نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی و سیاسی خدمات :

محمدی بیگم


مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی و سیاسی خدمات :


مولانا ابوالکلام آزاد کا پورا نام محی الدین احمد، تخلص آزاد، اور کنیت ابوالکلام تھی۔ ان کی پیدائش 11؍ نومبر 1888ء میں مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم والدین کی نگرانی میں گھر پر ہی ہوئی۔ یہ اک تعلیمیافتہ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام خیر الدین تھا۔ اور والدہ ایک نیک اور معزز خاتون تھیں۔ مولانا آزاد کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں عربی ، فارسی، اردو ، فلسفہ، ریاضی ، الجبراء اور انگریزی پر مہارت حاصل تھی۔ بالکل کم عمری ہی سے انہیں پڑھنے لکھنے کا شوق تھا، اس لئے مولانا آزاد کی ہمشیرہ نے صحیح کہا تھا کہ ’’ مولانا آزاد نے بچپن نہیں دیکھا، ان کے کم عمر ہی میں معلوم ہوتا تھا کہ ان کے ننھے ننھے کاندھوں پر ایک سَر ہے جس میں ایک بڑا اونچا دماغ ہے‘‘۔
اسی طرح بُلبُلِ ہند سروجنی نائیڈو نے بھی کہا تھا کہ:
’’ مولانا کی عمر ان کی پیدائش کے وقت ہی 50 برس کی تھی‘‘۔


مولانا آزاد نے کم عمری ہی میں لکھنا شروع کیا ۔ اگرچہ ان کا تحریری سفر شاعری سے شروع ہوا، تاہم وہ نثر کی طرف راغب ہوئے۔ اور وہ نثری میدان کے شہسوار تھے۔ ان کے ابتداء میں لکھے ہوئے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

آزاد بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
پوچھی زمین کی تو آسمان کی

نشتر بدل ہے آہ کسی سخت جان کی
نکلی صدا تو فُصد کھلے گی زبان کی

وادۂ وسل بھی کچھ طُرفہ تماشے کی ہے بات
میں تو بھولوں نہ کبھی ان کو کبھی یاد نہ ہو

مولانا ابوالکلام آزاد ’’نیرنگِ عالم‘‘ ، ’’ المصباح‘‘ اور ’’الندوہ‘‘ وغیرہ رسائل سے بھی وابستہ ہوئے اور ان رسائل کی ادارت بھی فرمائی۔ 1903ء میں ’’لسان الصدق‘‘ رسالہ جاری کیا، جس کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس طرح مولانا کا علمی و ادبی سفر جاری رہا۔ 1912میں معروف زمانہ اردو ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ جاری کیا جس کے ذریعہ ہندوستانیوں کوقومی یکجہتی کا سبق دیا اور ملک کی آزادی کی تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دلائی۔ ان کی کاوشوں سے بنگال میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات بہتر ہوئے۔
پہلی جنگِ آزادی کے دوران برطانوی حکومت نے سینسر شپ
Sensor Ship کے ضابطوں کو سخت کردیا اور سیاسی کارگذاریوں پر پابندی عائد کردی۔ آخر کار 1914 ء میں پریس ایکٹ Press Act کے تحت ’’الہلال‘‘ کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ اس کے بعد مولانا آزاد نے ’’البلاغ‘‘ جاری کیا، اس کو جاری کرنے کا مقصد بھی وہی تھا جو ’’الہلال‘‘ میں دیا گیا تھا۔ مولانا آزاد نے قومی ، مذہبی ، سیاسی اور سماجی اصلاحات کو قوت بخشی۔
جب پورے ملک میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا تو برطانوی حکومت نے ان کے دوسرے اخبار کو بھی ’’ڈِفینس آف انڈیا ریگولیشن ایکٹ‘‘
Defance of India regulation act کے تحت غیر قانونی قرار دے دیا اور انہیں نہ صرف جیل میں بند کردیا بلکہ ’’بامبے پرسیڈینسی یونائیٹیڈ پرونس پنجاب اور دہلی میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ اس کے بعد مولانا کو رانچی کی جیل میں منتقل کردیا گیا، جہاں انہوں نے یکم جنوری 1920 ء تک جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔
مولانا کی شخصیت میں انقلاب برپا تھا۔ سیاسی شخصیات کے رابطہ میںآنے کے بعد ان کا رجحان صحافت کی جانب ہوگیا ، جس میں انہوں نے ’’احسن الاجنار‘‘ ، ’’لسان الصدق‘‘ ، ’’وکیل‘‘ ، ’’پیغام‘‘ ، ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘جیسے مؤقر اخبارات اور رسائل کو جاری کیا، جو اردو اخبارات میں بہت شہرت کے حامل ہوئے۔
جیل میں رہ کر مولانا آزاد نے اپنی زندگی کی مصروفیات کو خطوط نگاری کے مشغلے میں صَرف کردیا۔ ان کے خطوط کا مجموعہ ’’غبارِ خاطر‘‘ ہے ، جس کو پڑھنے سے ان کی شخصیت کی انفرادیت، انانیت، فکر و فلسفہ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے خطوط ان کی آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں ہیں۔ ان کے خطوط سے ان کی انشاء پردازی، حیات و کائنات کے بارے میں فلسفیانہ باتیں اور ایشیاء کے مفکروں کے خیالات نظر آتے ہیں۔
مولانا آزاد اپنی زندگی کے کئے سال جدوجہد آزادی کے نتیجہ میں قید و بند میں گذارے۔ ان تمام حالات کے باوجود مولانا آزاد دلبرداشتہ نہ ہوئے اور انہوں نے قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کی بھلائی متحدہ قومیت میں ہی مضمر ہے۔ مولانا آزاد نے اس میں اس طرح روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اصل خوشی جسم کی نہیں دماغ کی ہے جو قید خانے میں بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

’’ قید خانہ کی چار دیواری کے اندر بھی سورج ہر روز چمکتا ہے اور چاندنی راتوں نے کبھی قیدی اور غیر قیدی میں امتیاز نہیں کیا‘‘۔ وہ حقیقت سے سمجھوتہ نہیں کرتے بلکہ اسے اپنی شخصیت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے خطوط ادب کے بہترین انشائیے ہیں اور ان میں علمی، ادبی ، تحقیقی، سیاسی ، سماجی اور مذہبی ہر طرح کے مضامین پائے جاتے ہیں۔ ’’غبارِ خاطر‘‘ مولانا کی شخصیت کا آئینہ ہے۔
حسرتؔ ،مولانا آزاد کی نثر کے متعلق یہ شعر کہتے ہیں:

جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرتؔ میں کچھ مزہ نہ رہا

مولانا آزاد ملک کی تقسیم کے سخت مخالف تھے، انہوں نے جنگِ آزادی میں گاندھی جی کا ہمیشہ ساتھ دیا۔ مولانا آزاد نے آزاد ہند کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے ملک میں ایسا عمدہ تعلیمی نظام نافذ کیا جو تاریخِ ہند میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ آخر کار بیشمار قربانیوں کے بعد ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور مولانا ابوالکلام آزاد کوملک کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا ۔ وہ 11 برس تک ہندوستان کے وزیر تعلیم کے اعلیٰ عہدہ پر فائز رہے۔ اس عہدہ پر رہ کر انہوں نے بیشمار اصلاحات کیں۔ ان کے دورِ وزارت میں اسکول جانے کی عمر کے سبھی بچوں کیلئے بنیادی تعلیم کو لازمی اور مفت قرار دیا گیا۔ پنچ سالہ منصوبوں میں تعلیم کو اہمیت دی گئی۔ اعلیٰ تعلیم دینے کے کئی اقدامات کئے گئے اور کئی ادارے اور اکاڈمیاں قائم کی گئیں جس سے ہر فن کے حامل افراد کو فائدہ پہنچا۔
اس کے بعد ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے بند ہونے پر خلافت تحریک میں گاندھی جی کا ساتھ دیا اور گاندی جی کی طرفداری کی۔ اسی دوران 1940ء میں جب برطانیہ نے کاگریس کی تجویز کو مسترد کردیا، تب لاہور اجلاس میں مسلم لیگ نے علاحدہ مسلم ریاست کی تجویز پیش کی۔ اسی سال رام گڑھ اجلاس میں مولانا آزاد کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے مضطرب ہوکر محمد علی جناح کے دو قومی نظریے
Two Nation Theory کی سخت مخالفت کی۔ مذہبی تفریق کو مضر قرار دیا اور مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ متحد ہوکر ہندوستان کا وقار برقرار رکھیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے ختم ہونے کے بعد برطانیہ نے 1946ء میں تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا اور مولانا آزاد ’’آئین ساز اسمبلی‘‘ کے انتخابات کے دوران کانگریس کی قیادت کی اور ہندوستان کے آئین کا مسودہ تیار کیا اور کانگریس کے صدر کی حیثیت سے چھٹّے سال میں ’’برٹش کیبنیٹ مشن‘‘ سے مذاکرات کرنے والے وفد کی قیادت بھی کی۔
15؍ اگست 1947 ء کو ہندوستان آزاد ہوگیا اور تقسیم وطن کی وجہ سے ملک میں فسادات ہونے لگے۔ ایسے نازک حالات میں مولانا آزاد نے ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ کی ذمہ داری سنبھالی اور بنگال ، بہار، آسام اور پنجاب کے دورے کئے اور انہیں راحت کا سامان فراہم کیا۔
اسی طرح تقسیمِ ہندوستان کے بعد کابینہ کی ایک میٹنگ میں گاندھی جی کے ساتھ بات چیت کے دوران دہلی اور پنجاب میں سیکوریٹی
Security کے تعلق سے مولانا آزاد اور سردار پٹیل کے درمیان اختلاف ہوگیا تھا۔ اسی کے ساتھ مسلم نوآبادکاری کے مسئلہ میں پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد کا خیال تھا کہ پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے گھروں کو ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ہی دئے جائیں۔ سردار ولبھ بھائی پتیل نے یہ کہہ کر ’’سیکولر حکومت‘‘ میں کسی مذہبی طبقہ کو ترجیح نہیں دی جاسکتی اس تجویز کو مسترد کردیا۔
حالانکہ مسلم لیگ کے سیاستدان مولانا آزاد پر اس بات کا الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ہندو اکثریت و اقتدار والے ملک میں ثقافتی او ر سیاسی طور پر مسلمانوں کو ان کے تھت رہنے کیلئے مجبور کیا، تاہم مولانا آزاد نے تادمِ حیات ہندو مسلم یکجہتی جاری رہنے کے اپنے عقیدہ کو قائم رکھا۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:

’’ مجھے ہندستانی ہونے پر فخر ہے۔ میں ناقابلِ تقسیم اکائی کا ایک حصہ ہوں ۔ اور وہ ہے ہندوستانی شہریت اس کی شاندار عمارت میں وابستہ ہوں اور میرے بغیر یہ ڈھانچہ نامکمل ہے۔ میں ایک لازمی حصہ ہوں جو ہندوستان کی تعمیر کیلئے نکلا ہے۔ میں اس دعوے سے دستبردار نہیں ہوسکتا‘‘۔

مولانا ابوالکلام آزاد ہمارے ملک کی جنگ آزادی کے اہم ترین ستون ہیں، ان میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھراتھا۔ آزادی کے بعد ہندوستان کے اولین وزیر تعلیم کی حیثیت سے انہوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئے ، وہ تاریخ کے اوراق میں سنہرے الفاظ میں درج ہیں۔ مولانا آزاد نے ایک کتاب ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ (
India Wins Freedom) کے نام سے لکھی ہے ، جومولانا آزاد کی جدوجہد ، علمی بصیرت ، سیاسی تدبر اور ان کے بے مثال کارنامے ہمیشہ نئی نسل کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ ان کا شمار تحریکِ آزادی اور آزاد ہندوستان کے ان عظیم کانگریسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جن پر قادر وطن کو ہمیشہ ناز رہے گا۔
اس بلند پایہ شخصیت کا انتقال 22؍ فروری 1958 ء کو دلّی میں ہوا۔ آپ کا مزار دلّی کی جامع مسجد کے قریب واقع ہے۔ آپ کا یومِ پیدائش 11؍ نومبر کو ہرسال ’’قومی یومِ تعلیم‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی اس اہم رباعی سے میں اپنے مقالے کا اختتام کرتی ہوں کہ:

تھا جوش و خروش اتفاقی ساقی
اب زندہ دلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا نہ ساقی ساقی

(بحوالہ: کتاب، ابوالکلام کی کہانی خود ان کی زبانی۔ صفحہ نمبر: 23)

مقالہ نگار:
محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو و فارسی،  گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ

فون: 9902878409



*****

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو