نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

انشائیہ: تعارف، اصول اور روایت. محمد آدم


انشائیہ: تعارف، اصول اور روایت
محمد آدم
انشائیہ ادب کی ایک نہایت ہی لطیف صنف ہے۔کسی مضمون ہی کوجب ایک خاص اندازمیں تحریرکیاجاتاہے ،جس کی بے ترتیبی کا اپنا ایک ربط ہوتا ہے اوربات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے بظاہر اسی بے ترتیبی سے وجودمیں آنے والی صنف کو، جس میں ایک شعوری ربط و تسلسل قائم رہتاہے، انشائیہ کہتے ہیں۔
انشائیہ اورمضمون میں کیافرق ہے اورادب میں اس کی کیااہمیت ہے،اس کے اصول کیاہیں اور اس کی روایت وتاریخ کیارہی ہے ۔اس میں کس کس قسم کی تبدیلیاں رونماہوتی رہی ہیں ان سب کو اس مضمون میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ 
اردوادب میں بہت سی اصناف،عربی ،فارسی اور مغربی ادب سے مستعار ہیں جس طرح چراغ سے چراغ جلانے کی روایت بہت ہی قدیم ہے،(اس سے علم و ادب کے نئے نئے دروازے کھلتے،بہت سے گوشے بے نقاب ہوتے اوربہت سے دریچے روشن ہوتے ہیں)،اسی طرح تحقیق وتنقیدکے ذریعے علم وادب ارتقاپذیررہتے ہیں،جس سے نت نئی چیزیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔
زندگی بت ہزارشیوہ ہے ۔اس کی بے ربطی میں ایک ربط پنہاں ہوتاہے۔ اس کی بین العلومیت اورہزار رنگی، زندگی اوراس سے متعلقات کی وضاحت کے لیے نئے نئے پیرائے تراشتے اورتلاشتے رہتے ہیں! انشائیہ اسی ہزاررنگی کویگانگت یا ایک رنگ میں پیش کرنے کانام ہے جس میں موضوع کی کوئی قیدنہیں۔ 
انشائیہ تعریف اور تعارف
انشائیہ کے لغوی معنی عبارت ،بات پیداکرنا اورطرزتحریر وغیرہ ہیں انشائیہ نثری ادب کی وہ صنف ہے،جوایک مختصرادبی مضمون کی مانندہوتے ہوئے بھی مضمون سے الگ انداز رکھتا ہے ۔اس میں تاثرات ومشاہدات،وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں، شگفتگی اورشائستگی اِس کا اہم عنصرہے۔انشائیہ نگارکا اندازبیاں خشک نہ ہوکرپرلطف اوردلچسپ ہوتاہے۔اس کی ہےئت گرچہ نثری صنف کی ہے لیکن یہ اپنے اندرشاعری کاسالطف رکھتاہے ۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار اپنی تحریرسیل رواں کی مانند آزادا نہ طورپر شعوری رومیں بہتاہواپیش کرتاہے، جس میں اس کی شخصیت کاپہلوبھی نمایاں نظرآتا ہے اوربغیر کسی خاص نتیجے کے بات کو ختم کیے فیصلہ قاری پر چھوڑدیتاہے ۔ واضح رہے کہ انشائیہ کے مفہوم اورہےئت کو کسی ایک تعریف میں سمونا یا اس کی کوئی ایک ترکیب بیان کرنا قدرے دشوارہے ۔
انشائیہ میں ہونے والی مسلسل تبدیلیوں اورمختلف پیرائے اظہار کے اپنا ئے جانے کے سبب کئی انداز تحریر اوراسلوب ا س صنف سے جڑتے چلے گئے ،جس کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں رہا کے ا س کی کوئی ایک جامع تعریف کی جاسکے ۔ البتہ اس کو کئی طرح سے واضح کیاجاسکتاہے ،جس سے انشائیہ کے خدوخال کو پوری طرح سمجھا جاسکتاہے۔اسی کوواضح کرتے ہوئے وزیرآغالکھتے ہیں :
’’ہرانشائیہ کیابہ لحاظ مواد اورکیابہ لحاظ تکنیک ایک جداگانہ کیفیت کا حامل ہے۔ تاریخی اعتبار سے بیکن، لیمب اور چسٹرٹن کے طریق کارمیں اتنا تفاوت ہے کہ ان کے لکھے ہوئے مضامین کو ایک ہی زمرے میں شامل کرتے ہوئے سخت ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔اسی طرح دور جدیدکے بیشترلکھنے والوں نے انشائیہ کے سلسلے میں کافی سے زیادہ آزادی سے کام لیاہے اورناقدکے لیے انشائیہ کے مقتضیات اورامتیازی محاسن کو علاحدہ کرکے دکھانا مشکل ہوگیاہے۔تاہم غائرنظرسے دیکھنے پرانشائیہ کی متنوع کیفیات اورابلاغ واظہار کے مختلف سانچوں کے پس پشت ایک علاحدہ صنف ادب کے نقوش واضح طورپر ابھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
(انشائیہ کے خدوخال ، وزیرآغا : صفحہ نمبر9 )
یعنی انشائیہ کی بے ترتیبی کی وجہ ذہن انسانی کی مختلف جولانیاں ہیں۔اِ س کی وضاحت کرتے ہوئے ،اپنے آپ پرگفتگوکرتے ہوئے یا خودکلامی کرتے وقت ’تحریریں‘عجیب عجیب حشرسامانیوں کے ساتھ جلوہ گرہوتی ہیں۔پھرسیکڑوں شخصیات کی خودکلامی اوران کے اذہان کے بیان کے لیے ایک مسلسل سیدھی ترکیب پیش کرنا مشکل ہوجاتاہے۔ یہی سبب ہے کے ہر انشائیہ اپنے مواد وموضوع اوراسلوب کے اعتبار سے الگ الگ دکھائی دیتا ہے۔
انشائیہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹرسیموئیل جانسن(1709-1784) کہتے ہیں کہ
’’انشائیہ ذہن کی آزاد ترنگ ، بے ترتیب اورغیرہضم شدہ ٹکڑا بے قائدہ اورغیرمنظم عمل ہے‘‘۔
اس قول کی تفصیل بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر انورسدید لکھتے ہیں کہ :انشائیہ کی فنی حدوداوربنیادی محاسن متعین کرنے کے لیے ذہن کی آزاد ترنگ،غیررسمی طریق کار،شخصی انکشاف ،خودکلامی ،عدم تکمیل، لچکیلاپن اورانکشافِ ذات وغیرہ کوہی زیادہ اہمیت دیتی ہے۔اوراب تک انشائیہ کی جومتعددتعریفیں مختلف ناقدین ادبا یاانشائیہ نگاروں نے وضع کی ہیں ان میں متذکرہ بالا اوصاف میں سے کسی ایک وصف کو دوسرے اوصاف پر ترجیح دے کرایک نیا زاوےۂ نظر پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے‘‘۔
(انشائیہ اردوادب میں، ڈاکٹر انورسدید: صفحہ 26/27) 
درج بالابیانات سے یہ سے واضح ہوتاہے کہ انشائیہ میں انشائیہ نگارغیررسمی طریقے سے خودکلامی کرتاہے۔ ذہنی ترنگ اور خیالات کا تموج اس کے دل ودماغ میں جوش مارتاہے، اسی کے وفور کو خوبصورت الفاظ کے قالب میں ڈھا ل کر انشائیہ نگارموتیوں کی صورت صفحۂ قرطاس پربکھیردیتاہے۔
صنف انشائیہ کا مقصد وزیرآغا کی زبان میں کہیں تویہ ہے کہ :
’’بنیادی طورپر انشائیہ لکھنے کا مقصدآپ کوسوچ بچارکے لیے راستہ ہموار کرناہے،بیشک وہ اپنے موضوع کے بیان میں صرف شحضی واردات اورتجربات اوراپنے ذاتی عمل کے اظہارتک ہی اپنی مساعی کومحدود رکھتاہے۔تاہم اس کے پیش نظر مقصدصرف یہ ہوتاہے کہ آپ کوسوچنے پرمائل کرے،چنانچہ ایک اچھے انشائیہ کی پہچان یہ ہے کہ آپ اس کے مطالعے کے بعد کتاب کوچند لمحوں کے لیے بند کردیں گے اورانشائیہ میں بکھرے ہوئے بہت سے اشارات کا سہارا لے کر خود بھی سوچتے اورمحظوظ ہوتے چلے جائیں گے‘‘۔ 
(انشائیہ کے خدوخال، وزیرآغا، صفحہ 11-12)
اگرچہ انشائیہ موجودہ ہےئت میں مغرب کی رہین منت ہے جس سے اردووالوں نے بھرپوراستفادہ کیا، لیکن اردوادب میں یہ صنف دوسری شکل میں پہلے سے موجود تھی۔ ایّسےEssayیا روش عام سے ہٹ کر خاص انداز کی تحریریں لکھنے والوں کو انشاپرداز کہتے رہے ہیں۔ اردوادب میں انشائیہ کے نقوش منتشرحالتوں میں پہلے سے توملتے ہیں لیکن ا نھیں منضبط کرنے اورایک باقاعدہ صنفی صورت میں برتنے کی کوشش ایک عرصے تک عمل میں نہ آسکی۔ 
دوسرا یہ کہ ابتدا میں انشائیہ نگاری کو تجرباتی طورپر آزمانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس کے مزاج کوجزوی طورپرہی قبول کیاگیا۔ جن جن چیزوں کو اس صنف کے لیے موضوع سخن بنایاگیاان میں جاندار وبے جان اشیا اورمذاہب و اخلاقیات کوکسی نئے زاویے سے دیکھنے کے بجائے ان پر زیادہ تر رسمی اورروایتی نظرہی ڈالی گئی ،اُس دورکے مضمون نگاروں نے اپنی ذات کو منکشف کرنے کے بجائے ا سے پردوں میں مستوررکھنے ہی میں عافیت محسوس کی ۔
چنانچہ وہ غیر رسمی انداز جو انگریزی انشائیہ کی روح ہے اورقاری کودوسری دنیاکی سیر کراتا ہے وہ اردوزبان وادب میں کلی طورپر پیدانہ ہوسکا۔ اس دورمیں اردوانشائیہ کے بے تکلف ،غیرآرائشی اورآزاد مزاجی کوآزمانے کے بجائے عربی فارسی اورترکی زبانوں کی انشاپردازی اور ان زبانوں کے اسلوب کوزیادہ قبول کیاگیا۔چنانچہ مصنف اورقاری کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل رہی۔مصنف تبلیغ واصلاح کے پیرائے میں معاشرتی خامیوں اورناہمواریوں کو اجاگرکرتاہے،اورقاری کواحساسِ زیاں اوراحساس کمتری سے دوچار کردیتا۔حالانکہ اس دورکے ادبانے اپنی تحریروں کوانشائیہ کہنے کے بجائے مضمون ہی قراردیا ۔یہ شکوہ ہے ان اہم مضامین کے انشائیہ نہ بن پانے کا۔مضامین حالی ،مضامین شرر،مضامین فرحت اللہ بیگ،مضامین رشیداورمضامین چکبست وغیرہ اس مزاج کی معروف اورمقبول کتابیں ہیں اوران میں ادبی ،تہذیبی ،معاشرتی ، سیاسی اورفکاہی تحریریں غرض کہ تمام اقسام کے مضامین قاری کی توجہ کامرکز رہے ہیں۔ 
اردومیں مضمون انگریزی کے’ Essay‘کا ہم معنی ہے۔ جبکہ انشائیہ کے لیے انگریزی میں لائٹ ایسّے(LIGHT ESSAY) کااستعمال ہوتاہے ۔ابتدا میں اردوکے مضامین ہی میں انشائیہ کی تلاش کی گئی جبکہ انشائیہ کاتعلق لائٹ ایسے سے ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اردوداں طبقے کا ذہن اپنی قدیم تحریروں کوانشائیہ سے کم سمجھنے پر تیارنہ تھے اوردوسری جانب کچھ افرد ایک عرصے تک انگریزی لفظ’ ایسے‘ (ESSAY)کے گرد ہی گردش کرتے رہے ۔بقول احمدجمال پاشا :
’’ اردومیں مضمون کے نام سے ہمیشہ’ اسّے‘(Essay) ہی لکھے گئے۔ ‘‘
بعض ناقدین نے انشائیہ کے بارے میں اردوکی اس قبیل کی تحریروں کوسامنے رکھتے ہوئے اُس کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے پروفیسرنظیرصدیقی نے انشائیہ کی تعریف اس طر ح کی ہے :
’’ انشائیہ ادب کی وہ صنف ہے جس میں حکمت سے لے کرحماقت تک اورحماقت سے لے کرحکمت تک ساری منزلیں طے کی جاتی ہیں‘‘۔
(بحوالہ :انشائیہ اردوا ادب میں،انورسدید،صفحہ نمبر36)
بہرحال مذکورہ تمام باتوں سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مضمون سے ایک نئی صنفِ ادب کی ابتدا ہوئی ۔ مضمون سے انشائیہ بننے کا عمل ایسے ہی ہے جیسے سیپ میں موتی کی پرورش کا عمل ۔ 
ایسا نہیں ہے کہ یہ لفظ انشائیہ یک لخت وجودمیں آگیا اور بہت سے اشخاص تخلیقی نوعیت کے مضامین لکھنے لگے اورانشا پردازی کا جوہردکھانے لگے ۔بلکہ انیسویں صدی کے آخر اوربیسویں صدی کے آغاز کے بعد تخلیقی قسم کی جونثر لکھی گئی،اس میں مضمون نگاری کے متذکرہ رجحان غالب حیثیت رکھتے ہیں اور اس کا سلسلہ سرسید احمد خاں،علامہ شبلی نعمانی،مولوی نذیراحمد،میرناصرعلی دہلوی،محمدحسین آزاد ، مولاناالطاف حسین حالی اورعبدالحلیم شررسے لے کر سجاد حیدریلدم ،مہدی افادی،سجاد انصاری ، خواجہ حسن نظامی ،عبدالعزیز فلک پیما،نیاز فتح پوری،فرحت اللہ بیگ ،سعادت حسن منٹو اورپطرس بخاری تک پھلاہواہے۔ 
ان میں سے کسی نے بھی اپنی اس قبیل کی تحریروں کے لیے لفظ انشائیہ کا استعمال نہیں کیا۔ اوریہ کہنادرست ہے کہ بیسویں صدی میں 1946کے آس پاس’ اختراورینوی‘ نے انشائیہ کا لفظ مخصوص معنی میں ایک کتاب کے دیباچہ میں استعمال کیا۔ لیکن وہ اس کا اطلاق انشائیہ پراس لیے نہ کرسکے کیوں کہ اس وقت تک اردو انشائیہ اپنی مکمل وحدت وہےئت میں سامنے نہیں آیاتھا ۔ اس کا وجودمنتشراور لخت لخت تھا ۔ اس لیے اس لفظ انشائیہ کومناسب فروغ حاصل نہ ہوسکا۔یہی وجہ ہے کے انشائیہ کی اصطلاح کے بارے میں بہت سے ناقدین کی تحریروں سے کوئی واضح خاکہ نہیں ابھرتا ۔
لفظ انشائیہ کوسب سے پہلے کس نے استعمال کیا؟ان اختلافات کی تفصیل سے قطع نظراحمدجمال پاشانے گہرے استدلال اورپرمغز بحث کے بعد یہ ثابت کیا کہ’ انشائیہ کی اصطلاح اصلاً ڈاکٹر وزیر آغا نے مضامین کے لیے نہیں بلکہ شخصی مضامین کے لیے نہ صرف استعمال کی بلکہ اسے فنی طورپربرتابھی ۔ اس لیے کہ انشائیہ کی تحریک کا باضابطہ آغاز انھیں سے ہوتا ہے اوروہی اس کے باوا آدم ہیں۔
(بحوالہ اردوانشائیہ ،انورسدید،صفحہ نمبر46)
بعض ناقدین نے اس صنف ادب کے نقوش ملاوجہی کی کتاب ’سب رس ‘مرزا غالب کے خطوط اورمیرامن کی باغ وبہار میں دریافت کیے ہیں،توکچھ نے یہ خیال ظاہرکیاکہ جب اردوزبان میں لفظ انشا موجودتھا توانشائیہ کی صنف بھی موجودہوگی۔ اس ضمن میں اگرمذکورہ تمام باتوں کا تجزیہ کا کیاجائے تواحمدجمال پاشا کا یہ نتیجہ بے حد معنی خیزہے کہ :
’’ انشائیہ کے سلسلے میں قواعد کی کتابوں میں انشائیہ کا لفظ برابر ملتاہے اورانشائیہ کا لفظ استعما ل بھی ہوتا رہاہے۔ مگر’’لائٹ ایسے کے لیے انشائیہ کی اصطلاح سب سے پہلے ڈاکٹروزیرآغانے کی اوراسے برتا بھی ۔ اس کے فنی نمونے تخلیق کیے اوراسے ایک صنف ادب اورتحریک کی شکل دی۔‘‘
(بحوالہ اردوانشائیہ ،انورسدید،صفحہ نمبر65)
یہی وجہ ہے کہ اب ایک بڑاطبقہ عصری انشائیہ اورا س کی اصطلاح کو رائج کرنے والے ادیب کی حیثیت سے ڈاکٹروزیرآغا کوہی تسلیم کرچکاہے۔انھیں ہی انشائیہ کی تحریک کا بانی شمارکرتاہے اور’خیال پارے ‘ کی اشاعت کوانشائیہ کا نقطۂ آغاز گردانتاہے۔
اس بارے میں ’پروفیسرجمیل آذر‘ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’ ڈاکٹروزیرآغا‘پہلے ادیب ہیں جنھوں نے انشائیہ کے عناصرترکیبی اوراس کی روح کودریافت کیا،1961میں اردوانشائیوں کا پہلا مجموعہ ’خیال پارے‘ شائع ہوا تواس کی اشاعت کے ساتھ ہی اردو ادب میں جدید انشائیہ کی باقائدہ تحریک کا بھی آغاز ہوا۔
ڈاکٹر وزیرآغا کے نزدیک انشائیہ کے بنیادی تقاضے یہ ہیں کہ انشائیہ شے یا مظہرسے چھپے ہوئے ایک نئے معنی کو سطح پر لاتاہے۔ اہم با ت یہ ہے کہ ا س تقاضے کے ساتھ انشاء کی تازہ کاری اورزبان کے تخلیقی استعمال کی شرط بھی عائد کی گئی ہے ۔ڈاکٹر محمد حسنین نے لکھا ہے کہ تحریرمیں انشا نہ ہوتوتحریرلکیربن جاتی ہے اورعبارت مجہول النسب ہوجاتی ہے، انشائیہ اورانشا ء میں وہی تعلق ہے جو کرۂ ارض اورآفتاب میں ہے۔ یعنی اس کی شعائیں روشنی دیتی ہیں اورحرارت بھی ۔ سید احتشام حسین کا کہنا ہے کہ اس سے (انشائیہ) کو تو ایک ایسی فلسفیانہ شگفتگی کا حامل ہوناچاہیے جو پڑھنے والے کے ذہن پر منطق اور استدلال کے ذریعے نہیں بلکہ محض خوشگوار استعجاب اوربے ترتیب مفکرانہ اندازبیان کے ذریعے اپنا تاثرقائم کرے۔ 
