نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جون, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دو قطعات ۔۔۔۔۔

آغاز کررہاہوں فقط اس کے نام سے پرور دگار مالک کون و مکان کے رکھے زباں پہ اپنے سدا اس کا نام جو گزرے گا کامیاب وہ دونوں جہاں سے   لینا ہے ان کا نام بھی بالکل ادب کے ساتھ وہ ہے نبی بھی اور ہے وہ وجہ کائنات مرشد سمجھ ناپائیں گے احمد کا مرتبہ کیا مرتبہ ہے آپ کا قرآں ہے جن کی بات

نظم۔۔۔دغا باز بادل ! *ڈاکٹر مشتاق احمد ،دربھنگا (بہار )

نظم ۔۔۔دغا باز بادل ! *ڈاکٹر مشتاق احمد ،دربھنگا (بہار ) دہقان کی ویران آنکھیں  آسمان کو ٹک ٹکی لگاۓ  کب سے دیکھ رہی ہیں  کہ یہ گھٹا ٹوپ بادل  اب برسے گا ،تب برسے گا  پچھلے موسم میں  کسی گھن گرج کے بغیر  خوب برسا تھا ،ٹوٹ کر برسا تھا  مگر  اس موسم میں  یہ بادل  خاموش ،خاموش بھاگتا جا رہا ہے  تا حد نظر  بارش کے آثار نہیں ہیں  اور  کھیتوں میں نئی فصلیں  جلتی جا رہی ہیں  دہقاں کی امیدوں کے چراغ  بجھتے جا رہے ہیں ! Nzm...Daghabaz Badal Dahqan ki weeran Aankhen Aasman ko tak taki lagae  Kab se dekh rahi hain  Ke ye ghata top badal Ab barse ga tab barse ga  Ke pichhle mausam men  Khob barsa tha Tut kar barsa tha Kisi ghan garaj ke baghair Magar  Is mausam men  Yeh badal  Khamosh,khamosh Bhagta ja raha hai  Tahade nazar  Barish ke Aasar nahi hain  Aur Kheton men nai faslen  Jalti ja rahi hain  Dahqan ki ummidon ke chiragh Bujhte ja rahe hain ! ...........  Dahqan..farmers .kisan

کوزہ گر کی یاد میں ۔۔۔۔ مشتاق احمد دربھنگہ کی تازہ نظم

This is my twenty seventh poem of this lockdown, entitled "Kuzagar ki Yaad main"(Memory of a Ceramist) . Please stay safe. Please subscribe to my youtube channel: کوزوگر کی یاد میں وہ کوزہ گر . جو چاک پر گیلی مٹی کو اپنی انگلیوں کی جنبش سے کیسے کیسے روپ میں ڈھالتا تھا میری آن بوجھ پہیلی کے دنوں میں وہ مٹی  کا اک کوزه خوشیوں کا سمندر لئے ہوتا تھا چولہے پر چڑھی ہانڈی کو دیکھ کر شکم کی آگ خود بخود ٹھنڈی ہو جاتی تھی  پنگھٹ پرگھڑوں کی کھنک دلوں میں سرسوسر  باندھتے تھے دیوالی کی وہ ڈبیا  ذ ہن و دل کے اندھیرے کو روشن کرتی تھی مولوی صاحب کا وہ خاکی بدهنا درس احتیاط وحفاظت کے اسباق سکھاتے تھے دادی ماں کا آب جو روح کی پیاس بجھاتاتھا اس کوزہ گر کے ہاتھوں بھگوان کے بھی کئی روپ نکھرتے تھے مگر آج وہ کوزہ گر ٹکٹکی لگا ے  اپنے خاموش چاک کو دیکھ رہا ہے سوکھی مٹی کا درد جھیل رہا ہے کہ اب اس کو گیلی مٹی کا انتظار ہے جس گیلی مٹی کو وہ اپنی انگلیوں کی جنبش  سے کئی روپ میں بدلتا تھا اب وہ  گیلی مٹی اس کے روپ کو بدلنے والی ہے!

غزل :: فیصل قادری گنوری

غزل فیصل قادری گنوری کسی کی جاں تمھیں پیاری نہیں ہے   یہ نادانی   ہے    ہُشیاری   نہیں   ہے   انھوں  نے  کر  دیا  ہے  جینا  مشکل   جنھیں کوئی بھی دشواری نہیں ہے مجھے مت  روکیے سچ بولنے سے   یہ حق گوئی طرف داری نہیں ہے کیا ہے وقت نے معذور مجھ کو   یہ مجبوری ہے، لاچاری نہیں ہے   حفاظت جان کی کرنا ہے اچھا اگرچہِ  کوئی بیماری  نہیں  ہے فقط  مطلب  سے  اپنانا  کسی کو یہ خودغرضی ہےخود داری نہیں ہے میں ہوں بازار سے منسوب لیکن   مرا    لہجہ  تو  بازاری  نہیں  ہے اِسے   کیسے  کہیں گے شاعری ہم   کوئی بھی شعر معیاری نہیں ہے سخن میں اوربھی صنفیں ہیں فیصل   غزل  کہہ  لینا  فن  کاری  نہیں  ہے فیصل قادری گنوری

نظم ۔۔۔دو جڑ کے ہم "Do Jar ke Ham" .

This is my twenty sixth poem of this lockdown, entitled "Do Jar ke Ham" . Please stay safe. Please subscribe to my youtube channel: نظم ۔۔۔دو جڑ کے ہم برگد کی چھاؤں میں تھکے ہارے ہوئے وہ سب جو بیٹھے ہیں زندگی کی جنگ ہارے نہیں ہیں وہ سب ایک دوجے کو دیکھ کر بھول گئے ہیں اپنا غم کہ ہر ایک کا دکھ دوسرے سے بڑا ہے ہزارہا میل چل چکے ہیں مگر ان کی منزلوں کا آدھا راستہ پڑا ہے یہ سب جو ایک دوسرے کے غمخوار ہیں کچھ دیر پہلے سب انجان تھے کوئی دیر کے محافظ اور کوئی حرم کے پاسبان تھے مگر اب دیکھ کر سب اپنے پاؤں کے چھالوں کو پوچھ رہے ہیں سب آسمان سے کیا سچ مچ ہم   انسان ہیں ؟ ان کے نیم جان بچے ہواؤں میں جھول رہے برگد کے ریشے کو دیکھ رہے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ یہ ریشے بھی ایک دن زمیں تک پہنچیں گے اور پھر ایک جڑ بن جائنگے اور ان کے پاؤں کے نیچے کی زمیں بھی ختم ہو جا ۓ گی !

نظم ۔۔یقین محکم ! "Yaqeen Mahkam"

This is my twenty fifth poem of this lockdown, entitled "Yaqeen Mahkam"(strong determination) . Please stay safe. Please subscribe to my youtube channel: www.youtube.com/Jahaneurdumushtaque نظم ۔۔یقین محکم ! کورونا نے بدل دی ہے دنیا اب ہمیں بھی بدلنا ہوگا جینے کی دکاں سجانے کے لئے ہزار ہا حسرتوں کو کچلنا ہوگا حالات کی آندھی روکیں گی اب ہماری راہیں اٹھ اٹھ کے گریں گے ہم اور گر گر کے سنبھلنا ہوگا دستور ہے میخانے کا انکار نہ کر اے   وا عظ جو کہ رہا ہے ساقی اب اسی پہ چلنا ہوگا آسان سمجھ بیٹھے تھے ہم اس دنیا سے دل لگانا اب شعلوں سے گھرے ہیں اور آگ پہ چلنا ہوگا ۔ دشوار بہت ہے رہ عشق کی منزل پھولوں کی طلب رکھتے ہو کانٹوں پہ بھی چلنا ہوگا مگر یقین ہے ہمیں احساس کی ویرانی میں ہماراآباد مکاں ہوگا شہر آفسوس کا قصّہ رواں سوز نہاں ہوگا کورونا نے بدل دی ہے دنیا اب ہمیں بھی بدلنا ہوگا ۔

سالم شجاع انصاری کی غزل گوئی

سالم شجاع انصاری کی غزل گوئی محمد ارشد خان رضوی فیروزآبادی   سالم شجاع انصاری                                                                کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی زندگی میں ہی ادبی تاریخ کا حصّہ بن جاتی ہیں۔ وہ اپنے عہد، یہاں تک کہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی بھر پور متاثر کرتی ہیں۔         ایک سچا شاعر فطرت کا نقیب ہوتا ہے وہ اپنی فکر سے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ، اپنی ظریفانہ سنجیدگی سے لوگوں کو ہنساتا، اور مستقبل کے اشاریے پیش کرتا ہے، اور وہ عظیم شاعر جسے لوگ ادبی دنیا میں سالم شجاع انصاری کہتے ہیں .  سالم شجاع انصاری کا تعلق صنعت کاری کے شہر سہاگ نگری فیروزآباد سے ہے . شہر فیروزآباد آگرہ اور علی گڑھ سے متصل صوبہ اتر پردیش میں واقع ہے . جب بھی شعر و شاعری کی بات ہوتی ہے تو اس میں آگرہ اکبرآباد شعروشاعری کا مرکز قرار پاتا ہے آگرہ ایک عرصہ دراز تک  شعروشاعری کا گہوارہ یعنی مرکز ادب رہا . ظاہر سی بات ہے کہ اس کے اثرات شہر فیروزآباد پر بھی مرتب ہوئے .  اور فیروزآباد میں بھی شعرو ادب کا آغاز ہوا. فیروزآباد میں ابتداء سے ہی داغ د