نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جولائی, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کلامِ اقبال میں "پہاڑوں "کا تذکرہ

عنبرین فاطمہ ریسرچ اسکالر      گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ          میری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی علامہ اقبالؔ کی شاعری کو فطری شاعری کہاگیا ہے۔اقبالؔ کی شاعری واقعتاً فطری شاعری ہے۔فطرت سے مراد کائنات میں نظر آنے والی وہ ظاہری و مادی اشیاء جن کا تعلق براہِ راست مظاہرِ قدرت سے ہے۔جسمیں انسان کی کاریگری کو کوئی دخل نہیں ہے۔اقبالؔ اسی فطرت کو شاعری کے حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن کسی جمشید کا ساغر نہیں میں رفتار کی لذت کا احساس نہیں اسکو فطرت ہی صنوبر کی محرومِ تمنا ہے علامہ اقبالؔ کی شاعری میں جہاں قومی اور ملی جذبات کا اظہار ملتا ہے وہیں مناظرِفطرت پر بھی بہت سارے اشعار اور نظمیں ملتی ہیں۔مناظر فطرت کے اعتبار سے آپ کی نظموں میں کوہ،کوہ سار،دریا،چرند پرند وغیرہ کا تذکرہ ہواہے۔جو ہر قاری کو اپنی جانب   متوجہ کرنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔اقبال کی شاعری میں مختلف عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے یعنی اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔میری نظر"کوہ"یعنی"پہاڑوں پر گئی چنانچہ اقبالؔ کے اشعار میں جن پہ

علامہ اقبال کی شاعری میں دریاؤں کا تذکرہ

علامہ اقبال کی شاعری میں دریاؤں کا تذکرہ عنبرین فاطمہ ریسرچ اسکالر گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ           علامہ اقبال اردو شاعری کے ایک ایسے شاعر ہیں جن کے افکار ونظریات کو سرسری طور پر بیان کرکے گزر جانا بہت ہی مشکل ہے اردو شاعری میں جہاں انکا نظریہءخودی اور فلسفہءعشق سب سے زیادہ مقبول ہوا اور سب سے زیادہ ان نظریات پر بات کی گئی۔وہیں انکا فلسفہءحسن،فلسفہءجہد وعمل،فلسفہءفطرت، پر اب تک کئی دستاویزی مضامین اور کتابیں آچکی ہیں۔جس کے متعلق سید عبداللہ،خلیفہ عبدالحکیم،عبدالسلام ندوی،فرمان فتحپوری سے لے کر موجودہ عہد کے اہم نقاد اور ماہرِ اقبالیات میں مثلاًپروفیسر جگن ناتھ آزاد،مضطرمجاز اور پروفیسر عبدالحق وغیرہ کے نام بھی لئے جاسکتے ہیں۔علامہ اقبال نے حسن وعشق کے ساتھ اپنی شاعری میں جس حسین طور پر فطرت کی عکاسی کی ہے۔اسکی مثال بہت کم ملتی ہے۔زمان ومکان کا فلسفہ علامہ اقبال کے کئی نظموں میں پایا جاتا ہے۔فلسفہءوقت جیسا کہ مشہور ہے مثل مسجد قرطبہ جیسی نظم فلسفہءوقت پر لکھی گئی ہے۔وہی زمان کے ساتھ مکانا ت میں خصوصیت کے ساتھ ن نظر آتا ہے چاہے وہ شہرِبغداد ہو یا ہسپانیہ ہو(اسپین) کا شہر ہ

اُردو میں ڈرامے کا فن اور اسکی حیثیت از محمد مسیح اللہ

اُردو میں ڈرامے کا فن اور اسکی حیثیت  محمد مسیح اللہ،   رسرچ اسکالر،  گلبرگہ یونیورسٹی           ڈرامہ وہ صنف ادب ہے جسمیں زندگی کے حقائق و مظاہر کو عملاً پیش کیاجاتاہے۔ ڈرامہ کا تصور اسٹیج سے جڑاہواہے۔ اسٹیج کے ذریعہ شائقین کی ذہنی تسکین اور تفریح طبع کا سامان فراہم کیاجاتاہے۔ دیگر اصناف ادب کی طرح ڈرامہ کی بھی ایک مستقل حیثیت ہے۔ اور دنیا کی اکثر و بیشتر زبان و ادب میں ڈرامے کی صنف کو اونچا مقام ملاہے۔ اور اسکی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کے زبان و ادب کی ۔           انگریزی ادب میں شیکسپئر اور برناڈ شاہ کے ڈرامے بے مثال ادبی شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں اسی طرح فرانسیسی، جرمنی روسی زبانوں میں بھی ڈرامے لکھے گئے۔ چونکہ اردو ادب کا زیادہ حصہ اسلام اور مسلمانوں سے جڑاہواہے اور اسلام میں رقص و موسقی کو ناپسندیدہ ہونے کی بنا پر اردو ڈرامے کو وہ عروج نہیں مل سکا جو دیگر اصناف ادب کو ملا۔           اردو ڈرامے کو اسکا خاطرخواہ مقام نہ ملا۔ پھر بھی اس صنف ادب نے اپنی ایک شناخت پہنچان بنالی۔ بقول ڈاکٹر عبدالحق۔ ‘‘اصل یہ ہے کہ ہمارے یہاں اس فن کو حقیرسمجھاجاتاہے اور یہی وجہ ہے کہ

افسانہ ‘‘دعا’’ کا جائزہ از محمد مسیح اللہ

افسانہ ‘‘دعا’’ کا جائزہ           سید محمد اشرف نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کہانیوں سے کیا اور بہت کم عرصہ میں دور جدید کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شامل ہوگئے اور اپنا ایک مقام بنالیا۔ انہوں نے افسانہ نگاری میں انسانی اقدار کی پامالی معاشرتی عدم مساوات کا کرب اعلیٰ اقدار کی زوال پذیری کو موضوع بنایاہے۔ زبان و بیان پر فنکارانہ گرفت کردار کے انتخاب میں بیدار بغزی کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ انکے فنی مہارت کا عکس ہے جو انکے افسانوں سے جھلکتاہے۔ انکےافسانوں میں سادگی اسلوب کے علاوہ فطری پن نمایاں نظر آتاہے۔ انکے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ‘‘ڈار سے بچھڑے’’ اور ‘‘بادصبا کا انتظار’’ اور ایک ناول بھی شائع ہوچکی ہے۔ ‘‘دعا’’ یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتاہے۔ معاشی تنگی کی وجہ سے گاؤں سے شہر کو کام کیلئے آتاہے تاکہ اپنے ماں باپ بھائی بہن کی مدد کرسکے۔ لیکن وہ شہر آکر جس گھر میں ملازم بنتاہے۔ وہ اسکا استحصال کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک کام لیتے ہیں۔ نتیجتہً اسکے دل میں نفرت کا جذبہ ابھرتاہے۔ چنانچہ ایک دفعہ طوفان آتاہے۔ تو مالکن ہم صاحب کے کہنے پر وہ جا

محمد یعقوب بیگانہ بحیثیت شاعر از استاد عبدالرشید

محمد یعقوب بیگانہ بحیثیت شاعر             محمد یعقوب بیگانہ نے ایک شاعر کی حیثیت سے کم وبیش تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ حمد ، نعت ،نظم ،غزل ،مرثیہ ،قطعات وغیرہ لکھے ہیں۔ آپ کی تین شعری تصانیف منظرِ عام پر آچکی ہے۔ جن کے عنوان ” انسان بنو ،حنائے غزل اور عدم کاسفر “ ہے ۔ا ن کے مجموعہ ” انسان بنو اور عدم کاسفر“ میں نظموں کی کثرت ہے جب کہ مجموعہ ” حنائے غزل “ غزلیہ شاعری پر مشتمل ہے۔             بیگانہ کے کلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کے خیالات احساسات اور مشاہدات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔آپ کے کلام کی برجستگی ،سادگی اور صاف گوئی کے بدولت ان کے نغموں میںحسن وتاثیر کی شان پیدا ہوئی ہے۔ ان کے شعری سرمایے میں دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں نظمیہ شاعری کا پلہ بھاری ہے۔ انہوں نے پابند نظموں کے علاوہ دو چار آزاد نظمیںبھی لکھی ہیں ۔ جن کے مطالعے سے انداز ہ ہوتاہے کہ آپ آزاد نظمیں بھی کامیابی کے ساتھ لکھے سکتے ہیں۔ آگے کے صفحات میں آپ کے تین شعری مجموعے کا مقدور بھر جائزہ لیا گیا ہے۔