نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تعلیمی نصاب سے قوم پرستی اورسیکولرزم جیسے موضوعات کوحذف کرنے کا مقصد کیاہے؟-ڈاکٹر مشتاق احمد

تعلیمی نصاب سے قوم پرستی اورسیکولرزم جیسے موضوعات کوحذف کرنے کا مقصد کیاہے؟

اس وقت کورونا کی وبا نے تمام تر شعبۂ حیات کو متاثر کیا ہے ۔بالخصوص تعلیمی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ۔ گذشتہ مارچ سے اب تک بنیادی اسکولوں سے یونیورسٹی تک کی تعلیم معطل ہے ۔ بعض تعلیمی اداروں کے ذریعہ آن لائن تعلیم کا اہتمام کیا گیاہے لیکن وہ صد فی صد کارآمد نہیں ہے کہ ہمارے پاس پہلے سے اس طرح کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں تھا۔ لیکن حالات کے تحت طریقۂ تعلیم میں تبدیلی بھی ضروری ہے اور حکومت کی جانب سے بھی اس پر زور دیا جا رہاہے ۔قومی سطح پر آن لائن تدریسی نظام کو فروغ دینے کی وکالت بھی ہو رہی ہے۔ مستقبل میں یہ مجوزہ خاکہ حقیقتاً کتنا کامیاب ہوگا یہ ابھی کہنا بہت مشکل ہے۔لیکن یہ مثل تو مشہور ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے لہذا ممکن ہے کہ اس طریقۂ کار کو بھی اپنانا ہوگا لیکن ہمارے روایتی کلاس روم طریقۂ تعلیم کی غیر معمولی اہمیت ہے اور اس کی معنویت سے انکار نہیں اور نہ فرار ممکن ہے۔
بہر کیف! اس وقت میرا موضوع سی بی ایس سی کے نصاب میں جزوی تخفیف ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کی پہل پر سی بی ایس سی کا یہ فیصلہ قابلِ تحسین ہے کہ طلباء کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ کورونا کی وبا کی وجہ سے تخفیف شدہ نصاب کی بنیاد پر امتحان میں شامل ہو سکیں گے ۔ یہ فیصلہ اس لئے اہم ہے کہ گذشتہ پانچ مہینوں سے اسکول کالج بند ہیں اور تدریسی نظام معطل ہے۔ طلباء وطالبات اپنے گھروں میں بند ہیں۔ کورونا کے خوفناک ماحول میں جی رہے ہیں ۔ ذہنی طور پر بھی طلباء پریشان ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ ایسے نازک ماحول میں اگر سی بی ایس سی یا دیگر بورڈ نے نصاب میں تخفیف کرکے امتحان لینے کا فیصلہ لیا ہے تو وہ واقعی طلباء کی ذہنی پریشانیوں کو دور کرنے والا ہے اور اس کے مستقبل کا ضامن بھی ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ نصاب کے اسباق کو ہٹائے جانے کے معاملے میں جس طرح کا فیصلہ ہو اہے وہ ہندوستان جیسے جمہوری اور سیکولر ملک کے لئے مضر ہے۔واضح ہو کہ کورونا بحران کے مدنظر سال۲۰۲۰ء۔۲۱ سیشن کے گیارہویں جماعت کے طلباء کے لئے نصاب میں تحفیف کی گئی ہے لیکن نصاب سے سیاسیات کے پرچے میں وفاقیت، شہریت، قوم پرستی،سیکولرزم، مقامی حکومت کی ضرورت ، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات وغیرہ وغیرہ اسباق کو ہٹا دیا گیاہے ۔ نویں سے بارہویں جماعت تک کے طلباء کو نصابی بوجھ کم کرنے کے نام پر یہ قدم اٹھایا گیاہے۔ اگرچہ ان اسباق کو ہٹانے کا جواز یہ پیش کیا جا رہاہے کہ یہ وقتی ہے اور کوویڈ۔19کے بحران کے بعد پھر یہ تمام اسباق ان درجوں کی کتابوں میں شامل کردئے جائیں گے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت جو نصابی کتاب ہے اس سے یہ باب ہٹایا نہیں گیا ہے لیکن اس کو پڑھانے یا پھر اس سے سوال پوچھنے سے منع کردیا گیاہے۔جب ان اسباق کو پڑھایا ہی نہیں جائے گا تو پھر اس کی ضرورت ہی کیوں رہ جائے گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سی بی ایس سی اس فیصلے پر دوبارہ غوروخوض کرے اور نصابی بوجھ کو کم کرنے کے لئے دیگر اسباق کی تخفیف کرے کیوں کہ وفاقیت، شہریت، قوم پرستی، سیکولرزم اور سماجی فرائض کے ابواب محض اس لئے پڑھائے جاتے ہیں تاکہ ہمارے طلباء کے اندر حب الوطنی کا جذبہ مستحکم ہو ، سماجی سروکار کی سمجھ میں اضافہ ہو ، ایک شہری کی ذمہ داری کیا ہے اور اس کے فرائض کیا ہیں اس سے وہ واقف ہو ں، ہمارے پڑوسی ممالک کے ساتھ ہمارا رشتہ کیسا ہو اور یہ کیوں کر لازمی ہے اس کی سمجھ بھی ضروری ہے۔ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے ، ہمارا آئین مساوات پر مبنی ہے اس کی روح سیکولرزم ہے اور اس لئے ہمارے اکابرین اور ماہر تعلیم نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ ہمارا اسکولی نصاب ایسا ہو جو ہندوستان کی تکثیریت اور سا لمیت کا پاسدار ہو ۔ہمارے بچوں کو ایسے اسباق پڑھائے جائیں جن سے ان کے اندر قومی وسماجی جذبہ پروان چڑھے۔اس لئے درجہ اول سے لے کر بارہویں تک کے نصاب میں جستہ جستہ اس طرح کے اسباق شامل کئے گئے کہ وہ ہندوستان کے جغرافیائی حدود سے واقف ہو سکیں ، اپنی تاریخ سے آشنا ہو سکیں ، یہاں کی تہذیب وتمدن کے علم سے آراستہ ہو سکیں اور ثقافتی وراثت کی معلومات سے بھی لیس ہو سکیں ۔ غرض کہ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہمارے طلباء اپنے ملک کی تاریخی اور تہذیبی وثقافتی تاریخ سے کما حقہٗ واقف ہو جائیں او رپھر وہ یونیورسٹی میں داخل ہوں تو مزید اپنی پسند کے مضامین کے ذریعہ اپنے مستقبل کا خاکہ تیار کر سکیں ۔ لیکن وقت ناگہانی میں اگر یہ فیصلہ لیا گیا کہ بچوں پر ذہنی دبائو کم کرنے کے لئے ان کے نصاب میں کمی کی جائے تو اس کے اور بھی راستے تھے کہ دیگر اسباق کو ہم کم کرتے اور صرف اور صرف ان ہی اسباق کو رکھتے کہ جن کو بچے گذشتہ درجوں میں پڑھتے ہوئے آئے ہیں۔میرے خیال میں حکومت کا بھی یہ فیصلہ نہیں رہا ہوگا کہ ہمارے نصاب سے قومیت اور سماجیت سے متعلقہ اسباق کو ہٹایا جائے۔ سی بی ایس سی انتظامیہ کی جانب سے جانے اور انجانے لیا گیا یہ فیصلہ ملک کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہے او ریہی وجہ ہے کہ مختلف رضا کار تنظیموں کی جانب سے اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی اس کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔چوں کہ اس وقت ملک میں ایک خاص نظریے کو فروغ دیا جا رہاہے ایسے وقت میں اور بھی شک مستحکم ہو جاتا ہے کہ کہیں نصاب میںوقتی تخفیف کے نام پر ان اسباق کو نصاب سے خارج ہی نہ کردیا جائے۔کیوں کہ حالیہ دنوں میں کئی ایسے اقدام اٹھائے گئے ہیں جو کہیں نہ کہیں ملک کی تکثیریت اور سیکولرزم کے لئے مضر ثابت ہو رہاہے۔ لہذا اب بھی وقت ہے کہ سی بی ایس سی انتظامیہ کو فوراً اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور ملک وقوم کے مفاد میں ا ن اسباق کو شامل رکھا جانا چاہئے۔ اگرچہ یہ وضاحت بھی آئی ہے کہ صرف امتحان میں سوالات نہیں پوچھے جائیں گے لیکن درسی کلاس میں انہیں پڑھایا ضرور جائے گا ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ جب ان اسباق کو امتحان کے پرچوں سے الگ کردیا جائے گا تو طلباء اس سے آزا دہوجائیں گے اور وہ ان اسباق کو نہیں پڑھیں گے اور پھر کورونا وباء نے جو بحرانی صورت پیدا کی ہے اس میں تو طلباء صرف ان ہی اسباق کو پڑھیں گے جن سے سوالات آئیں گے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اسباق کو لازمی بنایا جائے تاکہ طلباء نہ چاہتے ہوئے بھی ان اسباق کو پڑھیں اور ملک کی سیاسی ، جغرافیائی ، تاریخی ، تہذیبی ، مذہبی اور بالخصوص جنگ آزادی کی تحریک سے آشنا ہو سکیں ۔ آج جب ملک طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے ایسے وقت میں کوئی نیا مسئلہ پیدا ہونا اور ملک میں اضطرابی بھونچال آنا سماج اور ملک کے لئے خسارۂ عظیم ثابت ہو سکتا ہے۔یہ لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر تمام تر سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

 

ڈاکٹر مشتاق احمد


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو