Thursday, January 30, 2020
رفیق جعفر
رفیق جعفر سے پہلی ملاقات
رفیق جعفر سے میری
پہلی ملاقات سنہ 2009میں سکندراباد کے بس اسٹانڈ میں ہوئی۔میں اور میرے کچھ ساتھی ایک
یونیورسٹی کے انٹرویو میں جارہے تھے رفیق جعفر بھی ساتھ ہولئے۔ دن بھروہ ہمارے ساتھ
رہے۔ اپنی زندگی کے کئی انٹرویویز کے پر مزاح واقعات سناکر میرے دل و دماغ پر مثبت
اثر ڈالا۔ اس کے بعد رفیق جعفر جب بھی گلبرگہ آتے نہ صرف ملاقاتیں بلکہ بیٹھکیں ہوتی جس میں مختلف
ادبی، سماجی، معاشی ومعاشرتی مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ان کے ساتھ تقریباً ایک
دھے کی ملاقات و رفاقت سے میں نے رفیق جعفر کوایک جہاں دیدہ شخصیت روپ میں پایا۔ وہ
ممبئی جیسے عروس البلاد میں کئی دہے گزارے۔ فلمی ہستیوں و دیگر بڑے بڑے ادیب و
شاعروں کے ساتھ ملاقاتیں رہیں۔ علی سردار جعفری، راجندر سنگھ بیدی، مجروح سلطان پوری،
طالب خوندمیری، مجتبیٰ حسین جیسے جید ادیب ، شاعر ، ڈرامہ نگار، افسانہ نگار ، مزاح
نگار،فلمی رائٹروں کے ساتھ آپ کی صحبتیں رہیں ۔ رفیق جعفر نے ان کی صحبت میں اچھاادب
تخلیق کیا۔ جہاں رفیق جعفر ایک اچھے نثر نگار ہیں وہیں اچھے شاعر بھی ہیں۔ان کے اشعار
میں سادگی ہے۔ مضمون آسان اور عام فہم ہوتاہے جس کے چلتے ان کے اشعار قاری کو آسانی
سے زبان زد ہو جاتے ہیں۔ جیسے
پھر
زندگی کی فلم ادھوری ہی رہ گئی
وہ
سین کٹ گئے جو کہانی کی جان تھے
پنچھی
بچھڑے تو مجھ سے شجر نے کہا
میں
زمیں پر پڑا سوچتا ہی رہا
سب
خدائی کے دعوے دھرے رہ گئے
وہ
خدا تھا خدا وہ خدا ہی رہا
اسی طرح ان کی نثر
بھی سہل اور آسان ہوتی ہے جو عام قاری کے ذہن تک رسائی کرتی ہے۔
ڈاکٹر سید
عارف مرشد
Sunday, January 26, 2020
Thursday, January 23, 2020
غزل صابر شاہ آبادی
غزل
دل
کے صدمات ہی ایسے تھے جوٹالے نہ گئے
صبر
نا کام رہا اشک سنبھالے نہ گئے
جانے
کس رنج میں ہم ترکِ وفا کر بیٹھے
شانہء عشق سے گیسو بھی
سنبھالے نہ گئے
بے
مروّت نے چلو، وعدہ
فردا
تو کیا
حسبِ
اندیشہ تبسم پہ تو ٹالے نہ گئے
دید
قسطوں میں ہوئی، لطف مکمل نہ ہوا!
خار
پورے کبھی آنکھوں سے نکالے نہ گئے
عہدِ
مرحوم کی معصوم فضا ہے جن میں
آج
تک دل سے وہ مانوس اُجالے نہ گئے
کیسی
معصوم ارادوں کو سزا دی تم نے
پھول
اس طرح کبھی آگ میں ڈالے نہ گئے
ہجر
کے زخم تو بھرہی گئے صابر لیکن
داغ
زخموں نے جو چھوڑے وہ سنبھالے نہ گئے
صابر شاہ آبادی
غزل صابر شاہ آبادی
غزل
کتنے
گوشے میں جہاں اب بھی خزاں چھائی ہے
فصلِ
گُل سارے گلستاں میں کہاں آئی ہے
خالی
ساغر نہ دکھا تشنہ
دیرینہ
ہوں
میری
رسوائی میں اک دور کی رسوائی ہے
آپ
ہی کہیے کہ لفظوں میں کہاں ممکن ہے
اس
تبسم میں جو تفصیلِ شناسائی ہے
حرم
ودیر کی تحقیق چلی ہے جب سے
دیکھ
ساقی ، تری دہلیز بھی گھبرائی ہے
طلب
مئے کا سلیقہ ہمیں کیوں کر آئے
ہاتھ
پھیلانے کی نوبت تو ابھی آئی ہے
رات
نازاں تھی بہت اپنے اندھیروں پہ مگر
ذہنِ
انساں نظر آیا ہے ،تو شر مائی ہے
شامِ
اقرار و ہ معصومئی باہم صابر
واقعہ
یہ ہے کہ دونوں کو حیاآئی ہے
صابر شاہ آبادی
غزل صابر شاہ آبادی
غزل
عظمتِ
شوق پر حرف آنے نہ دو
آگیا دورِ سود وزیاں دوستو
جان
سے بڑھ کے دل کی حفاظت
کرو
عقل ہونے لگی ہے جواں دوستو
حُسن
کی کوئی حد، حدِ آخر نہیں
اس کے الطاف ہیں بے کراں دوستو
وصل
ہی جس کی لے دے کے معراج ہو
ذوق اس کا مکمل کہاں دوستو
اللہ
اللہ رندودں کیافسردگی
میکدے
کی فضا کتنی بے کیف تھی
وہ
تبسم بھری آنکھ کیا اُٹھ گئی
ٹوٹ پڑنے لگی کہکشاں دوستو
آنکھ
ملتے ہی دل کا سکوں مٹ گیا
ان
سے مل کر ہمیں اور کیا مل سکا
اس
طرف حسرتیں ، اس طرف غفلتیں
جان
سی چیز ہے درمیاں دوستو
دل
پہ ہیرے جو بارِ وفا رکھ دیا
پھول پر اس نے سنگِ گراں رکھ دیا
جاں
بلب کر کے میرا تماشہ کیا
حُسن یوں ہی نہیں مہربا ں دوستو
نسبتِ
حُسن صابر جوان سے نہ تھی
میرے احساس میں ہو ش مندی نہ تھی
ہا
ں مگر جب کوئی دل کو تکنے لگا
چونک کر رہ گیا ناگہاں دوستو
صابر شاہ آبادی
Tuesday, January 21, 2020
غزل چاروں طرف سروں کا سمندر ہے دیس میں
![]() |
Dr. Syed Arif Murshed |
چاروں طرف سروں کا سمندر ہے دیس
میں
رہزن بھی ساتھ ساتھ ہے رہبر کے بھیس میں
رہزن بھی ساتھ ساتھ ہے رہبر کے بھیس میں
قاتل مچا رہے ہیں بے چینی ہر
طرف
معصوم آدمی ہے بلوے کے کیس میں
معصوم آدمی ہے بلوے کے کیس میں
ستامیں آئے جب سے ان پڑھ اورتڑی
پار
نا اہل بھی کھڑے ہیں رتبے کی ریس میں
نا اہل بھی کھڑے ہیں رتبے کی ریس میں
رکھتے ہیں بغض دل میں دیتےہیں
ساتھ بھی وہ
تنکا چھپا ہوا ہے انکی کی بھی کیش میں
تنکا چھپا ہوا ہے انکی کی بھی کیش میں
امبیڈکر کی رچنا مضبوط کانسٹی
ٹیوشن
گیدڑ کی دھمکیوں سے آنا نا تیش میں
گیدڑ کی دھمکیوں سے آنا نا تیش میں
ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ
8088830388
Monday, January 20, 2020
غزل : کس کو چاہیں کہ کس کو پیار کریں از ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ
![]() |
Dr. Syed Arif Murshed |
غزل
کس کو چاہیں کہ کس کو پیار کریں
کس
کو اپنے گلے کا ہار کریں
تجھ کو
اپنانے تیرے خاطر ہم
کونسا رنگ اختیار کریں
کونسا رنگ اختیار کریں
زندگی ہار
دی ہے پہلے ہی
اب بتا تجھ پہ کیا نثار کریں
اب بتا تجھ پہ کیا نثار کریں
دشمنی ان
سے ہو گئی اپنی
ہم نے چاہاتھا جس کو یار کریں
ہم نے چاہاتھا جس کو یار کریں
دشمنوں
کا کریں گلا کیا دوست
میرے اپنے ہی مجھ پہ وار کریں
میرے اپنے ہی مجھ پہ وار کریں
راہ تکتے
رہے ہیں برسوں سے
کب تلک اس کا انتظار کریں
کب تلک اس کا انتظار کریں
اب تو امید
اٹھ گئی مرشدؔ
اب کہاں کس کا اعتبار کریں
اب کہاں کس کا اعتبار کریں
ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ
8088830388
بحر : خفیف مسدس
مخبون محذوف
بنیادی وزن : فاعلاتن مفاعلن
فَعِلن
Friday, January 17, 2020
حیات ِمبارکہ حیدر ایک محبت ایک معمہ
حیات ِمبارکہ حیدر ایک محبت ایک معمہ
![]() |
ڈاکٹر سید عارف مرشد |
(پنجند کام پاکستان میں شائع شدہ)
ارے ! ارے!! ارے!!! کیا کررہے ہو؟ وہی کررہا ہوں بھیا۔۔۔
جو لیلیٰ نے مجنوں کیلئے کیاتھا۔۔۔، رانجھا نے ہیر کیلئے کیاتھا ۔۔۔رومیو نے جولیٹ
کیلئے کیا تھا۔۔ سوسائیڈ !۔۔۔ سوسائیڈ!! (فلم شعلے سے)
عورت کو پانے
کیلئے مرد ناجانے کیا کچھ کرجاتاہے۔ لڑائی جھگڑے خون خرابے یہاں تک کے
خودکشی بھی۔
کائنات میں عورت کا وجود ایک مسلم حقیقت ہے۔ عورت کے بغیر یہ کائنات نامکمل ہے اور
یہ بھی کہ عورت کے بغیر گھر بھی نامکمل ہے۔ اسی لئے شادی کرنے کو گھر بسانا بھی
کہاگیاہے۔ بیوی کو گھروالی، گھر کی زینت، دیہات میں بیوی کو گھر کا کھوٹا بھی کہا
جاتا ہے۔ جس سے تمام گھر باندھا جاتاہے۔ اور اگر یہ کھوٹا نہ ہو یا اکھڑ جائے تو
گھر کا شیرازہ بکھرجاتاہے۔ اورسب بے گھر کی طرح رہنے لگتاہے۔ کوئی کہیں جارہاہے تو
کوئی کہیں۔ کسی کو کسی کی خبر نہیں۔ یہ عورت ہی ہے جو نانی، دادی، ماں، بیٹی، بہو،
بیوی، بہن اور کئی روپ میں گھروں کو سجا سنوار کرسمبھالے ہوئے ہے۔ جس کیلئے
عورت کو کئی ایک قربانیاں بھی دینی پڑھتی ہیں۔ قربانیاں وقت کی، قربانیاں جان کی،
قربانیاں مال کی، قربانیاں جسم کی، قربانیاں خواہشات کی، قربانیاں خوشیوں کی،
قربانیاں آرزوں اور ارمانوں کی۔ اسی لئے قدرت نے مرد سے زیادہ عورت پر بھروسہ
کیاہے۔پھر بھی پتہ نہیں کیوں اکثر مرد عورت سے ناخوش اور نامراد نظر آتاہے۔
بیوی
نے بازارجاتے ہوئے شوہر سے کہا ـ’’میں
بازار جارہی ہوں دو گھنٹے کیلئے ۔۔آپ کیلئے کچھ لاؤں‘‘ شوہرنے کہا
بس
اتنا ہی کافی ہے۔
Tuesday, January 14, 2020
Monday, January 13, 2020
غالب ایک لافانی شاعر... ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر
غالب ایک لافانی شاعر
ڈاکٹر سید
چندا حسینی اکبر
گیسٹ لکچرر،
شعبہ اردو و فارسی،
گلبرگہ یونیورسٹی۔
Cell
: 9844707960
غالب کی آفاقیت اس
میں مضمر ہے کہ وہ ایک ہمہ پہلو اور متنوع شخصیت کا حامل ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی
”غزل اُردو شاعری کی آبرو ہے “۔ تو یہ بات بے جا نہ ہوگی کہ اُردو غزل کی آبرو غالب ہیں اور وہ ایک
لافانی شاعر ہے جس کی وسعت کے لئے کوئی سیمایا احد مقرر نہیں کی جاسکتی۔ غالب کے کلام
کو یا ان کے ایک ایک شعر کو جس جس زاویے سے دیکھا یا پرکھا جائے، اُس کے اتنے ہی پہلو
ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ ان کے اشعار کی جتنی گہرائی میں جاو گے اتنے ہی افکار سامنے
آتے جائیں گے۔ ان کی شاعری میں لامتناہی افکار کا سمندر موجزن ہے جس سے غالب کے پہلووں کی ایک ایک پرت کھلتی جائے گی اور جس سے غالب
کی لافانی شاعری ہندوستانی ثقافت کے خزانے کا ایک جوہر تابندہ بن جاتی ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)