نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غالب ایک لافانی شاعر... ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر


 

غالب ایک لافانی شاعر


                                                                                                                                                                                        ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر
                                                                                                            گیسٹ لکچرر، شعبہ اردو و                                                                                                               فارسی، گلبرگہ یونیورسٹی۔
                                Cell : 9844707960
            غالب کی آفاقیت اس میں مضمر ہے کہ وہ ایک ہمہ پہلو اور متنوع شخصیت کا حامل ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی ”غزل اُردو شاعری کی آبرو ہے ۔ تو یہ بات بے جا نہ ہوگی کہ اُردو غزل کی آبرو غالب ہیں اور وہ ایک لافانی شاعر ہے جس کی وسعت کے لئے کوئی سیمایا احد مقرر نہیں کی جاسکتی۔ غالب کے کلام کو یا ان کے ایک ایک شعر کو جس جس زاویے سے دیکھا یا پرکھا جائے، اُس کے اتنے ہی پہلو ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ ان کے اشعار کی جتنی گہرائی میں جاو گے اتنے ہی افکار سامنے آتے جائیں گے۔ ان کی شاعری میں لامتناہی افکار کا سمندر موجزن ہے جس سے غالب کے پہلووں کی ایک ایک پرت کھلتی جائے گی اور جس سے غالب کی لافانی شاعری ہندوستانی ثقافت کے خزانے کا ایک جوہر تابندہ بن جاتی ہے۔
            غالب کی ولادت اور ابتدائی تعلیم آگرہ میں ہوئی اور پھر وہ دہلی چلے گئے۔ یوں تو غالب نے اُردو شاعری آگرہ سے شروع کردی تھی۔ بچپن ہی سے شعر گوئی کا شوق تھا۔ جس پر فارسیت کا غلبہ تھا۔ انہیں فارسی زبان سے قلبی لگاو تھا مگر ایسا ہوا کہ ایران کا ایک فارسی نژاد مسلمان عبدالصمد آگرہ آیا اور غالب نے فارسی زبان کی تعلیم اور معلومات اس سے حاصل کیں۔ بعض حیثیتوں سے یہ بات مشکوک ہے کہ غالب کی فارسی اور مختلف علوم کی تعلیم میں ان کے ابتدائی دور کو دخل تھا۔ فارسی شاعری کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے اپنے لئے طرزِ بیدل کا انتخاب کیا جو مشکل پسند شاعر تھا۔ بعد میں اپنے چند دوستوں اور بزرگوں کے مشورے سے آسان رنگ میں شعر کہنے لگے۔ شاعری کے بعد دہلی کا قیام بھی بہت اہم ہے۔ دہلی پہنچ کر وہاں کے اونچے اور تعلیم یافتہ لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا۔ وہ خود ترکستان کے بادشاہوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلئے اس سلسلہ نسب پر ان کو فخر بھی تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ان کی رگ رگ میں بڑے بڑے شہنشاہ اور سپہ سالاروں کا خون دوڑ رہاتھا۔ اس لئے وہ اپنی عزت و برتری کے لئے صرف شاعری کو بنیاد بنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتے تھے کہ کسی وقت ان کا تعلق اعلیٰ طبقے سے رہ چکاہے۔ یہ بات قطعی طورسے نہیں کہی جاسکتی کہ انہوں نے کتنی تعلیم حاصل کی تھی مگر ان تمام تعلیمات سے اچھی طرح واقف تھے جو مسلمانوں میں مروج تھیں۔ اس طرح اکیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انہون نے دہلی کے شعراءمیں اپنی جگہ بنالی، جہاں کے ادبی ماحول میں ان کا ذوقِ سخن پروان چڑھا اور اردو شاعری ہی کی بدولت بہادر شاہ ظفر کے دربار تک رسائی ہوئی جو استاد ذوق کے شاگرد تھے۔ ان کی وفات کے بعد ظفر نے مرزا کو اپنا استاد مقرر کیا اور نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کے خطابات سے نوازے گئے۔
            مرزا غالب نے اُردو شاعری میں قابل رشک سرمایہ یادگار چھوڑا جو آج لافانی حیثیت رکھتاہے۔ انہوں نے بار بار اس بات کو دہرایا کہ ”شاعری معنی آفرینی ہے قافیہ پیمائی نہیں“ ان کے نزدیک اپنی شخصیت کے ہمہ جہت پہلو اپنے مخصوص تاثرات اور مزاج کی گونا گوں کیفیات کے بیان کا نام شاعری ہے۔
            مرزا غالب کی انفرادیت کی خصوصیت اس بات میں مضمر ہے کہ انہوں نے کسی ناموری یا ستائش کی تمنا کئے بغیر شعر کہے ہیں۔ اس ضمن میں خود غالب نے یوں کہا ہے۔
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ!
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی

            غالب کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے اس میں اپنی جدت طبع سے کام لیاہے۔ مسلسل غزلیں کہیں اور بھی شاعری کی جو اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ ان کے دل میں احساسات و جذبات کا امڈتا ہوا طوفان ہے جو ایک روانی کے ساتھ بہتا چلاجارہاہے۔ یہ ان کی قادرالکلامی کی دلیل ہے کہ وہ اپنے مربوط و مسلسل افکار تشبیہوں، استعاروں کے ذریعہ قطرے میں دجلہ اور جز میں کل کے منظر پیش کئے ہیں۔ بقول غالب
رگوں میں دوڑنے پھر نے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیاہے؟

            بہرکیف شاعر کی فطری انا اپنا اظہار چاہتی ہے۔        
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعرِ نغز گوئے وخوش گفتار

            غالب اردو ادب و شعر کا بیش بہا سر مایہ ہیں۔ علم و ادب کی جو دولت انہوں نے بخشی اتنی کسی دوسرے شاعر سے منسوب نہیں کی جاسکتی۔ ان کی اسی ہمہ گیری نے انہیں گوئٹے، بیدل، تزین اور ٹیگور کے مقابل بنادیاہے۔ ان میں ایک فلسفی کے عقل و ادراک، ایک دور اندیش صوفی کی نگاہ اور ایک مصور کی فنکاری ہے جس کے سبب اپنے کلام سے وہ ایک کاغذی تاج محل ڈھال چکے ہیں۔ ان کے کلام کی بلندی خیالی، جدت، شوخی ہی شاعری کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ فلسفیانہ گہرائی غالب کے کلام کی خاص خوبی ہے۔ اس کے علاوہ رندی و سرمستی، شوخی و ظرافت، ندرتِ خیال اور نادر تشبہیات و استعارات نے غالب کے کلام کو نمایاں و منفرد مقام عطا کیاہے۔ مثلاً
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

            مرزا کے ہاں بھی دیگر شعرا، کی طرح زاہد، واعظ، ناصح پر طنزیہ اشعار ملتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے۔         

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟

کہاں مئے خانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے


            اردو شاعری کو غالب کی دین اور ان کی لافانی شاعری کو اُردو شعروادب میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یوں تو مجھ سے قبل کئی مضمون نگاروں نے اور مفکرین اور نے غالب کی عظمت کا اعتراف کیاہے بلکہ ان کے ہم عصر شعراءاور ان کے بعد کے شعرائے کرام نے بھی غالب کی شاعری کی عظمت و برتری کو قبول بھی کیا ہے اور خود غالب اپنی شاعرانہ تعلی میں کہتے ہیں۔ بقول غالب           
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

بے شک اردو شاعری میں بہت اچھے اور پائے کے شعراءگذرے ہیں مگر غالب کی شاعری یا ان کی سخن وری کا انداز ہی کچھ نرالا ہے۔ یوں تو غالب نے تقریباً تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں فصاحت وبلاغت ہے وہیں ذہنوں کو مسحور کرنے کے لئے رنگ تغزل اور نغمگی بھی بدرجہ اتم موجود ہے اور کئی اشعار آپ کے ایسے بھی ہیں جہاں مقالہ نگاروں اور نقادوں کے خیالات میں ان کی شعر فہمی میں تضاد بھی پایا جاتاہے۔ جیسے یہ اشعار
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاو
کہ ہم بتلائیں کیا؟

            غالب کی شاعرانہ تعلی سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غالب اردو شعر و ادب میں نہ صرف ایک منفرد اسلوب نگارش رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنے عہد کے شعراءمیں سب پر غالب بھی تھے اور آج بھی ان کی شاعری اردو شعروادب کی تاریخ میں انفرادیت کی حامل ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ غالب ایک ایسے شاعر تھے جنہوں نے اپنے کلام کے ذریعہ جہاں فلسفہ حیات کو پیش کیا وہیں درسِ اخلاق اور اخلاقی پہلوں کو بھی اجاگر کردیا۔ غالب کی شاعری خود ان کے اپنے دلی جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ بقولِ غالب
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

            شاعری بہر کیف شخصیت کے اظہار کا ایک موثر وسیلہ ہے۔ غالب تمام عمر مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتے ہی رہے لیکن انہوں نے اس کا اظہار اپنی شاعری میں بہت ہی اچھوتے انداز میں کیا ہے اور یہی انداز بیاں ان کی شاعری کی پہچان بن گیا۔ بقولِ شاعر
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟

            غالب جہاں ایک اچھے پائے کے شاعر تھے وہیں ایک اچھے مخلص انسان بھی تھے۔ منکسرالمزاجی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ ایک ہمدرد دل بھی رکھتے تھے۔ گویا وہ ایک صوفیانہ طبعیت کے مالک بھی تھے۔ بے شک ان کی بعض خامیوں کے علاوہ وہ مئے نوشی نہ کرتے تو ولی کہلاتے۔ بقول غالب
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

            دوسری جگہ وہ اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے خدا سے مخاطب ہیں کہ بقولِ شاعر
آتا ہے داغ حسرتِ دل کا شمار یاد!
مجھ سے میرے گناہ کا حساب ائے خدا نہ مانگ

            جب کبھی شعروادب کی تاریخ قلمبند کی جائے گی غالب کے ذکر کے بغیر وہ ادھوری رہ جائے گی۔ غالب کی شخصیت بڑی متنوع اور ہمہ گیر ہے۔ ان کی شاعری اتنی ہی جاندار ہے کہ اتنے برسوں بعد بھی وہ آج بھی زندہ ہے اور اہل ذوق کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں، وہ تو ایک لافانی شاعر ہے۔


٭٭٭٭٭

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو