئے اچھا ثابت ہوا۔ وہ ہے GST  یہ عورتوں کے استمعال میں آنے والی چیزیں جیسے کپڑے، زیورات وغیرہ پر GSTآنے سے ان چیزوں پر ٹیکس لگایا گیا جس سے عورتوں کی شاپنگ میں کمی ہوئی۔ جس سے مرد حضرات خوش ہوئے لیکن مردوں کیلئے بھی کچھ چیزوں پر GSTلگائی گئی۔
          تیسرا وعدہ کالا دھن واپس ہندوستان لانے کا۔ وجئے مالیا وہ سارا کالا دھن لے کر باہر چلاگیا۔ اور وراٹ کوہلی آفریقہ میں اسطرح کھیل رہاتھا کہ جیسے کہ وجئے مالیا تھا۔ سارا قرض اسے ہی چکانا ہے۔ وزیراعظم نے یہ کہا تھا کہ کالا دھن آئیگا یہ روپیہ ہر غریب لوگوں کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوگا۔ بہرکیف وزیراعظم کا یہ خواب آدھا ہی ہوا۔ کالادھن تو ملا نہیں لیکن غریبوں کے اکاؤنٹ میں 3000روپئے رکھنے کا فرومان جاری ہوا۔ جس کسی کے اکاونٹ میں 3000 سے کم ہونگے وہ وہ بھی چلے جائینگے۔
          چوتھا وعدہ اچھے دن کا ہے جو وزیر اعظم حکومت میں آنے سے پہلے بولا کرتے تھے اچھے دن آئینگے وہ صحیح کہتے تھے کہ اچھے دن ہمارے نہیں ان کے آئینگے۔ جیسے گاؤں میں رہنے والے ملکوں کے دورے پر دورے کررہے ہیں Black Teaپینے والے وائٹ ہاوز میں coffee ہی رہے ہیں اور ایک تعلیم یافتہ آدمی دوسرے ان پڑھ لوگوں کے بیچ میں بیٹھ رہا ہے اور بول رہاہے۔
          پانچواں سب سے اہم وعدہ نوجوانوں کو نوکری کا ہے جو وزیراعظم نے پکوڑے بیچنے کا مشہورہ دے کر وہ بھی پورا کردیا۔ ہمارے نوجوانوں نے فوراً ہی ان کی بات پر عمل کر تے ہوئے اپنی ڈگریاں ہاتھ میں لے کر کالج کے باہر، آفیس اور جہاں کہیں جگہ ہو پکوڑے بیچنے کا کام شروع کردیا۔ اگر وزیراعظم یہ بات پہلے ہی بتاتے تو آج ہر اسکول اور کالج کی جگہ پکوڑے اسٹال نظر آتا۔ وزیراعظم نے 4سالوں میں پانچ اہم وعدوں کو پورا کیا اور دورے پر دورے کئے ہیں۔ میرے خیال سے شاید وہ اب بہت تھک گئے ہیں۔ تو ہم سب بھارتیوں کا یہ فرض ہوتاہے کہ ان کو آرام کیلئے بٹھانا چاہئے۔
          وزیراعظم نے جو خواب دیکھا تھا Make in India وہ بھی سچ ہوتا ہوا نظر آرہاہے۔ کیونکہ Making Indiaکا پہلا مقصد ”پکوڑا“ ہی ہے کیونکہ وزیراعظم نے نوجوانوں کے خوابوں کو ختم کردیا۔ اور اپنے خوابوں کو پورا کیا۔
          اور یہ بھی کہاگیا تھا کہ ہوائی چپل پہننے والا بھی ہوائی جہاز کا سفر کرے گا۔ انکا یہ مقصد بھی پورا ہوا۔ وہ خود ہی ہوائی چپل پہنتے تھے اور آج وہ ہوائی جہاز میں پوری دنیا کا سفر کررہے ہیں۔  میری نوجوانوں سے یہ رائے ہے کہ جو بھی نوکری کیلئے انٹرویو کیلئے لائینوں میں کھڑے ہوئے ہیں وہ لوگ پکوڑا اسٹال لگاکر پکوڑے بیچے اور لائینوں میں کھڑے رہنے سے بچے اگر آج شاعر مشرق زندہ ہوت تو شاید یہ کہتے۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کی گنبد پر
تو پکوڑے ہی بیچا کر چائے کی دکانوں پر

          پہلے ہمارے دیش کو سونے کی چڑیا کہاجاتا تھا۔ اور اب ہمارے ملک کو لوگ ایک نئے نام سے جانیں گے۔ DPC یعنی Degree Pakoda Country۔
          ہمارا ملک آج کے دور میں اتنی ترقی کررہاہے کہ ہمیں بھروسہ ہے کہ ایک دن ہم امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دینگے۔ لیکن ہمارے قابل وزیراعظم کو یہ پتا ہی نہیں کہ ہمارے ملک ہندوستان میں اتنے قدرتی وسائل و ذرایعہ ہیں کہ ہم دنیا کے دوسرے ممالک سے بہت آگے ہیں۔ اور بہت زیادہ وسائل کی بنا پر بہت ترقی کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم نوجوانوں کی ہمت افزائی کرنے کے بجائے انہیں احساس کمتری میں ڈال رہے ہیں۔ اور پکوڑے بیچنے کا مشہورا دے رہے ہیں۔ اگر ایسے رہنماوں کے ہاتھ ہمارے دیش کی باگ ڈور دی جاتی ہے تو اس دیش کا اللہ ہی حافظ ہے۔

٭٭٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو