نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

باکمال شاعر۔ حسرت موہانی از ڈاکٹر شکیلا گوری خان


BA-KAMAAL SHAYER - HUSRATH MOHANI  
        
Dr.Shakeela. M. Gorikhan
Asst Professor/Co-ordinator
Dept of Urdu & Persian,
Karnatak University,Dharwad.

باکمال شاعر۔ حسرت موہانی از ڈاکٹر شکیلا گوری خان
      مولاناحسرت موہانی1880ء میں اتر پردےش کے ضلع اناّ میں پےدا ہوئے۔1893ئ میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔ حسرت اپنا مشہور رسالہ ” اردوئے معلی “ علی گڈھ سے نکالا کرتے تھے۔ آپ نے ۳۱ مئی1951ئ کو لکھنو میں وفات پائی۔
   مولانا حسرت موہانی اپنی شاعرانہ ہمہ جہتی اور سیاسی فکر و نظر کے لحاظ سے ہمےشہ موضوعِ سخن رہے ہیں۔ حسرت کا دور ایک طرف ہندوستان کی غلامی اور آزادی و جد و جہد کی کشمکش کا دور ہے تو دوسری طرف ےہ دور علمی و ادبی تبدےلےوں کا بھی دور رہا ہے۔نظم نگاری کی چڑھتی جوانی تھی جو غزل کے حسن کو مات دےنے پر تُلی ہوئی تھی۔ اےسے ماحول میں حسرت کے احساسِ شعور پر کاری ضرب پڑ رہی تھی۔ حسرت جو کہ فطرتاً نرم مزاج اور پرُ خلوص تھے، ان کا مذاقِ شعری عاشقانہ و محبوبانہ تھا۔ ان حالات سے بہت متاثر ہوئے۔ان کا حساس دل بے چین ہو گیا۔وہ شاعر ِ دل نواز تو تھے ہی اس رنگِ سیاست کو بھی انہوں نے اپنا لیا۔ حسرت کا ظاہر و باطن ایک تھا وہ جو دےکھتے تھے اسے اچھی طرح سمجھ کر اظہارِ خیال کرتے تھے۔ ان کی شخصےت کی تصوےر کشی کرتا ہوا ان کا ےہ شعر ملاحظہ ہو۔
        ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
        اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبےعت بھی  (دےوانِ حسرت،حصہ اول ۔صفحہ۵۵)
    حسرت نے اےسے وقت میں غزل کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دیا جب ہر طرف ےہ صنفِ سخن حقارت آمیز نظروں کا سامنا کر رہی تھی۔ حسرت نے اپنی شوخی طبع، رنگےنی مزاج اور رواےتی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اسے نئے رنگ و روغن سے ضرور سجاے ۔ انہوں نے غزل کو تغزل کی چاشنی سے ہمکنار کر کے آنے والے دور کے لئے ایک یہ سا راستہ استوار کیا جس پر چل کر جدےد دور کے شعراءنے غزل کی ساکھ کو اور بھی مضبوطی عطا کی۔
     حسرت غزل کے شاعر ہیں اور بےسوےں صدی میں غزل کے جدےد رنگ کا آغاز ہوا تو غزل کو لطافت، بلندی اور صحیح تغزل سے آشنا کرنے والوں میں حسرت کا نام سرِ فہرست ہے۔ اور جدےد اردو شاعری میں جو ایک رومان پسند رجحان ابھر کر سامنے آتا ہے اس کے سب سے بڑے علم برداروں میں بھی حسرت کا نام لیا جاتا ہے۔ بلا شبہ حسرت کے یہاں محض رومان پرور خیالات ہی نہیں ملتے بلکہ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے رومان اور جذبات کو حقےقت و واقعےت کے رنگ میں پوری طرح رنگ دیا۔ ان کا کلام (خصوصاً غزل) میں حزن و ملال کا عنصر کہیں نہیں ملتا۔ بلکہ ان کی ساری غزلےں مسرت و شادمانی ، نشاط ہی نشاط اور عزم و حوصلے سے بھری پڑی ہیں۔ ےہی وجہ ہے کہ ان کے ےہاں ایک عجےب لطف اور حسن کا احساس ہوتاہے۔
    شاعری تصوف اور سیاست ان کی شخصےت کے تےن بنیادی پہلو ہیں۔ شاعری ان کا ” ذخےرہ

¿ شوق“ ہے چکی کی مشقت میں بھی مشقِ سخن جاری رہتی ہے۔ مزاج کے اعتبار سے وہ صوفی ہیں۔ وہ ہر جگہ خلوص کی تلاش کرتے ہیں۔ کفر و اسلام کے ظاہری ڈھانچوں سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ سیاست اس بندہ

¿ آزاد کے آدرش پرستی کو ظاہر کرتی ہے جس نے انہیں ہمےشہ ہجوم میں تنہا رکھا۔ ان کی شخصےت کی کج کلاہی، ان کی مجاہدانہ روش، ان کی قلندرانہ بے نیازی اور ان کی رشےوں کی سی سادگی اور وضعداری کا مظہر ےہ شعر ملاحظہ ہو۔
        سب سے منھ موڑ کے راضی ہیں تری یاد سے ہم  
       اس میں اک شانِ فراغت بھی ہے راحت کے سوا (دےوانِ حسرت،حصہ چہارم ۔صفحہ۹۶۱)
    حسرت کے دواوےن کا سرماےہ تقرےباً چھ ہزار اشعار ہر مشتمل ہے۔ ان کی عشقےہ شاعری واردات قلبی کی شاعری ہے۔ ان کی غزل میں سچے جذبات، لطےف کےفیات و واردات کی ترجمانی لکھن کی ترشی ہوئی زبان میں ہوئی ہے۔حسرت کی زبان بلاشبہ لکھن کی معیاری زبان ہے اور ان کا تغزل دہلی کا صحےح اور سچا تغزل ہے۔ خود حسرت کو اس بات کا اعتراف ہے کہ۔
        ہے زبانِ لکھن میں رنگ ِدہلی کی نمود 
        تجھ سے حسرت نام روشن شاعری کا ہو گیا  (دےوانِ حسرت،حصہ اول ۔صفحہ۴۲)
  حسرت کا کارنامہ ےہ ہے کہ انہوں نے غزل کو اس کی سادگی اور پرکاری پھر سے عناےت کی اور اسے صناعی اور بے جا تکلف سے آزا د کیا۔ حسرت نے اردو غزل کے حزنےہ لےَ کو بدلا، غزل کے اشعار کو مرےضانہ غم پرستی سے نجات دلائی۔ ےہاں تک کہ غم کے فطری جذبات کا اظہار بھی ایک نشاطیہ انداز میں کیا۔ غمِ جاناں ہو یا غمِ قےد ِ فرنگ ہر جگہ ان کی بے نیازی نے غم کو نشاط میں بدل دیا ہے۔
      
        خوشی سے ختم کر لے سختیاں قےدِ فرنگ اپنی  
        کہ ہم آزاد ہیں بےگانہ رنج ِ دل آزاری (دےوانِ حسرت،حصہ اول ۔صفحہ۵۵)
 بقول مجنوں گورکھپوری ” حسرت کسی فطری صورتِ حال سے فطری لذت حاصل کرنے کی بڑی فطری صلاحےت رکھتے تھے۔“ حسرت کی شاعری میں حسن و عشق کا تصور رواےتی اور افسردہ نہیں ہے ۔ حسرت کی غزل میں محبوب کے حسن و جمال کا تذکرہ لطےف ترےن جمالیاتی احساس کا حاصل ہوتا ہے۔ ان کے جذبات سچے اور اظہار پر خلوص ہے۔ ان کے لہجہ کا بھولا پن ان کے اشعار کو پرُ اثر بناتا ہے وہ اپنے ذاتی تجربات میں سب کو شرےک کر لےتے ہیں۔
        تمنا نے کی خوب نظارہ بازی 
        مزا دے گئی حسن کی بے شعوری   (دےوانِ حسرت،حصہ ششم۔صفحہ۷۴۲)
 پروفےسر خواجہ احمد فاروقی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
   حسرت کی جنسی شاعری میں ایک تقدس اور طہارت ہے جس کی مثالےں اردو شاعری
    میں بہت کم ملتی ہیں اس عشق میں غےرت و خودداری ہے، گھر کی فضا اور مشرقی شائستگی
    کی ظلمتوں میں روشنی پےدا کر دےتی ہے، جےنے کا حوصلہ بڑھا دیتی ہے اور بارِ حیات کو ہلکا کر دےتی ہے۔
  حسرت کے ےہ اشعار اس اقتباس کی تصدےق کر تے ہیں۔
       دل میں کیا کیا ہوسِ دےد بڑھائی نہ گئی  
       روبرو ان کے مگر آنکھ اٹھائی نہ گئی  (دےوانِ حسرت،حصہ اول ۔صفحہ۳۷)
       سونگھی تھی جو اک بار وہ خوشبوئے گرےباں 
       اب تک ےہ اسی بوئے گرےباں کا نشہ ہے (دےوانِ حسرت،حصہ یازدہم ۔صفحہ۷۴۳)
       حسن بے پروا کو خود بےن و خود آرا کر دیا
       کیا کیا میں نے کہ اظہار ِ تمنا کر دیا (دےوانِ حسرت،حصہ اول ۔صفحہ۹۱)
        نہیں آتی تو یاد ان کی مہےنوں تک نہیں آتی 
       مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں(دےوانِ حسرت،حصہ اول ۔صفحہ۹۴)
         تجھ کو پاسِ وفا ذرا نہ ہوا 
        ہم سے پھر بھی ترا گلا نہ ہوا (دےوانِ حسرت،حصہ دوم ۔صفحہ۴۸)
  عشق چونکہ ذاتی کےفےت و قلبی واردات کا دوسرا نام ہے۔ حسرت کا عشق اسی دنیا کا عشق ہے انہوں نے عشق و عاشقی کی راہ میں وہ تمام تجربات کئے ہیں جو حسن و عشق کے معاملات کہلاتے ہیں۔ اور ان کے معاملاتِ حسن و عشق میں ایک سر بلندی و سچائی ہے۔
     حسن و عشق کی حکاےتےں شعرائے تغزل کا محبوب موضوع رہاہے روزِ ازل سے عشق، حسن کی تلاش میں ہے ےہ کائنات اسی عمل اور ردِ عمل کا نتےجہ ہے۔ حسرت سخن سنج بھی تھے سخن فہم بھی، ان کے شعر کہنے کا انداز فطری تھا، اردوئے معلی رسالے سے وابستہ ہونے کے سبب زبان اور طرزِ بیان میں طاق تھے اور اس کے رموز سے آشنا، حسرت نے غزل کے خالص رنگِ تغزل کو پےش کیا اور اس کا تانا بانا کلاسےکی رواےت کے ساتھ ملا کر ُبنا۔ حسرت نے ۰۲ وےں صدی کے ماحول میں غزل کی رواےت کو سمو دیا اور ےہ تغےرات ِ زمانہ سے ہم آہنگ ہو گئی۔ ان کا بڑا کارنامہ ےہ ہے کہ انہوں نے ہماری جدےد شاعری کا رشتہ ہمارے کلاسےکی ادب سے جوڑ دیا۔ قدیم شعراءکے ےہاں عاشق اور محبوب کا تعلق کشمکش کا شکار رہا ہے۔ حسرت نے اس سے انحراف کیا ان کے نزدےک عاشق بھی محبوبےت کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔ ےہی احتراِمِ محبت ان کے ہاں تہذےبی اقدار میں ملتی ہے۔ ےہ وضعداری حسرت کی انفرادےت ہے۔
    حسرت کے مزاج میں سادگی پسندی ہے، اسی لےے ان کے کلام میں سہل ممتنع بدرجہ اتم موجود ہے۔
        شعر دراصل ہیں وہی حسرت  
        سنتے ہی دل میں جو اتر جائے
  حسرت کا تغزل رنگ و خوشبو سے بسا ہوا ہے۔ حسےن و لطےف موضوعات ِ شعری ان کے طرزِ ادا کا حصہ ہیں۔ حسرت نے عشق ِ مجازی کو بڑی چابکدستی سے برتا ہے۔
       بنے وہ رونقِ محفل جس انجمن میں رہے 
       رہے بہارِ چمن ہو کے جس چمن میں رہے (دےوانِ حسرت،حصہ یازدہم ۔صفحہ۶۴۳)
 وہ شاعرِ بے مثال ہیں اور اپنے خیال میں ابھرنے والی تصوےروں کو خد و خال عطا کرتے ہیں۔ حسرت زندگی کی کشمکش کے نہ عادی تھے نہ اسے خود پر سوار کرتے تھے انہوں نے زندگی کے حقائق کو بھی محبت کے روپ دے دئےے اور سادگی خیال سے اسے آراستہ کر کے اپنے کلام میں سمو دیا ہے۔
        دلوں کو فکرِ دو عالم سے کر دیا آزاد   
        ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے (دےوانِ حسرت،حصہ اول ۔صفحہ۲۵)
 حسرت کے ہاں عشق کے سادہ تجربات ہیں جو سادہ اور سچا رستے پر چل کر اپنی جذباتی آسودگی کو پا لےتے ہیں۔ حسرت نے غزل کو اس کا کھویا ہوا بانکپن واپس لوٹا دیا ہے۔حسرت کا کلام عہدِ غلامی کی پےداوار ہے تحرےکِ آزادی کے رہنما ہونے کے باعث ان کے خیالات کی شدت اور انقلابی مزاج نے انہیں انتہا پسند کر دیا تھا۔ مسلسل جد و جہد اور عمل ِ پےہم نے ان کی شخصےت میں ہمہ جہت تبدےلیاں رونما کےں۔ جس کے اثرات ان کی شاعری پر بھی پڑے۔ اس عہد کے دےگر لکھنے والوں کی طرح حسرت نے اپنے قلم سے ہتھیار کا کام لیا تا کہ اس کے زور پر غلامی سے نجات حاصل ہو سکے۔ غفلت کے اندھےرے چھٹ جائےں اور مسلمان ایک پلےٹ فارم پر جمع ہو جائےں۔ ےہی وہ وقت ہے جب حالی، آزاد اور شبلی نے نظم نگاری کی تحرےک کے ذرےعے آزادی اور سیاسی تشخص کو ابھارنے کے خیالات کی تشکیل کی طرف زور دیا۔ اور حالی نے ” مقدمہ شعر و شاعری“ لکھ کر شاعری کی مقبول صنف غزل میں فکر کی تبدےلی کی ضرورت پر زور دیا۔
    اُدھر ےہ صورت ِ حال تھی اور اِدھر حسرت نے سیاسی حالات کو شعری زاوےہ

¿ فکر میں ڈھال کر پےش کر نا شروع کیا تو سیاست اور تغزل کا ملا جلا رنگ سامنے آیا۔ حالات کی تبدےلی نے ان کے تغزل میں نئی جہت کا آغاز کیا۔
    حسرت کے شعری سفر میں اس تغیر نے ایک اہم موڑ پےدا کیا اور وہ غم ِ جاناں سے غمِ روزگار کی طرف متوجہ ہو گیے۔ اور حسرت نے اپنے نظریات و افکار کو شاعری کے ذریعہ وقت کے دھارے کو بدلنے کی کوشش کی۔ اسی لئے انہیں رہنمائے ملت اور مصلح قوم بھی قرار دیا گیا۔ ےہ وقت جد و جہد ِ آزادی کا تھا۔ ہر طرف انقلابی نغمے گونج رہے تھے۔ حسرت نے بھی ایک منفرد لب و لہجہ کے ساتھ اپنی شاعری سے ہتھیار کا کام لیا۔ عمل و ےقےن کی لہر ےں دلوں میں پےدا کےں۔ حسرت چونکہ شاعرِ تغزل تھے وہ جب سیاست کی بات کرتے تو انکے لفظوں کا رنگ کچھ اسطرح ہوتا:
      خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد   
      جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے (دےوانِ حسرت،حصہ اول ۔صفحہ ۲۵)
 اوروہ اس لےے ہوتا کہ وہ اپنے مزاج کی نفی نہیں کر سکتے۔ ےہی رنگ حسرت کے تغزل کی شان ہے ۔ حسرت عاشقانہ انداز میں زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں جٹے رہے۔ وہ سراپا عشق تھے۔ حسرت کے ےہاں دوسرے غزل گو شاعروں کی طرح گرےہ و زاری اور ماتم گساری نہیں ہے۔ ان کا عشق پاک باز تھا۔ لذت پرستی اور ہوس کاری سے پاک تھا۔ حسرت نے اپنی عشق بازی کے ساتھ پارسائی کی وضع بھی خوب نبھائی۔ اور ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھا کہ شعر میں اپنے جذبے کی اصلےت کو نقصان نہیں ہونے پائے۔
     حسرت کی غزل سرائی عشق و محبت کی قلبی وارداتوں اور اسکی جاودانی کےفےتوں کی داستان ہے۔ ان کے نزدیک زندگی محبت سے عبارت ہے۔ انہوں نے اپنے کلام میں عشق و محبت کے مختلف مدارج کو بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ وہ جس چےز کو عشق کہتے ہیں وہ اخلاصِ انسانی اور مجازی عشق ہے۔ ان کی شاعری جذبات کی شاعری ہے نہ کہ تصورات کی:      عشق ہر چند رامِ حسن رہا    
          پر نہ چھوٹی برابری کی ہوس (دےوانِ حسرت،حصہ ہشتم ۔صفحہ۴۸۲)
 حسرت کے ےہاں عشق و حسن طالب و مطلوب کی صورت اختیار کر لےتے ہیں۔ ان کا محبوب نسوانی محاسن کا مجسمہ ہے۔ ان کے بیان کی خارجےت میں جذبے کی داخلےت رہتی ہے جس کی بدولت انہوں نے اردو غزل میں ایک نیا آہنگ اور ایک نیا رنگ پےدا کر دیا ہے۔ ان کے تغزل میں امےد و نشاط کی آمیزش ہے ان کا سارا کلام غنائےت کے کےف و سرورمیں ڈوبا ہوا ہے جو بلا کا اثر رکھتا ہے۔
        قوتِ عشق بھی کیا شے ہے کہ ہو کر ماےوس  
       جب کبھی گرنے لگا ہوں میں، سنبھالا ہے مجھے(دےوانِ حسرت،حصہ چہارم ۔صفحہ۹۸۱)
  حسن و عشق کی مختلف وارداتےں اور ان کی نفسیات حسرت کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں۔ جےسے ہجوم ِ شوق میں عاشق کی نےرنگےوں کا جلوہ، ہجر کی کلفتوں میں دےدار کا مشتاق، محبوب کے تغافل سے پرےشان ہونا۔ عزائم میں ناکامیابی، پھر دل کو ےہ کہہ کر حوصلہ دےنا کہ:
      کوئی عشق بازی کا مشغلہ نہیں کھےل اے دلِ مبتلا  
      مگر اب کیا ہے ےہ حوصلہ تو خوشی سے نازِ بُتاں اٹھا (دےوانِ حسرت،حصہ دوازدہم ۔صفحہ۳۵۳)
 حسرت کی معاملہ بندی میں جذباتی حقےقت تخےل سے ہم آمےز ہے۔حسرت کا عشق گو کہ عشقِ پاک باز ہے اسلےے ان کے محبوب کی شوخےوں میں شرےفانہ زندگی کی معصومےت جھلکتی ہے۔
       آئےنے میں وہ دےکھ رہے تھے بہارِ حسن  
       آیا مےرا خیال تو شرما کے رہ گئے  (دےوانِ حسرت،حصہ دوم ۔صفحہ۸۲۱)
       بزمِ اغیار میں ہر چند وہ بے گانہ رہے
       ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دبا کر چھوڑا (دےوانِ حسرت،حصہ نہم۔صفحہ۵۰۳)
  بقول ڈاکٹر ےوسف حسےن: جس طرح غالب کا عشق امےرانہ تھا اور مےر صاحب کا عشق فقےرانہ،اسی طرح حسرت کا عشق شرےفانہ ہے۔
   حسرت کی شرےفانہ احتیاط اور معصومےت اور احتیاطِ عشق ان کی جذباتی زندگی کی شدت اور گہرائی کی غمازی کرتی ہے۔ حسرت کے عشق کی تہہ میں آرزوں اور تمناں کے دھارے موجزن تھے جن کی تکمےل زندگی میں نہ ہو سکی تو وہ تحت الشعور میں یاد بن گئےں۔ اور ےہی یادےں حسرت کے ےہاں طرح طرح سے شعر کا جادو جگاتی ہیں۔
        وہ دن اب یاد آتے ہیں کہ آغازِ محبت میں 
       نہ چالاکی تجھے اے شوخ آتی تھی نہ عیاری  (دےوانِ حسرت،حصہ اول ۔صفحہ۴۵)
       یاد ہیں سارے وہ عےشِ بافراغت کے مزے 
       دل ابھی بھولا نہیں آغازِ الفت کے مزے (دےوانِ حسرت،حصہ اول ۔صفحہ۲۶)
       پھر تری یاد ہوئی موجبِ آرائشِ دل
       للہ الحمد پھر آباد ےہ وےرانہ ہوا  (دےوانِ حسرت،حصہ دوم ۔صفحہ۲۹)
 اےسے کئی اشعار ان کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں۔ ان کے جذباتی تجربے کی نوعےت بالکل انوکھی ہے۔ ےہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں ایک خاص انفرادےت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے عشق پاک باز کی بدولت اردو غزل کو بالکل ایک نئے قسم کے محبوب سے روشناس کیا ہے۔حسرت کے ےہاں جو تبدےلیاں نظر آتی ہیں وہ موضوع کی نہیں بلکہ فکر اور نقطہ نظر کی بھی تھےں۔ محبت جو کبھی عشق پردہ نشےن تک محدود تھی یا پھر بالاخانوں پر تکلفات سے بے نیاز نظر آتی تھی اسے حسرت نے حقےقت سے آشنا کر دیا۔ تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اردو غزل کا محبوب بھی عام عورتوں کی طرح ایک عورت ہے۔
    حسرت نے مختلف اساتذہ سے فےض اٹھایا اور ان کے کلام کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا جس سے حسرت کے شعری ذوق کی تربےت ہوئی۔ انہیں شعر کے محاسن و معائب کا اچھا علم تھا۔ اپنے تنقیدی شعور سے ےہ فن کے بارےک نکتوں تک پہنچ جاتے تھے۔ اپنے رسالے” اردوئے معلی “ کے ذرےعے شعری ادب کی تنقید کا ذوق ہوا ۔ ان کا بڑا کارنامہ ےہ ہے کہ انہوں نے ہماری جدےد شاعری کا رشتہ ہمارے کلاسیکی ادب سے جوڑ دیا۔
   حسرت کے کلام میں لکھنی اثر اور دہلوی رنگ کی آمےزش ہے۔ اور حسرت کے اس نئے امتزاجی رنگ میں جذباتی صداقت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔ ان کی غزل نے اردو شاعری کے لےے نئے امکانوں کی راہ کھول دی ہے۔ حسرت کا اسلوب عام فہم ہے۔ طرزِ بیان میں اندرونی کےفےت اور رچا ہے۔ اور کلام میں سوز و گداز کے مقابلے میں نشاطےہ رنگ غالب ہے۔

     ترے غم کی دنیا میں اے جانِ عالم   
    کوئی روحِ محروم راحت نہیں ہے (دےوانِ حسرت،حصہ ششم۔صفحہ۳۴۲)
     یاس ہے ماےوس کہ چشمِ امید    
     پھر تری جانب نگراں ہوگئی (دےوانِ حسرت،حصہ دوم ۔صفحہ۵۲۱)
 اسی طرح حسرت نے اپنے ساری زندگی قےد و بند میں گزارنے اور دنیا کی مصےبتوں کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے کلام میں کہیں بھی طنز یا تلخی کو جگہ نہیں دی۔ ےہ ان کی زندہ دلی اور وسعتِ قلب کے ساتھ ساتھ انسانےت پر اعتماد و بھروسے کا اظہار کرتا ہے حسرت کے خیال کی رعنائی اور بیان کی شستگی اور شگفتگی ہماری شاعری کا قےمتی سرماےہ ہے۔حسرت رئےس المتغزلےن ہیں ان کی شاعرانہ عظمت سے انکار ممکن نہیں۔
   حسرت نے اپنی ساری عمر سیاست میں گزاری، جنگ آزادی میں ایک اہم رول ادا کیا، قےد و بند کی مصےبتےں جھےلےں، اسکے باوجود آج سیاسی اعتبار سے حسرت کا نام زیادہ اہمےت نہیں رکھتا مگراردو زبان کے شےدائےوں میں آپ کا نام ہمےشہ زندہ رہے گا۔
(اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذےل کتابوں سے مد د لی گئی ہے۔)
  ۱) حسرت کی شاعری      : ڈاکٹر یوسف حسین
  ۲) غزل کا عبوری دور      : ڈاکٹر شےخ عقیل احمد
  ۳) اردو غزل کے عناصر اربعہ    : پروفیسر عائشہ سعید
  ۴) اردو شاعری مےر سے پروین شاکر تک  : قاضی مشتاق احمد
  ۵) اردو غزل “     مرتب : ، ڈاکٹر کامل قریشی
  ۶) پہچان اور پرکھ       : آل احمد سرور)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو