نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پان بحوالۂ رؤف خوشتر



بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
( ۱؂ )
ضلع بیجاپور جو جنوبی ہند (ریاست کر ناٹک)کا ایک تاریخی شہر ہے ۔یہاں کی فضاؤں میں خوبصورتی ہے ،اور یہاں کی عوام زیادہ تر دکنی لہجے میں گفتگو کرتی ہے ۔ایسی ہی دلنشین گفتگو اور اس سے زیادہ پر بہار قلم کے مالک روف خوشتر ہیں ۔وہ ایک کامیاب طنز اورمزاح نگار ، اچھے افسانہ نگار اور افسانچہ نگار بھی رہے ہیں ۔وہ ایک بلند پایہ ادیب تھے ۔جنہوں نے اپنی انشائیہ نگاری سے ہمارے اس خطے کا نام روشن کردیا۔
روف خوشتر (پیدائش ۱۹۴۴۔۱۰۔۱۷ وفات۲۰۱۸۔۹۔۸)جو پہلے عبدالروف گندگی کے نام سے جانے جاتے تھے ۔وہاب عندلیب اس سلسلے میں رقمطرازہیں ۔

’’میٹرک کے بعد انہوں نے وجئے پور کالج بیجاپور سے گریجویشن کیا ۔اور کولھاپور یونیورسٹی (مہاراشٹرا )سے پوسٹ گریجویشن مکمل کیا ۔بی ایڈ کے بعد انکا پہلا تقرر ۱۹۷۰ میں گورنمنٹ پی بی ہائی اسکول جمکھنڈی پر ہوا۔۱۹۷۲ تا ۱۹۷۶ گورنمنٹ پی یو کالج چک بالا پور اور ہمنا آباد میں اردو کے لیکچرر رہے۔ ۱۹۷۶ میں گلبرگہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں اردو کے لیکچرر منتخب ہوئے ۔۔۔۔اور گلبر گہ کے ادبی ماحول نے انکی حوصلہ افزائی کی اور مضامین لکھنے کا آغاز کیا۔تب ہی سے عبدالروف گندگی سے روف خوشتر ہوگئے۔‘‘ ۲؂

آپکا پہلا انشائیہ روزنامہ سلامتی گلبرگہ سے ۱۹۷۸ میں شائع ہوا۔آپکی پہلی تصنیف ’’غبار حاضر ‘‘۱۹۸۲ میں شائع ہوئی۔پھر کئی سال ادبی دنیا سے دور رہے ۔اس دوران ادبی مصروفیات سے زیادہ گھریلو مسائل میں منہمک رہے۔ادب سے یہ دوری کب تک رہتی ؟وہ پھر سے مضامین لکھنے لگے اور ۲۰۰۹ میں انکا دوسرا مجموعہ ’’آنکھ بیتی ‘‘منصہ شہود پر آیا ۔تیسرا مجموعہ ’’صرف درباں ‘‘۲۰۱۱ میں شائع ہوا ۔
مزاح نگاری یقیناًایک الگ نوعیت کا فن ہے ۔یہ شاعری کی طرح نہیں جسمیں ردیف اور قافیہ کی پابندی ہو تی ہے ۔ اس فن میں نقالی اور موضوعات کی تکرار کے خدشات کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں ۔مزاح کے فن میں فنکار کو ایسا شکاری بننا پڑتا ہے جو خود اپنا ایک نیا موضوع شکار کرسکے ۔
اسٹیفن لیکاک نے مزاح humour )) کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
’’زندگی کی مہمل اور بے جوڑ چیزوں پر ہمدردانہ غوروفکر اور انکا فنکارانہ اظہار humour کہلاتا ہے خواہ یہ اظہار لفظوں ،تصویروں یا اشاروں کے ذریعہ ہو۔‘‘ ۳؂
لیکن طنز نگار کا مقصد اصلاح بھی ہوتا ہے۔ وہ ہنسی ہنسی میں ایک آدھ جملہ ایسا کہہ جاتا ہے ۔جو پڑھنے والے کو چبھتا ہے وہ اپنے بارے میں سوچنے لگتا ہے اور اپنی اصلاح کرتا ہے ۔
’’طنز ایک ادبی اسلوب ہے جسمیں کسی فرد بنی نوع انسان یا مکتبہ فکر کی کمزوریوں، برائیوں اور بد اخلاقیوں کو اصلاح کے خیال سے تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بنایا جائے۔ ۴؂

طنز نگار ہنسی ہنسی میں اپنے معاشرتی حالات اور سماج کے کسی مظہر کو نشانہ بناتا ہے دراصل طنز کے لئے مزاح کا اور مزاح کے لئے طنز کا ہو نا ضروری ہے ۔
’’طنز ومزاح کے عناصر دراصل فرد اور زندگی پر تنقیدی نظر کا حکم رکھتے ہیں ۔اور انہی کا سہارا لے کر ادیب ماحول کی بے اعتدالیوں اور فرد کی نا ہمواریوں پر نظر احتساب ڈالتا ہے ۔اس میں فرق صرف یہ ھیکہ تنقیدی ادب اپنے سنجیدہ عناصر کے باعث ایک رد عمل کو بھی تحریک دے سکتا ہے ۔لیکن طنزیہ و مزاحیہ ادب ،ملائمت اور نشتریت کے ایک خوشگوار امتزاج کے باعث قابل برداشت ثابت ہوتا ہے اور کسی ناگوار رد عمل کو تحریک نہیں دیتا ۔‘‘ ۵؂

طنز کی یہ کاٹ روف خوشتر کے مضامین میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔مختلف ماہرین و ناقدین ادب نے آپکی طنز ومزاح کو سراہا جیسا کہ۔
۱۔ فکر تونسوی رقمطراز ہیں ۔
’’نام شرفاء کا سا،قد وقامت طلباء کا سا ،مگر دونوں سے کوئی خدشہ نہیں تھا۔ لیکن قلم کو دیکھا تو نصف النہار کا سا۔دو چار مضامین پڑھے تو خدشہ اور بڑھ گیا کہ یہ تو مزاح کو طنز کا موڑ دے رہا ہے۔اور یہ تو خطرناک موڑ ہے جہاں یا تو دوسروں کا سر قلم اور یا اپنا سر قلم !لیکن پھر دیکھ کر اطمینان ہوا کہ مزاح میں مزاحیہ شرافت بھی کار فرما ہے۔ اور نصف النہار کی تیکھی اور تیز تپش بھی۔ ؂۶
۲۔ مجتبی حسین تحریر کرتے ہیں ۔
’’روف خوشتر کی مزاح نگاری کی امتیازی خصوصیت موضوعات اور کرداروں کا تنوع ہے اسی لئے انکے مضامین میں رنگا رنگی پیدا ہوگئی ہے ۔۔۔انکے اسلوب میں بلا کی روانی اور شگفتگی ہے وہ جس اعتماد کے ساتھ لفظوں سے کھیلتے اور پھر انھیں برتتے ہیں وہ انکے تخلیقی شعور کی پختگی کی دلیل ہے ۔ ۷؂

۳۔ یوسف ناظم نے لکھا ھیکہ۔
’’روف خوشتر مزاح کو مزاح کی طرح پیش کرتے ہیں ۔پٹاخوں کا انھیں شوق نہیں شگفتگی اور دبی دبی شوخی سے اپنے مزاح کو شاداب بناتے ہیں ۔انکے یہاں خاص بات یہ ھیکہ یہ اپنے مضامین کو جواں بخت کے سہرے کی قباء سے بڑھنے نہیں دیتے۔ لیکن گز بھر کے سہرے میں کسر کم ہی چھوڑتے ہیں اسطرح اسٹیشنری کی بھی بچت ہوتی ہے اور قاری بھی خوش رہتے ہیں کہ مونگ پھلی کے دو پیکٹ کھا کر منہ دکھانے سے تو بہتر ہے کہ گن کے چار کاجو کھا لئے جائیں ۔‘‘ ۸؂

۴۔ وہاب عندلیب کی رائے ھیکہ ؛
’’جہاں تک روف خوشتر کے فن کا تعلق ہے بلا شبہ انکا شمار اردو کے معتبر و موقر مزاح نگاروں میں ہوتا ہے انکے منتخب مضامین ڈگری کالج کے نصاب میں بھی شامل ہیں انہیں صرف ’’ہنسی کا فوارہ‘‘قرار نہیں دیا جاسکتا ۔انکی مزاح نگاری سنجیدگی و متانت لئے ہوئے ہے اس پہ کہ انکے طنز کی کاٹ بڑی گہری ہے۔ ۹؂

۵۔ ایم نصر اللہ نصرؔ لکھتے ہیں :
’’وہ درد اور دکھ کی بات کو ہنسی کے پیرائے میں اسطرح پیش کرتے ہیں کہ قاری لطف اندوز بھی ہوتا ہے اور سرور آگیں کیفیات کے ساتھ طنز کے تیر کی ضرب بھی محسوس کرتا ہے۔۔۔۔۔اور قاری جب ذرا گہرائی میں جاکر انکا محاسبہ کرے گا تو اسے علم کا خزانہ بھی حاصل ہوگا اور فکر کی وسعتیں بھی نظر آئیں گی ۔عصری حالات اور نئی تہذیب کا بھیانک چہرہ بھی عکس ریز ہوگا۔ ۱۰؂
۶۔ ڈاکٹر روف رضوان اللہ آروی کا خیال ھیکہ :
’’خوشتر کا مزاحیہ ادب ایک بڑے کینوس پر پھیلا ہوا ہے اور اپنے لکھنے والے کو مشاہدے کی وسعت کا پتہ دیتا ہے۔ ایک ایسا مشاہدہ جو باریک بھی اور بصیرت افروزبھی ۔فکر وشعور کی آگہی سے بھر پور اور بالیدگی فن سے مملو ، خوشتر کی تحریروں سے بلا شبہ اس زوال آمادہ صنف کو ایک سنبھالا ملا ہے ۔تازگی اور نئی زندگی ملی ہے ۔۔۔ ۱۱؂
۷۔ افتخار امام صدیقی کچھ یوں گویا ہیں ۔
’’رؤف خوشتر خواہ مخواہ گدگداتے ہیں اور نہ ہی جبراً ہنسانے کی سعی کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے قاری کی سوچ کو کینوس پر کبھی تبسم تو کبھی مسکراہٹ تو کبھی ہنسی اور قہقہ بن جانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ۱۲؂

ان تمام کے تاثرات ، خیالا ت اور آراء سے یہ بات مدلل ثابت ہوتی ھیکہ آپ ایک بلند پایہ طنز و مزاح نگار ہیں۔ فن انشائیہ نگاری ریاضت چاہتا ہے ۔اسکی گہرائی و گیرائی کا دار ومدار فضا پیمائی ،روانی اور شگفتگی پر ہے۔ زندگی کی حرمت اور انسانیت کی معراج انشائیہ کی شان ہوتی ہے اسلوب میں لطافت لب و لہجہ میں ظرافت انشائیہ کی پہچان ہے الغرض انشائیہ زندگی اور زندہ دلی کا پیکر ہے ۔
جسطرح جانوروں میں شیر ، پرندوں میں عقاب جرات مند ہیں۔ اسی طرح جرات اظہار انشائیہ کی روح ہے، جو قاری کے جگر کو وارفتہ اور دل کو شیفتہ بنا دیتی ہے اور رؤف خوشتر کی پہلی تخلیقی کاوش ’’غبار حاضر‘‘میں یہ پہلو موجود ہے ۔اسمیں ۱۸ مضامین شامل ہیں مشہور طنز ومزاح نگار مجتبیٰ حسین نے غبار حاضر کا پیش لفظ لکھا ہے۔ او’ر حرفے چند ‘کے عنوان سے یوسف ناظم نے اپنے تاثرات کو صفحہ قرطاس پر سجایا ہے اور مصنف نے ’’پان سے یرقان تک۔بقلم خود‘‘کے عنوان سے غبار حاضر لکھنے کی غرض و غایت بیان کی ہے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’عصڑ حاضر کی گھٹن اور چبھن کو بہت حد تک طنز ومزاح کے ذریعہ دور کیا جاسکتا ہے۔ میرے انشائیوں کا مجموعہ’’غبار حاضر‘‘اسی سلسلے کی ایک کوشش ہے میں نے اپنے گرد وپیش کے سیاسی ، معاشی اور اخلاقی غبار کی کثافت اور گرواٹ کو شدید طور پر محسوس کرتے ہوئے کئی گوشوں کی طرف چپکے سے اشارہ کیا ہے۔‘‘ ۱۳؂

زیر نظر تصنیف میں ’’پان‘‘پہلا مضمون ہے اور پان کے حوالے سے مصنف نے بہت ہی دلچسپ اور انوکھا انشائیہ تحریر کیا ہے۔ انکے اس مضمون میں طنز ومزاح دونوں موجود ہیں انکا طنز ،مزاح کے شگوفے کے زیریں حصے میں موجود ہے۔
پان خدا کی دی ہوئی نعمت ہے۔ پان کا یہ سادہ سا پتہ خداداد خوبیوں کا مالک ہے ۔نہ صرف ہنوستانی تہذیب کا اہم حصہ ہے بلکہ ہماری اجتماعی ،ثقافتی و مذہبی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔الغرض ہماری تہذیب سے اسقدر جڑا ہے کہ ہر خاص وعام اسکا دلدادہ ہے۔
ہندوستان آنے والے غیر ملکی سیاحوں نے بھی پان کا ذکر بہت دلچسپی سے کیا ہے۔ البیرونی نے اپنی کتاب الہند میں لکھا ھیکہ ہندوستان کے دانت سرخ ہوتے ہیں ۔امیر خسرو نے کہا ھیکہ پان منہ کو خوشبودار بناتا ہے۔ چینی سیاح آئی چنگ نے پان کو ہاضم قراردیا ہے ۔اور روف خوشتر کے اس مضمون ’’پان‘‘ کے اس اقتباس سے بھی پان کی مقبولیت کا ندازہ ہوتا ہے۔
’’ہمارے معاشرے میں آن بان شان کے علاوہ پان بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ہر زمانے اور ہر دور میں پان تاریخ کا ایک لازمی جز رہا ہے۔ اسی پان کے بیڑے کو اٹھا کر بہادر کسی عزم کا عہد کرتے تھے اگلے وقتوں میں صرف صاحبِ آن بان اور شان یا حویلی بھر دھان والوں کو ہی پان نصیب ہوتا تھا۔ ۱۴؂

پان برصغیر کا ایک نہایت مقبول پتہ ہے جو منہ کی تازگی کے لئے کھایا جاتا ہے ۔جو انسانی صحت کے لئے نہایت مفید ہے۔ پان میں آئیوڈین ،پوتاشیم ،وٹامن اے 12 ،وٹامن بی 2،اور نکوٹنک ایسڈ پائے جاتے ہیں ۔
روف خوشتر کے اس انشائیہ کو پڑھنے کے بعد اردو میں لفظ پان جہاں جہاں استعمال ہوا وہاں ذہن چلا جاتا ہے۔ کبھی اردو شاعری میں تو کبھی ہندوستانی فلموں میں ۔.پان کے شیدائی ہر زمانے میں رہے ہیں ۔فلمی گانوں میں بھی پان نے خوب شہرت پائی جیسا کہ:
او کھائی کے پان بنارس والا
کھل جائے بند عقل کا تالا
پھر تو ایسا کرے دھمال
سیدھی کردے سب کی چال
او چھورا گنگا کنارے والا
(فلم :ڈان؛گلو کار:کشور کمار)
پان کھائیو سیاں ہمارو
سانولی صورتیا ہونٹ لال لال
ہائے ہائے ململ کا کرتا
ململ کے کرتے پہ چھینٹ لال لال
پان کھائیو سیاں ہمارو
(فلم:تیسری قسم ؛ گلوکارہ:آشا بھونسلے)

چلی آنا تو پان کی دوکان پہ
ساڑھے تین بجے
رستہ دیکھوں گا میں پان کی دوکان پہ
ساڑھے تین بجے
(فلم :آج کا ارجن؛گلو کار:بپی لہری،الکا یاگنک)
میں ہوں پان والی بنا دوکان والی
ارے سارے گاوں کے لبوں پہ چمکے ہمرے پان کی لالی
دلی ہو مدراس ہو چاہے بمبئی ہو یا کلکتہ
سو روگوں کی ایک دوا ،یہ ہرے پان کا پتہ
(فلم:بیوی ہوتو ایسی؛گلو کارہ:الکا یاگنک)
کم سن ہے شوخ ہے حسین ہے جوان ہے
دل میرا دل یہ اس پہ قربان ہے
دل میرا دل یہ اس پہ قربان ہے
یہ لڑکی نہیں بنارس کا پان ہے
(فلم:کھلم کھلا پیار کریں گے؛گلوکار:سونونگم ،بیلا سنلاخے)

صرف ہندی سنیما ہی نہیں بلکہ ہمارے شعراء نے بھی پان پر شاعری کی ہے ۔پان کے شیدائی اسکے مختلف خوبیوں پر فدا ہیں کو ئی اسکی خوشبو پر تو کوئی میٹھاس پر،امیر خسرو جیسا فارسی کا عظیم شاعر نے بھی پان کی تعریف میں پوری نظم کہی ہے اسکا شعر ملاحظہ کیجئے۔.
نادر ہ برگے چو گل در بوستاں
خوب ترین نعمت ہندوستاں
(امیر خسرو ۱۵؂) یعنی پان باغ میں پھول کی طرح ایک نہایت نادر قسم کا پتہ ہوتا ہے۔
پان کے لغوی معنی برگ تنبول ،ناگر بیل ہیں برگ تنبول فارسی میں پان کو کہا جاتا ہے۔
مصحفی امروہوی نے بھی پان کو اپنے ایک شعر میں کچھ یوں بیان کیا ہے۔ ۱۶؂
پان کھانے کی ادا ہے یہ تو اک عالم کو
خون رلا دے گا مری جان دہن سرخ ترا

لگاوٹ کی ادا سے انکا کہنا پان حاضر ہے
قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے
اکبر الہ آبادی(۱۷)

پان کے متعلق اپنے خیالات کو جسطرح شعراء نے اپنے کلام میں مختلف طریقوں سے پیش کیا ہے۔ اسطرح اسکو پیش کرنے کے طریقے بھی جدا گانہ ہیں ۔مہاراشٹرا میں اسے تکونی شکل میں لپیٹا جاتا ہے ،لکھنو میں گلوری بنا کر خاصدان میں لگایا جاتا ہے اور کلکتہ میں بیڑہ بنا یا جاتا ہے ۔ہندو پاک میں اسکی الگ الگ قسمیں پائی جاتی ہیں جیسے کراچی میں پان یعنی سادہ، میٹھا ،خوشبوراجا صاحب وغیرہ ہیں ویسے ہی ہندوستان میں مگدھی، بنگلہ پان ، مہو بار (وسط ہند)بلہری ،کانہری ،سانچی ، مدراسی اور بنارسی وغیرہ ۔کچھ لوگوں کے لئے پان چبانا انکی زندگی کا لازمی جز ہے جسیے کہ رؤف خوشتر کے لئے ،اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’ہر وقت جگالی کرنے والے جانوروں کی طرح ہم پان چبانا ایک محبوب مشغلہ سمجھتے ہیں یہ ہماری طبعیت میں ایسارچ بس گیا ہے کہ اس علت کو ترک کرنے میں ہم اپنی زندگی بے رنگ اور پھیکی سمجھتے ہیں ۔‘‘ ۱۸؂
پان کبھی اکیلا نہیں کھا یا جاتا اسکے اور بھی ساتھی ہیں۔ جنکے بنا وہ ادھورا ہے جیسے چھالیہ ،چونا ،کتھا ،الائچی ،لونگ ،زردہ ،سونف اور گل قند وغیرہ۔اور ان تمام کے اتحاد سے پان وجود میں آتا ہے۔انیکتا میں یکتا سے پان کا ذائقہ بڑھ جاتا ہے ۔مضمون ’’پان‘‘میں رؤف خوشتر نے اتحاد کو لے کر سیاست پر طنز کا وار کیا ہے۔
’’قومی یکجہتی کی سچی تصویر ہمیں سیاست دانوں کی زبان سے زیادہ پان کی دوکانوں پر ملی۔‘‘ ۱۹؂
پان نے ایک بڑی صنعت کو رائج کیا ہے۔مختلف قسم کے مہنگے اور سستے دھاتوں سے پاندان ،خاصدان ،پیک دان ان پر چڑھنے والے ریشمی غلاف ،چونے اور کتھے کے لئے خوبصورت قسم کی ڈبیا اور چمچے ،چھالیہ کترنے کے لئے سروتے اور بعض لوگ جنکے دانت نہیں ہوتے وہ بھی پان کے شوقین ہوتے ہیں تو انکے لئے پان کوٹنے کے لئے ہاؤن دستہ اور پان کو پیش کرنے کے لئے طشتریاں وغیرہ ۔ایسی اور کئی چیزوں کو بنانے کے لئے مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔یہ تو پان کے وسیلے سے آمدنی کا ذریعہ ہوامگر رؤف خوشتر نے یہاں بھی پان کو غریبوں کی لاج رکھنے والا بتایا ہے ۔
’’معاشی و طبقاتی مجبوریوں کو ڈھانپنے کے لئے پان سے بڑھ کر کوئی دوسری چیز نہیں غریب و نادار خواتین اسکو چبا کر اپنے لبوں کو سرخ لیتی ہیں۔جن سے لپ اسٹک خرچ بچ جاتا ہے۔۔۔۔ ۲۰؂
مفلوک الحال میزبان بجائے اشیائے خورد ونوش کے اگر مہمانوں کے سامنے پان رکھدے تو مہمان سمجھ لیتے ہیں۔یہاں کھانے کو ملنے والا نہیں۔
ہر چیز کے استعمال کے طریقے بھی ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔پان کو ہی لیجئے پہلے پہل پان کو آن بان اور شان کے لئے استعمال کیا جاتا تھا ۔لیکن پھر اسکے استعمال میں تبدیلی آتی گئی اور طریقے بدلتے گئے جو پان کل تک آن بان اور شان تھا پھر وہ آلہ حفظ وامان بن گیا۔مضمون ’’پان‘‘سے اقتباس۔
’’ہمارے ایک دوست مکان جاتے وقت ساتھ ایک فاضل پان کا بیڑا رکھ لیتے تھے اور اسکا استعمال انھوں نے یہ بتلایا کہ وہ پان مکان پہنچتے ہی اپنی بیوی کے منہ میں ٹھونس دیتے ہیں اور اسطرح کچھ دیر بیوی کی بلا عنوان اور بے مصرف تقریر سننے سے بچے رہتے ہیں ۔‘‘ ۲۰؂
اور رؤف خوشتر خود بھی پان کا یہ مصرف بخوبی جانتے ہیں۔ اور پان کو انہوں نے حفظ ماتقدم (وہ بچاو جو پہلے سے کیا جائے )کے طور پر استعمال کیا ہے۔
ٍ ’’ہم بھی اپنے عزیز کی حفاظتی تدبیر کے طور پر ایک عمدہ پان بنواکر مکان پہنچے اور چاہا کہ پان کو بیگم صاحبہ کے منہ میں ٹھونس دیں ۔بیگم نے پہلے تو پان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ہمیں آڑھے ہاتھ لیا۔اور کہا کہ ترکیب پان روز اول ۔روز دیگر نیست۔‘‘پھر سختی سے وجہ تاخیر پوچھی اس سے پیشتر کہ وہ ہمیں چباتیں ہم کپڑوں اور جوتوں سمیت امور خانہ داری میں جٹ گئے اور وہ پان چبانے میں ۔‘‘ ۲۱؂
پان کی عظمت اسکے خصوصیات ،اقسام ، لوازمات ،فلمی گانے اور رؤف خوشتر کے مزاح اور طنز کے وار سے پوری طرح عیاں ہوجاتے ہیں ۔رؤف خوشتر نے مضمون کے آخر میں پان کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
ترے بتوں کی گل کاری بیاباں سے چمن تک ہے۲۲؂
انکے انشائیوں کو پڑھنے کے بعد بلا شبہ ہر کسی کو رؤف خوشتر کی طنزیہ و مزاحیہ نگاری کا قائل ہونا پڑتا ہے کہ کسی طرح معمولی چیزوں کو غیر معمولی انداز میں پیش کرنے کا ہنر انھیں آتا ہے ۔اسی وجہ سے وہ جنوبی ہند خصوصاً کرناٹک کے طنز ومزاح نگاروں میں معروف نظر آتے ہیں انکے فن نے انکو زندہ جاوید کردیا ہے ۔طنز ومزاح نگاری کا تابندہ ستارہ تھے انہوں نے اس فن کو روشنی عطا کی ۔ رؤف خوشتر نے صرف اور صرف اپنے قلم کے بل بوتے پر اپنی شناخت بنائی ہے وہ کسی گروہ یا انجمن سے وابستہ نہیں رہے بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ وہ خود اپنی ذات میں انجمن تھے تو مباالغہ نہ ہوگا۔اس شعر کے ساتھ انکو خراج تحسین پیش کرتی ہوں ۔

چراغ ہوں میں اگر بجھ گیا تو کیا غم ہے
کہ جتنی دیر جلا روشنی تو کی میں نے

********

حوالہ جاتی کتب:
۱۔خالد شریف (ریختہ)
۲۔طنز ومزاح سہ ماہی (جلد دوم شمار ۴)اپریل تا جون ص:۵۹۔۵۸
۳۔اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ از:سنبل نگار.
۴۔اردو مثر میں مزاح نگاری کا سیاسی و سماجی پس منظر :از،ڈاکٹر روؤ پارکھ ؛ص۲۹
۵۔اردو میں طنز ومزاح از وزیر آغاص۱۳
۶ غبار حاضر از رؤف خوشتر
۷۔غبار حاضر از رؤف خوشتر ص۷۔۶
۸۔غبارحاضر از رؤف خوشتر ص۱۰۔۹
۹۔طنز ومزاح سہ ماہی اپریل تا جون ۲۰۱۲ص۶۰
۱۰۔زریں شعاعیں (ماہنامہ)ص۳۹۔۳۸
۱۱۔طنز ومزاح (سہ ماہی رسالہ)ص۷۶
۱۲۔زریں شعاعیں رسالہ ستمبر ۲۰۱۸ص۳۸
۱۳۔غبار حاضر از رؤف خوشتر ص۱۱
۱۴۔غبار حاضر از رؤف خوشتر ص۱۵۔۱۴
۱۵۔امیر خسرو (ریختہ)
۱۶۔مصحفیؔ
۱۷۔اکبر الہ آبادی
۱۸۔غبارحاضر از رؤف خوشتر ص۱۶
۱۹۔غبارحاضر از رؤف خوشتر ص۱۵
۲۰۔غبارحاضر از رؤف خوشتر ص۱۵
۲۱۔ایضاًص۱۶۔۱۵
۲۲۔ایضاًص۱۶
۲۳۔ایضاً۱۶
۲۴۔ایضاًص۱۷

مضمون نگار:   قمرالنساء
ٍٍٍ ریسرچ اسکالر شعبہ اردو وفارسی گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ
موبائل نمبر 07259673569

*********

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو