نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

افسانہ:لبیک برصدا۔۔۔ایک اجمالی جائزہ




افسانہ:لبیک برصدا۔۔۔ایک اجمالی جائزہ 

ریاض قاصدار کا تعلق شہر گلبرگہ سے ہے۔یہ اور بات ھیکہ دوران ملازمت انھوں نے مختلف مقامات کی سیر کی۔مگر ادبی اعتبار سے انھیں گلبرگہ ہی راس آیا،یہیں انھوں نے افسانے خلق کئے اور یہاں کی ادبی محفلوں سے انھوں نے شناخت بھی بنا لی۔میرے پیش نظر انکا افسانہ ”لبیک برصدا“ ہے گو کہ یہ افسانہ بیانیہ ہے اس میں فلیش بیک تکنیک کا استعمال بھی ہوا ہے۔اس میں وقوع بھی ہے کردار بھی اور کردار کی مناسبت سے زبان کاا ستعمال بھی ہوا ہے اس میں کہانی پن بھی ہے،یہ کہانی حقیقت کے قریب بلکہ حقیقی معلوم بھی ہوتی ہے، گوکہ تخیل کی آمیزش نے اسے عمدہ بنادیا ہے بغیر تکیل کے کوئی فن پارہ معرض وجود میں نہیں آسکتا،ہاں مناسب الفاظ کی دروبست اسے دو آتشہ بنا دیتی ہے اس افسانہ میں انسان دوستی کو جس طور پیش کیا گیا ہے۔ وہ قابل تعریف ہے۔اس میں نہ مذہب کی دیوار ہے اور نہ مسلک کا شائبہ۔بس انسا ن دوستی اور انسانیت کے ناطے خدمت کا جذبہ ہے جسے حقوق العباد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔مخلوق خدا سے محبت اور اس کی خدمت ہی شاید سب کچھ ہے افسانہ نگار نے بین السطور میں اونچ نیچ میں،مذہبی اعتبار سے اور مسلکی اعتبار یہ مناسب نہیں ہے آخر میں جو فقرے ملتے ہیں وہ غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں فن پارہ بلکہ کامیاب فن پارہ وہی ہوتا ہے جو اپنے قاری کو دعوت فکر دے،اس کے خیالات میں جنبش پیدا کرے،بہتر سے بہتر کی طرف اس کے ذہن کو موڑ دے۔افسانہ بھی اپنے کرداروں جیسے رامو،چچا فخروان کے بیل کے گرد گھومتا ہے جبکہ معاون کرداروں کے طور پر رامو کی بیوی،اسکے والد باپو اور ہوٹل کے مالک کا ذکر ملتا ہے۔بیل کی معرفت افسانہ نگار نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود آگہی کا عرفان حاصل کر لے۔خود آگہی کے لئے خود احتسابی ازحد ضروری ہے۔یہ خود آگھی کبھی عبادت و ریاضت سے حاصل ہوتی ہے کہیں غور وفکر سے کہییں جذبہ تشکر سے تو کبھی کسی کی خدمت کر نے سے کبھی کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے سے تو کبھی اپنے محسن کو یاد کرنے اور اس کا سپاس گزار ہونے سے۔۔مگر افسانہ نگار نے اس افسانہ میں یہ بتا دیا کہ ایک انسان دوسرے انسان کی مدد بغیر کسی طمع کے اگر کر لے تو پھر اسے ایک طرح کا سکون میسر آجاتا ہے۔

سکون کی لذت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔افسانہ نگار نے اپنے معاشرے کا بغور جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس میں ھمہ اقسام کے لوگ جی رہے ہیں۔افسانہ نگار نے بجائے منفی انداز کو اختیار کرنے کے صرف مثبت طرز فکر کو اپنایا۔ اس پورے افسانے میں کہیں بھی منفی فکر،منفی رجحان یا منفی کردار نہیں ملتا۔بلکہ مثبت فکر،مثبت رجحان اور مثبت کردار ہی ملیں گے۔اس سے انداز ہ ہوتا ہے۔ کے فنکار بذات خود مثبت انداز فکر کا حامل ہے۔  انسان دوستی کو بہت اچھے رنگ میں پیش کیاجاتا ہے۔ دوستی کے لئے ہم خیالی ضروری ہے۔ اس کے لئے مذہب، رنگ، نسل، ذات پات دیکھی نہیں جاتی۔ بسااوقات انسان کی دوستی جانوروں سے بھی ہوتی ہے۔  اور انسان سے کہیں زیادہ جانور دوستی کو نبھاہتا ہے۔ وہ اپنے محسن کو کبھی نہیں بھولتا۔ برخلاف اس کے انسان وہ ہے جو وقت پڑنے پر اپنے محسن کو بھی بھلادیتاہے۔ بلکہ اپنی انا میں بساقوقات جھوٹی انا میں حد مراتب کا بھی خیال نہیں رکھتا، اپنے محسن کو ہی ہر طرح سے زک پہنچانے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتا۔ چھوٹ کا سہارا لے کر اسے ذلیل کرنے کے طریقے تلاشتارہتاہے۔ گویا وہ انسان کی شکل میں بھیڑیا یا پھردرندہ بن جاتاہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہے اور اپنے نفس پر نظر رکھے۔ اس کو چاہئے کہ وہ شکر گذار بھی بنارہے اپنے محسن کا بھی اور قادرمطلق کا بھی کہ بندوں کا شکرادا کرنے میں ہی خدا کا شکر مضمر ہوتاہے۔

رامو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ جو بڑی کسم پرسی کی زندگی گذار رہاہے۔ جب تک باپوزندہ رہے چھکڑا چلتارہا، گذر بسر اچھے ڈھنگ سے ہوتی رہی۔ اچانک حادثہ نے رامو دسے بابو اور بیل کو چھین لیا۔ صرف چھکڑ رہ گیا۔ محنت مزدوری سے اپنا اور اپنے کنبہ کا پیٹ پالنا مشکل ہوگیا۔ ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی نہیں مل پاتی۔ بیوی سلیقہ شعار تھی۔ بچوں کا جیسے تیسے خیال رکھیتی۔رامو سے کہتی کہ آخر کیاکیا جائے اسی سوچ میں مستغرق تھا کہ بھیمو ڈاکیہ نے رامو کو آواز دی اور کہا کہ رامو تجھے فخر و جاچا نے بلایا ہے۔  فخروچاچا کا نام سنتے ہی رامو کو فخروچاچا کا حادثہ یاد آیا۔ فخروچاچا چھکڑے بان برادری میں بڑی عزت و توقیر سے یاد کئے جاتے۔  کیونکہ وہ ہر ایک کے دکھ درد میں ساتھ دینے اور مدد کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ فخروچاچا اور باپو میں گہری دوستی تھی۔ کوئی عید یا تہوار ایسا نہ گذرا جس میں یہ دونوں ساتھ نہ رہے ہوں۔ فخروچاچا کے بھی ایک حادثہ ہوا جس میں ان کا چھکڑا پوری طرح برباد ہوا۔ ہاں بیل بچ گیا۔  مگر فخروچاچا کی ایک ٹانگ اس حادثہ کا شکار ہوگئی اب وہ بیساکھی کے سہارے چلتے۔ لوگ دیکھ رہے تھے کہ چاچا اب کام کاج تو نہیں کررہے مگر بیل کی نگہداشت بڑے پیار سے کررہے تھے۔ کئی لوگوں نے فخروچاچا سے بیل خریدنا چاہا۔ فخرو چاچا نے سبھی کو یہی جواب دیا کہ جو کوئی محبت کی قیمت بتادے یہ بیل اسی کا۔ اب اچانک فخروچاچا نے جب رامو کو بلایا تو رامو کے دل میں کئی خیالات امڈآئے کہ بہت دنوں سے فخرو چاچا کی خیرخیریت بھی دریافت نہیں کی۔ اب انھوں نے کیوں بلایا۔خیر جب وہ پہنچا تو فخرو چاچا نے بڑے پیار سے رامو سے پوچھا کے دب کیسے گذر رہے ہیں۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں مایوسی گناہ ہے۔جب رامو نے یہ کہا کہ”وہ کمائی ہی کیا جو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے“تو فخرو چاچا کا جواب یہ تھا۔”جب تجھے اپنے کام سے پوری روزی نہیں ملتی تو پھر کیوں کوئی دوسرا کام نہیں کرنا“۔ رامو نے کہا کہ باپو صرف حمالی ہی تو سکھائی ہے۔اس پر فخر و چاچا نے کہا چھکڑا کیوں نہیں چلاتا۔اس نے کہا بیل کہاں سے لاؤں۔فخرو چاچا نے اپنے بیل کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ بیل تو کھڑا ہے۔رامو نے حیرت و استعجاب سے کہا،پیسے کہاں سے لاؤں۔قیمت کیسے چکاؤں۔فخرو چاچا نے کہا پیسے کس نے مانگے ہیں۔اتنا ضرور ہے کہ میں نے اسے اپنے بیٹے کی طرح پالا ہے۔تو بھی تو میرا بیٹا ہے۔بس اسے اپنا بھائی سمجھنا۔مارنا نہیں،رامو خوشی سے بیل لے کر جانا ہی چا ہا کہ فخرو چاچا نے کہا یہ لے کہہ کر پانچ سو روپئے بھی تھما دیئیاور کہا کہ دیکھ بچوں کو اچھا کھانا لے جا اور چھکڑے کی مرمت بھی کر لے پھر کل ہی سے کام شروع کردے۔رامو ذہن میں مستبل کے لئے منصوبے بناتا رہا اور گھر پہنچا بیوی سے حیرت سے دیکھا اور کہا  یہ بیل تو فخرو چاچا کا ہے یہاں کیسے۔اب رامو نے اوزار مانگے اور رات میں ہی چھکڑ ے کی مرمت کرنی شروع کردی اور صبح کے انتظار میں رہا۔
اب اس کی نئی زندگی کی شروعات ہوگئی۔اچھی آمدنی ہونے لگی۔مختلف خواب بننے لگا۔بیوی کی فرمائشیں پوری کرنی ہیں۔بچوں کو اچھے اسکول میں داخلہ دلانا ہے انھیں پڑھانا ہے وغیرہ وغیرہ۔اب زندگی گذر رہی تھی۔بلکہ اچھے سے گذر رہی تھی رامو بھی اچھی محنت کررہا تھا ایک دن مزدوروں کی ہڑتال تھی رامو اپنے گھر پاؤں پھیلائے پڑا تھا۔بیوی نے کہا کہ محنت اور خوشی میں ہم اپنوں کو بھولتے جارہے ہیں۔تب رامو کو خایل آیا فخرو چاچا سے ملنا چاہتے۔اب وہ رام مندر کی جانب سے آصف گنج کی طرف نکلا۔کیونکہ اسی جانب فخرو چاچا رہتے تھے۔مغرب کا وقت ہوچلا تھا سڑک سے گذر رہا تھا کے مغرب کی اذان سنائی دی۔بیل وہیں سڑک پر رک گیا۔ہلنے کانام ہی نہیں لے رہا اس نے بہت کوشش کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔دم مروڑا پھر بھی نہ ہلا۔مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا مگر فخرو چاچا کی نصیحت یاد آئی۔ہاتھ روک لیا یہ سارا منظر ہوٹل کا مالک دیکھ رہا تھا۔رامو  اسے وہیں چھوڑ ا اور چائے پینے ہوٹل میں چلا گیا۔ہوٹل مالک نے رامو کو دیکھ کر ہنسنے لگا۔رامو نے پوچھا کیوں ہنس رہے ہو۔ہوٹل مالک نے دریافت کیا کہ یہ بیل فخرو چاچا کا ہے ناں؟رامو نے کہا ہاں۔تو ہاٹل مالک نے دریافت کیا کہ یہ بیل دوں گا۔اگر اسی وقت آؤ تو۔رامو گھر واپس چلا گیا۔دوسرے دن کے انتظار میں پھر کھڑا رہا۔تب راجو نے ہوٹل کے مالک سے دریافت کیا کہ ماجرا کیا ہے۔ہوٹل مالک نے کہا کہ بیل فخرو چاچا کا ہے اس لئے وہ آگے نہیں بڑھے گا۔رامو نے کہا صرف یہ بتانے کے لئے مجھے آج بلایا۔اس  پر اس نے کہا نہیں بات ایسی نہیں ہے جب فخرو چاچاچھکڑا چلایا کرتے تھے اس وقت سے یہ عادت ہے بیل کی کہ جب مغرب کی اذان ہوتی ہے تو بیل یہاں کھڑا رہتا ہے۔فخرو چاچا  مسجد میں جاکر اپنے مالک حقیقی کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور جب مغرب کی نماز پڑھ کر آتے ہیں تو بیل پھر سے اپنا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔یہ بیل اور اذان کا راز ونیاز کیا ہے وہی جانے۔
اس پر رامو سوچ میں غرق ہوگیا۔اور اس نے چند ثانیوں میں وہ دیکھ لیا جو بسا اوقات انسان برسوں میں دیکھ نہیں پاتا۔یہیں آکر منزل خو د آگہی کا درس دیا افسانہ نگار نے کہ انسان کی خدمت اور اس کا شکر بغیر کسی طمع ولالچ کے ہوا اور پھر اس کے بعد اپنے خالق ومحسن کا شکر ادا کرے تو راز ونیاز کے مختلف مدارج طئے کر لیتا ہے۔افسانہ نگار نے اپنے نپے تلے الفاظ میں کچھ بتا دیا۔۔۔جیسے

”یہ کیسی کیف آگیں دھڑکنیں ہیں جو میرے دل کی دنیا بدلتی جارہی ہیں۔کیا یہی وہ اسرار ہے جو ایک بے زبان جانور کے وسیلے سے مجھ تک پہنچا۔میں کیا تھا اور کیا ہوجاؤں گا۔کوئی ہے جو مجھے بتائے۔فخرو چاچا؟ہاں وہی تو ہیں جنھیں میں کھل کر اپنے  دل کا حال بتا سکتا ہوں۔چاچا۔چاچا۔میں آپ سے ملنے آرہا ہوں۔لیکن!!اب جو آپ سے ملے گا کیا وہ رامو یہی ہوگا۔“

گویا فخرو چاچا ایک چھکڑے والا،لنگڑا شخص نہیں رہا۔وہ ایک محسن۔وہ غریبوں اور لاچاروں کا مددگار،بغیر کسی طمع ولالچ کے ہر ایک سے محبت کرنے والا،انسان تو انسان جانوروں کا تک خیال کرنے والا،دوستوں کے کام آنے والا،بے کسوں اور دکھی احباب کا سہارا بننے والا،دلوں کو بدلنے والا،اپنے مالک حقیقی کے آگے سجدہ ریز ہوکر شکر بجا لانے والا ایک صوفی مش انسان ہے۔جس نے عمل سے مخلوق خدا کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لیا ہے۔افسانہ  کا اختتام ہوتا ہے۔



پروفیسر عبدالرب استاد
شعبہ اردو وفارسی گلبرگہ یونیورسٹی کرناٹک 
Mob No:9448572098

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو