نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اپریل, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ڈاکٹر مشتاق احمد دربھنگہ کی نظم ۔۔۔آئینہ حیران ہے (پروفیسر ندیم احمد کے نام )

This is my sixteenth poem of this lockdown, entitled "Aaina Hairan hai" . Please stay at home and stay safe. نظم ۔۔۔آئینہ حیران ہے (پروفیسر ندیم احمد کے نام ) یہ بحر و بر یہ حیوانات و نباتات یہ سفر  آفتاب  اور سکون جاں  رات جیسے تھے کل آج بھی ہیں کہ انہیں دعوی نہیں اپنی شان و اوقات کا یہ سمجھتے ہیں  خود کو عطیہ اس واحد ذات کا مگر

ڈاکٹر مشتاق احمد دربھنگہ کی تازہ تخلیق****** نظم ۔۔حیات نو ہر اک شام دن بھر کا تھکا

This is my fifteenth poem of this lockdown, entitled "Hayat-e-Nau" . Please stay at home and stay safe. ****** نظم ۔۔حیات نو  ہر اک شام  دن بھر کا تھکا ہارا سورج  چھوڑ جاتا ہے شفق  اور یہ شفق دے جاتا ہے  صبح نو کی آمد کا پیغام  شب تاریک کی کوکھ سے پھر جنم لے گا  اک آفتاب نو  کہ یہ سلسلہ ازلی و ابدی ہے  طوفانوں سے سینہ سپر ہوتے   شجر  تیز ہواؤں میں ٹمٹماتی دیئے کی لو  کناروں سے ٹکراتی رواں داوں ندی بلندیوں سے اترتے ہوئے  یہ نغمہ بار جھرنے  آسمان سے غول در غول  گھونسلوں میں لوٹتے پرندے  اور پھر  بانگ مرغ ، چڑیوں کی  چہچہاہٹ  دور ہوتا اندھیرا ،نئی کرن کی آہٹ  ہر اک شام  دن بھر کا تھکا ہارا سورج  چھوڑ جاتا ہے شفق  اور شفق دے جاتا ہے  صبح نو کا پیغام  شب تاریک کی کوکھ سے جنم لے گا  اک آفتاب نو  کہ یہ سلسلہ ازلی و ابدی ہے ۔

ڈاکٹر مشتاق احمد دربھنگہ مورخہ ۔23 اپریل 2020

نظم۔۔ ۔پال گھر کے شہید سنت بابا کی  چٹھی  پریہ کوی  میں جانتا ہوں  آج کی رات پھر  تیری   آنکھوں میں کٹی ہوگی  سورج طلوع ہوا ہوگا  مگر  تیرگی کہاں چھٹی ہوگی   میری دوڑ تی،چیختی ہوئی تصویر  ہاے ماتم کرتی ہوئی میری تقدیر    حیوان کو شرمندہ کرتی ہوئی    انسانی صورت  مو ک درشک رکشک   اپنی جاں کی خیر مانگتے ہوئے تم نے جب دیکھا ہوگا      تڑپ تڑپ کر  میری جان کو جاتے ہوئے  میں جانتا ہوں تیری پیڑا  تجھے  پریشان کئےہوئے  ہوگی  تو کوی ہے ،یہ دریشیہ  تجھے  اندر سے لہو لہان کئےہوئے  ہوگی     تیری آنکھوں میں پھر لوٹ آئ  ہوگی  اخلاق و پہلو کی تصویر عرفاں کے بندھے ہوئے ہاتھ  رستم کے پاؤں کی زنجیر میرے پریہ کوی  مجھے دکھ ہے کہ  یہ اپنی ، وہ بستی نہیں رہی   جہان رہتے تھے رحیم و کبیر  بے خوف چلتےرہتے  تھے   ہم کنیا کماری سے کشمیر  مگر میرے پریہ کوی  میری تجھ سے یہ ونتی ہے  میرایہ انتم کام کر دینا  میرا یہ پتر عام کر دینا  یہ  بستی  پرانےہی  روپ میں  رہے تو بہتر ہے  بھارت ماتا،  اپنے سروپ میں رہے تو بہتر  ہے  کہ گم تھی جب تک الگ ال

افسانہ ذائقہ نورالدین نور

افسانہ                   ذائقہ          نورالدین نور شگقتہ اور وسیم نے لو میریج کی تھی,وسیم کا تعلق ایک متوسط گھرانے سےتھااور شگفتہ ایک امیر گھرانے کی ماڈرن لڑکی تھی, آج شگفتہ اور وسیم کی شادی کی پانچویں سالگرہ تھی وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے ان کے رشتہ دار اور دوست احباب سبھی ان کو میڈ فار ایچ ادر کہتے تھے, لیکن شگفتہ کو ہمیشہ ایک بات کھلتی تھی کہ وسیم نے پچھلے پانچ برسوں میں اس کے بناے ہوے کھانے کی جھوٹے منہ بھی تعریف نہیں کی تھی جبکہ دوسرے لوگ اسکی بنائی ہو ئی ڈشیس کھانے کے بعد اپنی انگلیاں چاٹتے ہوے تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے,مگر وسیم ہمیشہ شگفتہ کے ہاتھوں بنا کھانا کھانے کے بعد کہتا تھاکہ ماں کے ہاتھوں کے بناے ہوے کھانے کا مزہ کچھ اور ہی تھا, لاک ڈاؤن کی وجہہ سے شگفتہ اور وسیم کئی دنوں سے گھر میں محصور ہو کر رہ گئے تھے فریج میں رکھی ہوئی ساری سبزیاں ختم ہو چکی تھیں,کچن میں سواے نمک اور مرچ کے کچھ بھی نہیں تھا چاول کا کنستر خالی پڑا تھا شگفتہ کو ایک کیاری بیگ میں تھوڑا سا گیہوں کا آٹا مل گیا تو اس نے بے دلی سے چپاتیاں اور آلو کی سبزی بنالی,کھانا بنانے کے دوران شگ

نظم ۔۔اندیشہ...*ڈاکٹر مشتاق احمد دربھنگہ (بہار)

This is my thirteenth poem of this lockdown, entitled "Andesha"(Anxiety) . I hope that you will all like this poem. I thank you all for the love and support   you have given to me. Please stay at home and stay safe. نظم ۔۔اندیشہ لمحہ بہ لمحہ الٹتے جا رہے ہیں کتاب زیست کے اوراق کہ وقت   کو کبھی آرام نہیں   تاریخ کےیہ ہزار ہا صفحات قصّہ و کہانی کی یہ کتاب در کتاب رقص و موسیقی کی یہ دلکش اداکاری شاعر و مصور کی یہ دلفریب فنکاری شب فراق کا فسانہ غم وصال یارکا   قصّہ   شاد صفہ در صفہ ہے آئینہ حیات مگر یہ سب ہیں ماضی کی عطیات یہ تو ازلی و ابدی حقیقت ہے   کہ داستان حال بھی لکھا جایگا مستقبل کے ہاتھوں سے مگر   مورخ لکھے گا یہ خاموشی ،یہ چیختا ہوا سنناٹا تا حد نظر ویرانی ہی ویرانی سایوں سے دور بھاگتا   ہوا   ایک انسان سے انسان ہر اک نگاہ اداس ہر اک چہرہ پریشان اپنے ہی سروں کا بوجھ لئے در بدر پھرتا ہوا ناتواں جسموں کا ہجوم ہمارے حال کا قصّہ ہوگا ہماری تاریخ کا حصّہ ہوگا ہماری یہ تنہائی ،یہ چیختا ہوا سنن

انشائیہ: تعارف، اصول اور روایت. محمد آدم

انشائیہ: تعارف، اصول اور روایت محمد آدم انشائیہ ادب کی ایک نہایت ہی لطیف صنف ہے۔کسی مضمون ہی کوجب ایک خاص اندازمیں تحریرکیاجاتاہے ،جس کی بے ترتیبی کا اپنا ایک ربط ہوتا ہے اوربات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے بظاہر اسی بے ترتیبی سے وجودمیں آنے والی صنف کو، جس میں ایک شعوری ربط و تسلسل قائم رہتاہے، انشائیہ کہتے ہیں۔ انشائیہ اورمضمون میں کیافرق ہے اورادب میں اس کی کیااہمیت ہے،اس کے اصول کیاہیں اور اس کی روایت وتاریخ کیارہی ہے ۔اس میں کس کس قسم کی تبدیلیاں رونماہوتی رہی ہیں ان سب کو اس مضمون میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔  اردوادب میں بہت سی اصناف،عربی ،فارسی اور مغربی ادب سے مستعار ہیں جس طرح چراغ سے چراغ جلانے کی روایت بہت ہی قدیم ہے،(اس سے علم و ادب کے نئے نئے دروازے کھلتے،بہت سے گوشے بے نقاب ہوتے اوربہت سے دریچے روشن ہوتے ہیں)،اسی طرح تحقیق وتنقیدکے ذریعے علم وادب ارتقاپذیررہتے ہیں،جس سے نت نئی چیزیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ زندگی بت ہزارشیوہ ہے ۔اس کی بے ربطی میں ایک ربط پنہاں ہوتاہے۔ اس کی بین العلومیت اورہزار رنگی، زندگی اوراس سے متعلقات کی وضاحت کے لیے نئے نئے پیرائے تراشتے