یہی سبب ہے کہ اگر دنیا کے معروف انشائیہ نگاروں کا مطالعہ کیاجائے تویہ حقیقت کھل کرسامنے آتی ہے کہ اس صنف ادب میں کامیابی نے صرف انہیں انشائیہ نگاروں کے قدم چومے جواپنا منفرد،تخلیقی اورتازگی سے معموراسلوب تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے اوروہ اسلوب ان کی تحریر کا آئینہ ہی نہیں بلکہ اس آئینہ سے اس تہذیب وتمدن کی جھلکیاں بھی نظر آتی تھیں جس میں ان انشائیہ نگاروں نے زندگی بسرکی تھی ۔یہ تحقیق شدہ ہے کہ موجودہ انشائیہ ہمارے یہاں مغرب سے مستعار ہے۔
لیکن ڈاکٹر جاویدوششٹ نے اس ا مرسے اختلاف کیاہے اورملاوجہی کواردوکا پہلاانشائیہ نگارتسلیم کیاہے۔اپنے اس دعوے کے اثبات کے لیے انھوں نے سب رس سے وجہی کے 61انشائیے ترتیب دے کرپیش کیے ہیں،اوراس طرح وجہی کواردوکااولین انشائیہ نگار اورانشائیہ کوایک دیسی صنف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
اردوانشائیہ اپنی ایک انفرادیت رکھتاہے دورِسرسیدمیں انگریزی ادب سے ہمارے انشائیہ نے ضروراستفادہ کیامگریہ کہنا غلط ہے کہ اردوانشائیہ انگریزی انشائیہ سے آیاہے ،ہمارا انشائیہ کلیتاً ہماراانشائیہ ہے اورملاوجہی اردوانشائیہ کے باواآدم ہیں۔ جس وقت عالمی ادب میں انشائیہ کی صنف نے جنم لیاکم وبیش اسی وقت ہمارانشائیہ بھی عالم وجودمیںآیا۔‘‘
( بحوالہ انشائیہ کی روایت مشرق ومغرب کے تناظر میں،مصنف محمداسداللہ صفحہ نمبر131)
گویاانشائیے کی بعض خوبیوں کے سبب وجہی کی تحریروں کوانشائیہ قراردیاگیاہے۔ غالب کے خطوط اپنے انشائی حسن اوردوسری خصوصیات کے سبب انشائیہ کہلانے کے مستحق ہیں۔سب رس میں جن خصوصیات کی بناپرانشائیہ ہونے کاگمان کیاگیاغالب کے خطوط میں یہ رنگ زیادہ گہرے اورزیادہ روشن ہیں۔
غالب کے خط کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں جو نواب امیرالدین خاں کے نام ہے لکھتے ہیں :
سنوعالم دوہیں ایک عالم ارواح اورایک عالم آب وگل ،حاکم ان دونوں عالموں کا ایک ہے،جو خودفرماتا ہے لمن الملک الیوم اورپھرآپ جواب دیتاہے للہ الواحدِالقہار۔ ہرچندقاعدہ یہ ہے کے عالم آب وگل کے مجرم عالم ارواح میں سزاپاتے ہیں لیکن یوں بھی ہواہے کہ عالم ارواح کے گناہ گارکودنیامیں بھیج کر سزادیتے ہیں چناچہ آٹھ رجب 1212ھ میں روبہ کاری کے واسطے یہاں بھیجاگیا13برس حوالات میں رہا7رجب 1225ھ کو میرے واسطے حکم دوام حبس صادرہوا۔ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی اوردلی شہرکوزنداں مقررکیا اورمجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔ فکرِنظم ونثرکومشقت ٹھہرایا۔برسوں کے بعدجیل خانہ سے بھاگا،تین برس بلادِشرقیہ میں پھرتارہا۔ پایان کار مجھے کلکتہ سے پکڑلائے اورپھراسی مجلس میں بٹھادیا۔پاؤں بیڑی سے فگار،ہاتھ ہتھکڑیوں سے زخم دار،مشقت مقرری اورمشکل ہوگئی۔ طاقت یک قلم زائل ہوگئی۔ بے حیاہوں۔ سالِ گزشتہ بیڑی کوزاویہ زنداں میں چھوڑکرمع دونوں ہتھکڑیوں کے بھاگا ۔میرٹھ ،مراد آباد ہوتاہوا۔ رام پورپہنچا۔ کچھ دن کم دومہینے وہاں رہا تھا کہ پھرپکڑآیا۔ اب عہد کیاکہ پھرنہ بھاگوں گا، بھاگوں گاکیا۔بھاگنے کی طاقت بھی تونہ رہی ،حکم رہائی دیکھیے کب صادرہو۔(مرزا اسد اللہ خاں غالب)
مذکورہ خط کودیکھ کر غالب کو انشائیہ کے پیش رومیں شامل کرلینا ادبی تحقیق کی شان کے خلاف قرار نہیں دیاجاسکتا۔غالب کے بعد ماسٹررام چندر نے بھی انشائیہ کے بنیادی خدوخال میں حصہ لیا ۔ انھوں نے اردومیں مضمون نگاری کی بنیادرکھی،انھی مضامین میں جابہ جاانشائیہ کی رمق نظر آتی ہے۔ سرسیداحمدخاں نے1870میں تہذیب الاخلاق کااجراکرکے مضمون نگاری کی نئی جہتیں روشن کیں۔جس کی اتباع وتقلید نہ صرف ان کے رفقا نے کی بلکہ ان کے مخالفین بھی اسی روش کواپنانے پرمجبور ہوئے۔ سرسیدکی تحریروں کو اردومیں انشائیہ کے لیے پہلی تحریک کے طورپر دیکھاجاناچاہیے۔ 
سرسیدکامقصد شخصی تاثرات یا محض افکاروخیالات کی ترسیل نہیں تھی بلکہ وہ ان مضامین کوقوم وملت کی اصلاح کا ذریعہ بناناچاہتے تھے۔ جوکام یورپ میں ڈیکارٹ کی تحریروں نے کیاوہی کام مسلمانان عالم میں سرسید کی کاوشوں نے کیا ۔ سرسیدکے رفقاء میں بالخصوص نواب محسن الملک،نواب وقارالملک، مولوی چراغ علی ،محمدحسین آزاد،ڈپٹی نذیراحمد ، الطاف حسین حالی،مولوی ذکاء اللہ اوروحید الدین سلیم وغیرہ نے سرسیدکے طرزتحریر کوادبی مشن کے طورپراپنایا اورجاری رکھا۔اس وقت سرسید ان رویوں کے محرک ا علی تھے اوراس ادبی اورعلمی دورکے آغاز کا سہرا انھیں کے سرہے ۔ جن انشائیہ نگاروں نے بیسویں صدی میں اس فکروفن کووسعت بخشی ان میں قابل ذکرنام اس طرح ہیں :
میرناصرعلی دہلوی ،نیا زفتح پوری ،سجادحیدریلدرم،منشی پریم چند،مولوی عزیزمرزا ،سیداحمددہلوی، مولاناخلیق دہلوی ،سلطان حیدرجوش،مہدی افادی،سجاد انصاری،فلک پیماں،مولاناابوالکلام آزاد ،خواجہ حسن نظامی، فرحت اللہ بیگ،رشید احمدصدیقی،پطرس بخاری،کرشن چندر،اکبرعلی قاصد،مشتاق احمدیوسفی اورمجتبیٰ حسین وغیرہ۔ان میں سے اکثر شخصیات کوبنیادی طورسے مضمون نگار ،افسانہ نگار،ناول نگار یاانشا پرداز ہی سمجھناچاہیے ان افراد نے ’لائٹ ایسّے‘ کے معنی میں انشائیہ نہیں لکھے لیکن ان کی تحریروں میں انشائیہ کے نقوش وآہنگ پیوست ہیں اوروہی انشائیے کی بنیادکہے جائیں گے۔ان تحریروں میں بہت سی تحریریں ایسی ہیں جو آج کے انشائیہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔
مذکورہ شخصیات میں سے چند کی تحریروں سے مثال اوران کا مختصرتعارف انشائیہ کے حوالے سے ملاحظہ ہو۔ 
منشی پریم چند : منشی پریم چندنے ناول اورافسانوں کے علاوہ چند مضامین بھی تحریرکیے ہیں جن میں انشائیہ کی بوباس نظرآتی ہے یہی وجہ ہے کہ وحیدقریشی نے ان کے ایک مضمون’ گالیاں‘کواپنی کتاب ’اردوکابہترین انشائی ادب‘ میں شامل کیا ہے ۔مثال ملاحظہ کریں :
’’یوں توگالیاں بکناہماراسنگھارہے۔مگربالخصوص عالمِ غیض وغضب میں ہماری زبان جولانی پر ہوتی ہے غصہ کی گھٹاسرپرمنڈلاتی اورمنہ سے گالیاں موسلادھارمینہ کی طرح برسنے لگتی ہیں۔‘‘
منشی پریم چند،گالیاں،مشمولات: اردوکا بہترین انشائی ادب،مرتبہ : ڈاکٹروحیدقریشی صفحہ 173
مہدی افادی : مہدی افادی نے’ افادات مہدی‘ میں علمی موضوعات کو انشائیہ کے انداز میں پیش کیاہے،مہدی افادی کے خطوط میں انشائیہ کا وہی لب و لہجہ اور وہی کھلی کھلی فضااورگفتگوکا وہی اندازجلوہ گرنظرآتا ہے جو انشائیہ سے قریب ترہے،افادات مہدی کے مضامین میں شاعرانہ نثراورجمالی حسیت کی کارفرمائی نظرآتی ہے۔مثال دیکھے :
’’عورت بہ اعتبارجذبات ایک خوبصورت گلدستہ ہے،جس کی ساخت میں نہایت نازک پھول پتیاں صرف ہوئی ہیں،جس طرح پھول کی پتیوں میں نازک رگیں نسیں اورباریک نقش ونگارہوتے ہیں،عورت کا دل ودماغ بھی ہرطرح کی لطافتوں اور نزاکتوں کا مخزن ہوتاہے۔جس کے بیل بوٹے قدرت کی بہترین نقاشی ہیں۔ انھیں باریک حسیت وجذبات کا ابھارنااوران کے نشووارتقائے تدریجی کے سلسلے کوقائم رکھنا، چاہنے والے کااصلی فرض ہے۔‘‘
)مکاتیب مہدی بحوالہ: طنزیات ومضحکات صفحہ 68(
مولانا ابوالکلام آزاد : ’غبار خاطر‘مولانا ابوالکلام آزاد کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو 10اگست 1942 سے لے کر16 ستمبر 1943 تک زمانۂ قید میں مولانا حبیب الرحمان خاں شیروانی کو لکھے گئے تھے وصف نگاری بھی انشا پردازی کی ایک اہم صفت ہے ان خطوط میں انشائیہ کے ایسے عناصر موجود ہیں جو انشائیہ کے لیے بے حدضروری ہیں ملا حظہ کیجیے، آزاد کی وصف نگاری کا ایک شہ پا ر ہ :
’’ کوئی پھول یا قوت کا کٹورا تھا، کوئی نیلم کی پیالی تھی، کسی پھول پر گنگا جمنی قلم کاری کی گئی تھی، کسی پر چھینٹ کی طرح رنگ برنگ کی چھپائی ہو رہی تھی، بعض پھولوں پر رنگ کی بوندیں اس طرح پڑگئی تھیں کہ خیال ہوتا تھا صناعِ قدرت کے مو ئے قلم میں رنگ زیادہ بھر گیا ہوگا ، صاف کرنے کے لیے جھٹکنا پڑا، اور اسی کی چھنٹیں قبائے گل کے دامن پر پڑ گئیں۔‘‘
خط نمبر(18) میں دو صفحے کے بعد کس قدر فکر انگیز بات آزاد نے لکھی ہے :
’’ اگر ایک چیز نازک اور خوبصورت ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں یہ پھول ہے، لیکن اگر خود پھولوں کے لیے کچھ کہنا چاہیں تو انھیں کس چیز سے تشبیہ دیں ۔حقیقت یہ ہے کہ زبانِ درماندہ کو یارائے سخن نہیں اور خاموشی کے بغیر چارۂ کار نہیں۔حسن کی جلوہ طرازیاں محویت کا پیام ہوتی ہیں، خامہ فرسائی اور سخن آرائی کا تقاضا نہیں ہوتا۔‘‘
یہ صرف ایک شہ پارہ ہے ،وگرنہ خط پہ خط پڑھتے جائیے اور قلب و دماغ کو سحرزدہ اور روشن کرتے جائیے۔
چڑیاچڑے کی کہانی‘ (خط نمبر19-20)ایک ادبی فن پارہ ہے جس میں وصف نگاری دقتِ مشاہدہ کردار نگاری کو ایسی شگفتگی اور وجدان کے ساتھ آزاد نے برتا ہے کہ دل تاثر کے جذبات سے محروم نہیں رہ سکتا ، بین السطور میں اقوالِ زریں، اور جواہر ریزے بھی پروئے گئے ہیں جو صرف قوتِ انشاپردازی سے ممکن نہیں، بلکہ زندگی کے تجربات اور حیات و کائنات میں جذبِ دل اور فکر دقیقہ سنج کی مدد سے مشاہدہ اور غور کرنے سے وارد ہوتے ہیں۔انشا ئیہ بنیادی طورپراس شعرکے مصداق ہوتاہے روبہ کاری کو زنداں بلادِشرقیہ دقیقہ سنج 
مپرس تاچہ نوشت ست کلکِ قاصرما
خطِ غبارِ من ست ایں غبارِخاطرما
ہمارے قاصر قلم نے کیا لکھا ہے یہ مت پوچھ کہ مرے دل کا غبار (رنج و کدورت اور ملال) ہی خطِ غبار کی صورت میں ظاہر ہے۔(یعنی ہمارے دل پرجو کچھ گزری ہے وہی ہماری تحریر میں ہے)خطِ غبار ۔ ایک خط کا نام ہے جیسے نستعلیق ، وغیرہ 
(دیکھیے فرہنگ آصفیہ میرعظمت اللہ بلگرامی،سروِ آزاد 315-325،نزہتہ الخواطر: 6:182-183)
بہرحال مولانا کا اپنے خطوط کے مجموعے کا نام غبار خاطررکھنا اوراس میں اس جیسی تحریروں کے نقش ونگاراورگل بوٹے ٹانکنا ان کی اعلی درجے کی انشائیہ نگاری کا ثبوت ہے ۔
خواجہ حسن نظامی :خواجہ حسن نظامی حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ میں 25دسمبر1878کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ خواجہ صاحب کی پرورش صوفیانہ ماحول میں ہوئی انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی،اپنے طورپرتعلیم حاصل کی۔ آپ کواردو،عربی،فارسی میں خاصی دسترس حاصل تھی ان کی صحافتی زندگی کاآغاز روزنامہ ’رعیت‘ سے ہوا۔اخبارمنادی میں ان کاروزنامہ شائع ہوتارہا۔انھوں نے خودمیرٹھ سے ایک اخبار ’توحید‘نکالا۔
خواجہ صاحب اچھے اورمنفردانشاپردازتھے سیاسی لیڈربھی تھے اوربے باک مقرراورخطیب بھی ۔ 1955میں وفات پائی ان کی تصانیف چالیس کے لگ بھگ ہیں :
سی پارہ دل،بیگمات کے آنسو،غدردلی کے افسانے،مجموعہ مضامین حسن نظامی، طمانچہ بررخسارِیزید وغیرہ مشہورہیں۔
ان میں خصوصیت کے ساتھ سی پارہ دل کو ان کے انشائیوں کا مجموعہ ہی خیال کرنا چاہیے۔جس میں جھینگرکاجنازہ ،الو ،دیاسلائی ،آنسوکی سرگذشت اور ’گلاب تمھاراکیکر ہمارا‘ وغیرہ جیسے معمولی اورغیر اہم موضوعات پرا نھوں نے جن فکر انگیز خیالات کوپیش کیا اور جس طرح نئے پہلوتراشے ہیں اور نیا زاویہ نظر پیداکیا ہے وہ بیحد اہم ہے اور انھیں انشائیہ کا بیش قیمت ذخیرہ تصورکیاگیاہے ۔
گلاب تمھاراکیکر ہمارا‘ سے اقتباس دیکھیں :
گلاب کی ٹہنی میں کیارکھا ہے ایک کمزور لچکنے اورٹوٹ جانے والی شاخ ہے ،جس کا آج کل کے شہزاور زمانے میں بقول ڈارون رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔یہ وقت ان کی زندگانی کاہے جوایام کا مقابلہ کرسکتے ہیں جن کے اعضا دوسروں کے کام آسکتے ہیں۔ کیکرکا پھول ہفتوں سورج کا مقابلہ کرتاہے اورآج کل تعریف اسی کی ہے جو دشمن کے مقابلے میں زندہ سلامت رہے۔‘‘
)سی پارہ دل :گلاب تمھاراکیکر ہمارا (
ا س دلچسپ ا نشائیہ کے بعدیہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ خواجہ حسن نظامی نے مضامین ہی تحریر کیے ہیں انھوں نے شعوری طورپر انشائیے نہیں تحریرکیے۔ اس لیے ان کے انشائیوں میں انشائیہ کے اصولوں میں سے دو اہم اصولوں کا فقدان ملتا ہے ۔ بقول وزیر آغا ’حسن نظامی کے مضامین میں انشائیہ کی دواہم خصوصیات کا فقدان ہے۔ ایک توان مضامین کالہجہ انشائیہ کے لہجے سے ہم آہنگ نہیں ، دوسرے ان میں مصنف کی اپنی ذات یا شخصیت اجاگرنہیں ہوئی۔‘‘
)وزیرآغا،خیال پارے صفحہ نمبر18(
رشید احمدصدیقی : رشید احمدصدیقی کی مزاح نگاری جن محاسن اورعناصرسے عبارت ہے ان میں انشائیہ کی بھی کئی خصوصیات سمٹ آئی ہیں۔ان کے مضامین میں’’ارہرکا کھیت ،چارپائی ،علی گڑھ کا دھوبی وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔
سیداحمدشاہ پطرس بخاری : پطر س بخاری کی اس میدان میں واحد تصنیف ’پطرس کے مضامین‘ ہیں جس میں 11مضامین ہیں جو اس طرح ہیں :
ہاسٹل میں پڑھنا،سویرے جوکل آنکھ میری کھلی ،کتے،اردوکی آخری کتاب،میں ایک میاں ہوں، مریدپورکاپیر، انجام بخیر،سینماکاعشق،مرحوم کی یادمیں اورلاہور کا جغرافیہ وغیرہ ۔ا س کتاب کے دیباچے سے ہی ا س کے انشائی حسن کا اندازہ کیاجاسکتاہے ملاحظہ کیجیے :
’’اگریہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تومجھ پراحسان کیاہے،اگرآپ نے کہیں سے چرائی ہے تومیں آپ کے ذوق کی داد دیتاہوں،آپ نے پیسوں سے خریدی ہے تومجھے آپ سے ہمدردی ہے۔اب بہتریہی ہے کہ آپ اس کتاب کواچھا سمجھ کراپنی حماقت کوحق بہ جانب ثابت کریں۔ ‘‘
)پطرس کے مضامین نئی کتاب گھر،دہلی(
ان کے انشائیہ کتے سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں :
’’کتا ایک وفادار جانورہے ۔ اب جناب وفاداری اگراسی کانام ہے کہ شام کے سات بجے جوبھونکنا شروع کیاتولگاتار بغیر دم لیے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے توہم لنڈورے ہی بھلے۔ کل ہی کی بات ہے کہ رات کے گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جوذراگدگدائی توانھوں نے باہر سڑک پرآکر’’طرح‘‘ کا ایک مصرع دے دیا۔ایک آدھ منٹ کے بعدسامنے کے بنگلے سے ایک کتے نے مطلع عرض کردیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جوغصہ آیا،ایک حلوائی کے چولھے سے باہرلپکے اورپوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔اس پرشمال مشرق کی طرف سے ایک قدرشناس کتے نے زوروں کی داددی ۔اب توحضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھیے ۔کمبخت بعض تو دوغزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے ۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے پڑھ ڈالے۔‘‘ (کتے پطرس بخاری ۔(
کرشن چندر : کرش چندرکی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے پیمانے چھلکانے کے بجائے پوراپورا سمندرودریا موٹی موٹی کتابوں کی شکل میں رواں کردیے ہیں۔ایک گدھے کی سرگزشت، ایک گدھے کی واپسی اورایک گدھا نیفا میں۔ان ناولوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کرش چندرنے اپنی ان تحریروں میں کیاکیاگل بوٹے کھلائے ہیں اوررنگا رنگ دنیاآباد کی ہے۔
مشتاق احمدیوسفی : مشتاق احمدیوسفی کا کمال یہ ہے کے عام سی غیر اہم بات کے نئے پہلویا زاویہ پرروشنی ڈال کراس کی جانب اشارہ کرکے ہمیں چونکادینا اورمعصومیت سے آگے بڑھ جانا۔یوسفی اِس عہد کے ان زندہ دل انشائیہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں جن کے انشائے وسعت فکرمعلومات اورطنز ومزاح سے بھرے پڑے ہیں جن میں لطافت اوردلکشی کا وہ عالم ہوتاہے کہ پڑھنے والا ایک بار شروع کرکے پوری تحریر مکمل کیے بعیر دم نہیں مارتا۔آب گم میں شامل’ چراغ تلے‘ سے ایک اقتباس دیکھے
’’مجھے احساس ہے کہ ا س ننھے سے چراغ سے نہ کوئی الاو بھڑک سکااورنہ کوئی چتا دہکی،میں تواتناہی جانتا ہوں کہ اپنی چاک دامنی پرجب اورجہاں ہنسنے کوجی چاہا ہنس دیااوراب اگرآپ کو بھی اس ہنسی میں شامل کرلیا تواس کو میں اپنی خوش قسمتی تصور کروں گا۔‘‘
ان کے چند انشائیے ا س طرح ہیں : پڑیے گربیمار ،صنف لاغر،اورجنون لطیفہ وغیرہ بے حد اہم ہیں۔
اب تک ہم نے جن اشخاص پرروشنی ڈالی ہے ان کے یہاں انشائیہ کے خدوخال محدودمعنی میں ہی موجودہیں سوائے مشتاق احمدیوسفی کے۔آئیے اب حقیقی یاعصری انشائیہ کی جانب عملی قدم بڑھانے اور اس کی روایت کو مستحکم کرنے والوں میں سے چندکا مختصرمگرجامع حال معلوم کرتے ہیں۔ 
ڈاکٹر وزیرآغا : انشائیہ کے عہدزریں کا آغاز ڈاکٹروزیرآغا سے ہی ہوتاہے مذکورہ تمام ناموں میں وزیرآغاکانام انشائیہ کے اصول وضوابط متعین کرنے اوراس صنف کوبحیثیت صنف کے برتنے اوررائج کرنے کے حوالے سے یہ نام سب سے اہم نام ہے۔انھوں نے ہی انشائیہ کواس کی اصل پہچان دلوائی اورانشائیہ کو عصری بنیادوں پرگفتگوکا موضوع بنایا اس مقصدکے لیے’ انشائیہ کے خدوخال‘ کے عنوان سے ایک مکمل اورجامع کتاب تحریر کرکے انشائیہ کا دستورمرتب کیا اور خودبھی ان اصولوں کی بنیادپرانشائیہ تحریرکیے۔ ان کے انشائیوں کاپہلا مجموعہ خیال پارے کے نام سے منظرعام پرآیاجس میں 25 انشائیہ ہیں۔حقہ پینا ،آزادی ،آندھی، اورپل وغیرہ ان کے اچھے انشائیے شمارے کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کی دوسری کتاب چوری سے یاری تک اوردوسراکنارہ بھی انشائیوں کا مجموعہ ہے اوربے حد مقبول ہیں۔’حقہ پینا‘ سے ایک اقتباس دیکھیں :
’’سگریٹ پینا ثقافت کی روسے ایک بے ثمر عمل ہے کیونکہ یہ انسان کوہوا میں تحلیل کردیتا ہے جب کوئی سگریٹ سلگاتاہے تو سگریٹ کے مرغولوں کے ساتھ تخیلات کی ایک دنیاآباد کرلیتاہے کہ اسے گروپیش کا ہوش نہیں رہتا۔سگریٹ توہائڈروجن گیس سے بھراہواوہ غبارہ ہے جوانسان کوآسمان کی طرف اڑالے جاتاہے اورزمین اس کے پاؤں تلے سے نکل جاتی ہے جب کہ حقہ اسے زمین کی سوندھی سوندھی باس سے آشنا کرتاہے اورزندگی پر اس کی گرفت مضبوط ہوجاتی ہے۔ ‘‘
انورسدید : ڈاکٹرانورسدیدنے اردوانشائیہ کومتعارف کروانے اوراس کی شناخت کے لیے جو خدمات انجام دیں ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں گرچہ وہ بنیادی طورپرناقدتھے۔ پیشے سے اگزکیوٹوانجینئر تھے ۔انھوں نے سفرنامہ ، انشائیہ اور افسانے بھی تحریر کیے ساتھ ہی اردوکی بعض اصناف پران کی کتابیں خصوصاََ انشائیہ پران کی کتاب’انشائیہ اردوادب میں‘ان کی تخلیقی،تنقیدی اورتحقیقی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے ۔ان کے انشائیے دسمبر، مچھرکی مدافعت میں،مونچھیں،شور،غلطی کرنا،تاروں بھری رات اورذکراس پری وش کا ‘ انشائیہ کے عمدہ نمونے اورانشائیہ لکھنے والوں کے لیے مشعل راہ کی حییثت رکھتے ہیں۔ان کے انشائیوں میں مختلف طرح کی ندرت، اظہار کے مختلف ذرائع کوسلیقے سے اپنا کر انشائیوں میں کہیں شاعرانہ احساس توکہیں افسانوی اورڈرامائی رنگ کے ساتھ ساتھ طنزومزاح کے عمدہ نمونے جابہ جانظرآتے ہیں ۔’کرکٹ ‘سے ایک اقتباس پیش ہے :
’’کرکٹ میں گیندایک پری وش کی سی خندہ جبینی کے ساتھ کھلاڑی کی طرف آتاہے لیکن کھلاڑی اسے ایک برہمچاری کی طرح منہ نہیں لگاتااوربڑی بے اعتنائی سے ٹھوکرلگاکراسے پرے پھینک دیتاہے۔ کرکٹ کا کھلاڑی اس یوسف کی طرح ہے جس کے بھائی اسے میدان میں تنہاچھوڑکرجاتے ہیں اورخود پویلین میں بیٹھ کرچلغوزے کھاتے اورتماشادیکھتے ہیں۔گیندکی زلیخا اس پرپے درپے حملہ آورہوتی ہے اوروہ اس سے اپنا دامن بچانے کے لیے کبھی وکٹوں کی شمالی قلعے کی طرف بھاگتاہے اورکبھی جنوبی حصارمیں پناہ تلاش کرتاہے،کرکٹ میں آج تک کسی بیٹس مین نے گیند پرقابض ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ جوکھلاڑی گیند کو جتنا دورپھینک سکے اتناہی ماہراورپختہ کارشمارہوتاہے۔گیندکوباؤنڈری سے پرے پھینکنے والا کھلاڑی تووکٹوں کے درمیان دوڑنا بھی ضروری نہیں سمجھتابلکہ وہیں کھڑاکھڑاتماشائیوں سے داد حاصل کرتارہتاہے‘‘۔
( ماہنامہ اوراق ،خاص نمبر،دسمبر،1983 صفحہ ،219)
احمدجمال پاشا : احمدجمال پاشا بنیادی طورپرطنزومزاح کے آدمی تھے ان کا انشائیہ بھی طنزومزاح ہی کے بطن سے وجودمیںآتا ہے ۔ ان کے انشاےئے’ بلیوں کے سلسلے میں،شور ،ہجرت اوربے ترتیبی‘ وغیرہ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ انشاےئے یعنی عصری انشائیے کے قریب ترہیں۔اسی لیے انورسدیدلکھتے ہیں :
’’چنانچہ یہ کہنادرست ہے کہ طنزومزاح سے انشائیہ کی طرف پیش قدمی احمدجمال پاشاکاایک خوش آئند قدم ہے اوراس صنف میں چندعمدہ پارے پیش کرکے انھوں نے تھوڑے سے عرصے میں قابل فخرمقام حاصل کرلیا۔‘‘
)انشائیہ اردوادب میں ڈاکٹرانورسدید:صفحہ ،268(
احمدجمال پاشاکا ماحول طنزومزاح کی شگفتگی اوراس کی لطیف قدورں کا آئینہ دار ہے ۔
ممتازمفتی،نظیرصدیقی نے بھی عمدہ انشائیے تحریرکیے ان کے علاوہ ان اشخاص وشخصیات کے نام جنھوں نے اردوانشائیہ کے بال وپردرست کیے اوراس کی روایت کومستحکم کیا اوران میں سے آج بھی بہت سے اپنی تخلیقی کاوشیں پیش کررہے ہیں۔ان کے نام ا س طرح ہیں۔ داؤدرہبر،غلام جیلانی اصغر،مشتاق قمر،جمیل آذر،جاویدصدیقی،مشکورحسین یاد،سلیم آغاقزل باش،کامل القادری،رام لعل نابوی،سلمان بٹ،خالدپرویز صدیقی،انجم انصار،اکبرحمیدی، ارشدمیر، طارق بشیر،حامدبرگی، شہزاداحمد، محمداسداللہ،اقبال انجم ،مشرف احمد،راجاریاض الرحمان،شمیم ترمذی،جان کاشمیری، بشیرصیفی، محمداسلام تبسم ،محمدیونس بٹ اورناصرعباس نیروغیرہ ۔
اس مختصرسے مضمون میں انشائیے پرجتنی روشنی ڈالنی ممکن تھی ڈالی گئی ا س میں نہ صرف انشائیہ کے خدوخال کوواضح کیاگیا بلکہ اس کی تعریف وتعارف کوواضح کرتے ہوئے انشائیہ کے مختلف ادوارکے مصنفین کے ادبی نمونے بھی آپ کے پیش نظرآئے، امیدہے کہ اس شگفتہ صنف سے آپ کی دلچسپی میں مزیداضافہ ہواہوگا۔ 

بہ شکریہ : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان


Mohd. Adam
Assistant Professor (Contractual)
Department of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi-110025
Mobile : 9871716440


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو