نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

افسانہ:لبیک برصدا۔۔۔ایک اجمالی جائزہ

افسانہ:لبیک برصدا۔۔۔ایک اجمالی جائزہ  ریاض قاصدار کا تعلق شہر گلبرگہ سے ہے۔یہ اور بات ھیکہ دوران ملازمت انھوں نے مختلف مقامات کی سیر کی۔مگر ادبی اعتبار سے انھیں گلبرگہ ہی راس آیا،یہیں انھوں نے افسانے خلق کئے اور یہاں کی ادبی محفلوں سے انھوں نے شناخت بھی بنا لی۔میرے پیش نظر انکا افسانہ ”لبیک برصدا“ ہے گو کہ یہ افسانہ بیانیہ ہے اس میں فلیش بیک تکنیک کا استعمال بھی ہوا ہے۔اس میں وقوع بھی ہے کردار بھی اور کردار کی مناسبت سے زبان کاا ستعمال بھی ہوا ہے اس میں کہانی پن بھی ہے،یہ کہانی حقیقت کے قریب بلکہ حقیقی معلوم بھی ہوتی ہے، گوکہ تخیل کی آمیزش نے اسے عمدہ بنادیا ہے بغیر تکیل کے کوئی فن پارہ معرض وجود میں نہیں آسکتا،ہاں مناسب الفاظ کی دروبست اسے دو آتشہ بنا دیتی ہے اس افسانہ میں انسان دوستی کو جس طور پیش کیا گیا ہے۔ وہ قابل تعریف ہے۔اس میں نہ مذہب کی دیوار ہے اور نہ مسلک کا شائبہ۔بس انسا ن دوستی اور انسانیت کے ناطے خدمت کا جذبہ ہے جسے حقوق العباد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔مخلوق خدا سے محبت اور اس کی خدمت ہی شاید سب کچھ ہے افسانہ نگار نے بین السطور میں اونچ نیچ میں،مذہبی اعتبار

News of Kalaburagi by Dr. Syed Arif Murshed 11.03.2019

Urdu news by Dr. Syed Arif Murshed 20.02.2019

سمیرا حیدر یا سمیرا ناظم کی افسانہ نگاری

 مضمون نگار :  محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی      گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ۔               حیدرآباد کرناٹک کے علاقے میں یوں تو علمی و ادبی لحاظ سے گلبرگہ کو ایک مرکزی مقام حاصل ہے اس وجہ سے بھی کہ گلبرگہ 600سال قبل سلاطین، بہمنی کا پایۂ تخت رہا ہے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کی فیروز شاہ کے عہد میں آمد نے ایک انقلاب برپا کردیا تھا۔ بہمنی سلاطین کے دور میں علم و ادب کی شمعیں روشن ہوچکی تھیں۔ دکنی ادب کی پیدائش ان ہی علاقوں میں ہوئی تھی۔ اور بہمنیوں کی سرپرستی میں خاص طور پر بیدر میں اس ادب کو کافی فروغ حاصل ہوا اور پہلی معلوم شیریں تصنیف فخر الدین نظامی کی ’’کدم راؤ پدم راؤ ‘‘ہے ۔

پان بحوالۂ رؤف خوشتر

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا ( ۱؂ ) ضلع بیجاپور جو جنوبی ہند (ریاست کر ناٹک)کا ایک تاریخی شہر ہے ۔یہاں کی فضاؤں میں خوبصورتی ہے ،اور یہاں کی عوام زیادہ تر دکنی لہجے میں گفتگو کرتی ہے ۔ایسی ہی دلنشین گفتگو اور اس سے زیادہ پر بہار قلم کے مالک روف خوشتر ہیں ۔وہ ایک کامیاب طنز اورمزاح نگار ، اچھے افسانہ نگار اور افسانچہ نگار بھی رہے ہیں ۔وہ ایک بلند پایہ ادیب تھے ۔جنہوں نے اپنی انشائیہ نگاری سے ہمارے اس خطے کا نام روشن کردیا۔ روف خوشتر (پیدائش ۱۹۴۴۔۱۰۔۱۷ وفات۲۰۱۸۔۹۔۸)جو پہلے عبدالروف گندگی کے نام سے جانے جاتے تھے ۔وہاب عندلیب اس سلسلے میں رقمطرازہیں ۔

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی و سیاسی خدمات

مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی و سیاسی خدمات              از: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی، گلبرگہ یونیورسٹی، مولانا ابوالکلام آزاد کا پورا نام محی الدین احمد، تخلص آزاد، اور کنیت ابوالکلام تھی۔ ان کی پیدائش 11؍ نومبر 1888ء میں مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم والدین کی نگرانی میں گھر پر ہی ہوئی۔ یہ اک تعلیمیافتہ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام خیر الدین تھا۔ اور والدہ ایک نیک اور معزز خاتون تھیں۔ مولانا آزاد کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں عربی ، فارسی، اردو ، فلسفہ، ریاضی ، الجبراء اور انگریزی پر مہارت حاصل تھی۔ بالکل کم عمری ہی سے انہیں پڑھنے لکھنے کا شوق تھا، اس لئے مولانا آزاد کی ہمشیرہ نے صحیح کہا تھا کہ ’’ مولانا آزاد نے بچپن نہیں دیکھا، ان کے کم عمر ہی میں معلوم ہوتا تھا کہ ان کے ننھے ننھے کاندھوں پر ایک سَر ہے جس میں ایک بڑا اونچا دماغ ہے‘‘۔  اسی طرح بُلبُلِ ہند سروجنی نائیڈو نے بھی کہا تھا کہ:  ’’ مولانا کی عمر ان کی پیدائش کے وقت ہی 50 برس کی تھی‘‘۔ 

رؤف خوشتر کی تیسری آنکھ

رؤف خوشتر کی تیسری آنکھ                                                                                                                                                                  ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ طنزومزاح دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن استعمال ایک ساتھ کی جاتی ہیں۔ طنز الگ چیز ہے اور مزاح چیزے دیگر است۔ مزاح کا مقصد لوگوں کو ہنسانا ہوتا ہے۔ لیکن طنز کا مقصد کسی شخص، سماج، معاشرے، وغیرہ کی خامیوں سے پردہ اٹھانا ہوتاہے۔ اگر طنز میں مزاح کا عنصر نہیں پایا جائے تو طنز بہت گہرے گھاو کرجاتاہے۔ اسلئے یہ ضروری ہے کہ طنز کے ساتھ مزاح بھی ہو۔ یا اس کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ طنز ایک آپریشن ہے جس کے ذریعہ معاشرے یا فرد کی خامیوں اور برائیوں کو نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور مزاح اس اپریشن کے وقت Anesthesia یعنی بے حوشی کی دوا کا کام کرتاہے۔

اُردو زبان و ادب کے فروغ میں ڈاکٹر زورؔ کا حِصّہ

اُردو زبان و ادب کے فروغ میں ڈاکٹر زورؔ کا حِصّہ محمد مدثر، ریسرچ اسکالر آج اُردو زبان اور اس کا ادب جس ارتقائی منزل پر نظر آرہا ہے ، ماضی قریب و ماضی بعید کے بہت سارے ادیبوں، شاعروں ،نقادوں،صحافیوں ارو مُحققین کی بے پناہ مُحبتوں اور محنتوں کا ثمر ہے بلاشُبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کا سرما یہ دُنیا کی کسی بھی زبان اور ادب کے سر مائے سے کم نہیں ۔ اکیسویں صدی میں تو اس سرمائے میں اضافہ ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ارتقاء کسی فردِ واحد یا کسی ادارے کا کام نہیں ،اجتما عی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی و سیاسی خدمات :

محمدی بیگم مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی و سیاسی خدمات : مولانا ابوالکلام آزاد کا پورا نام محی الدین احمد، تخلص آزاد، اور کنیت ابوالکلام تھی۔ ان کی پیدائش 11؍ نومبر 1888ء میں مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم والدین کی نگرانی میں گھر پر ہی ہوئی۔ یہ اک تعلیمیافتہ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام خیر الدین تھا۔ اور والدہ ایک نیک اور معزز خاتون تھیں۔ مولانا آزاد کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں عربی ، فارسی، اردو ، فلسفہ، ریاضی ، الجبراء اور انگریزی پر مہارت حاصل تھی۔ بالکل کم عمری ہی سے انہیں پڑھنے لکھنے کا شوق تھا، اس لئے مولانا آزاد کی ہمشیرہ نے صحیح کہا تھا کہ ’’ مولانا آزاد نے بچپن نہیں دیکھا، ان کے کم عمر ہی میں معلوم ہوتا تھا کہ ان کے ننھے ننھے کاندھوں پر ایک سَر ہے جس میں ایک بڑا اونچا دماغ ہے‘‘۔ اسی طرح بُلبُلِ ہند سروجنی نائیڈو نے بھی کہا تھا کہ: ’’ مولانا کی عمر ان کی پیدائش کے وقت ہی 50 برس کی تھی‘‘۔