نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period


 

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری

 Urdu poetry in the Bahmani period

                                                                                                ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ

9844707960

 

Dr. Syed Chanda Hussaini Akber
Lecturer, Dept of Urdu, GUK

            ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے.


۔  Urdu poetry in the Bahmani period

            علوم و فنون و معارف، تصنیف و تالیف اور شعرادب کو بھی یہاں بے پایاں فروغ حاصل ہوا۔ شہر گلبرگہ کو کئی ایک عظیم المرتبت اور جلیل القدر شخصیتوں نے اپنے علم و آگہی اور تصوف و عرفان کی لو سے نہ صرف روشن کیا بلکہ شہرہ آفاق بنایا۔ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ۔ شیخ عین الدین گنج العلوم، حضرت سید اکبر حسینی، فیروز شاہ بہمنی اور اس عہد کے دیگر شعراء و ادبا نے علم و ادب کی شمعیں روشن کیں۔

            تاریخ شاہد ہے کہ اکثر شعراء و ادباء کا جم غفیر وہاں ہوتاہے جہاں شاہی سرپرستی اور پذیرائی ہو۔ لہٰذا شہر گلبرگہ کے شعراء بھی سلطنت بہمنیہ کا شیرازہ بکھرتے ہی وہ بھی منتشر ہوئے۔ اور مختلف مقامات جیسے بیجاپور، بیدر اور گولکنڈہ میں اپنے علم و فن کے چراغ منور کرتے رہے۔

            علاوہ ازیں سلطنت بہمیہ کے زوال کے بعد بھی گلبرگہ و گردونواح کے علاقے ہمیشہ علم و عرفان کے لئے روشن رہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ عرصہ تک بغاوت کے سبب یہاں کی علمی و ادبی سرگرمیاں ماند پڑگئیں ۔ بیدر سے فخرالدین نظامی کی پہلی اُردو مثنوی "کدم راؤ پدم راؤ" آج تک کی تحقیق کے پیش نظر منظر عام پر آئی۔ بیجاپور سے میراں جی شمس العشاق، برہان الدین جانم، ملانصرتی وغیرہ اور گولکنڈہ سے ملاوجی، قلی قطب شاہ معانی وغیرہ کی علمی وادبی شعری خدمات کو فراموش نہیں کیاجاسکتاہے۔

  Urdu poetry in the Bahmani period

            اردو کی ترقی و ترویج میں دکن کا حصہ اتنا اہم ہے کہ اسکو کسی صورت نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ دلی سیاسی انقلاب کا گہوارہ رہی ہے۔ اس لئے یہاں شعروادب سے متعلق کوئی ٹھو ستعمیری کام نہیں ہوسکا۔ لیکن جو زبان شمال میں پیدا ہوئی ایک عرصہ کے بعد دکن میں ادبی صورت اختیار کرے گی اسکا اندازہ شمالی ہند کو بھی نہ تھا۔ اردو زبان کی ترقی و ترویج کے ابتدائی دور میں شعراء وادباء سے زیادہ صوفیا کرام نے اہم حصہ لیا ہے۔ انھوں نے اپنی بات کو عام بول چال کی زبان میں ادا کیا۔ اور اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالرحیم جاگیردار رقمطراز ہیں۔

"مسلمان فقراء نے بھی تبلیغ اسلام کے لئے قدم بڑھایا اور تبلیغ کے لئے تصوف کو مشعل راہ بنایا"۔

           

            علاوہ ازیں عہد بہمنی کے کئ ایک شعراء نے بھی تبلیغ دین کی اشاعت کی اور ایک مدت تک یہیں قیام پذیر رہے۔ دکن میں اردو اپنے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے کئی ادوار میں تقسیم ہوئی۔ جس میں پہلا دور تمام تر صوفیانہ ادب پر مشتمل ہے۔ دوسرا دور بہمنی دور، تیسرا دور قطب شاہی و عادل شاہی، چوتھا مغلیہ دور اور پانچواں آصفیہ دور، اسطرح دکن میں اردو شعروادب کو کافی ترقی ملتی رہی۔

           

            بہمنی دور ١٣٤٧ء سے ١٥٢٥ء تک اس ملک کی تہذیب و معاشرت اور ادب و سیاست کی رہنمائی کی اور اپنے بعد بھی ایسی مستقل یادگاریں چھوڑیں جو اپنے عہد کی یاد دلاتی ہے۔ ان یادگاروں میں سب سے اہم "اردو شعروادب" ہے۔ جو اسکی سرپرستی میں پورے دکن میں رائج ہوگئی تھی۔ اس عہد کا مشہور حکمران فیروزشاہ بہمنی جو علم و فضل اور شعروسخن کا دلدادہ تھا۔ اس کا پایہ تخت گلبرگہ تھا۔ دکن اردو شعروادب کا بھی پہلا مرکز تھا۔ اسی بہمنی عہد میں حضرت خواجہ بندہ نوازؒ دہلی سے گلبرگہ تشریف لے آئے۔

 

بہمنی دور کے اہم شعراء:

            دکنی شعروادب کی ابتداء میں سب سے پہلانام خواجہ بندہ نوازؒ کا ہے۔ وہ دہلی سے گلبرگہ ١٣٩٨ء کے قریب تشریف لائے۔ اور یہیں سکونت اختیار کرلی۔ حضرت گیسودرازؒ بڑے عالم فاضل تھے۔ فارسی عربی کے علاوہ اردو دکنی میں آپکی تصانیف جن میں "معراج العاشقین" ہے جسے اردو کی پہلی تصنیف کہاجاتاہے۔ اس ضمن میں مختلف مفکرین و محققین کے مختلف نظریات و خیالات ہیں۔ اسکے علاوہ "شکار نامہ" ہدایت نامہ، تلاوۃ الوجود، چکی نامہ، وغیرہ آپکے نام سے منسوب ہیں۔ آپکا کلام ملاحظہ کیجئے۔

پانی میں نمک ڈال بیسا دیکھنا اسے                             جب گھل گیا نمک تو نمک بولنا کسے

یوں گھولے خودی اپنی خدا ساتھ مصطفیٰ                    جب گھل گئی خودی تو خدا بولنا کسے

 

            حضرت بندہ نوازؒ سے منسوب دیگر رباعی ملاحظ ہو۔

مشہود بحرتیو دیکر، سچ ہے اللہ

مرنے کے رنگ مرکے ہو فنا فی اللہ

فنا اس کے وسواس تو باکمال ہو

لاحول ولا قوۃ اللہ باللہ!

فیروز شاہ بہمنی:

            بہمنی سلطنت کے اکثر بادشاہ علم دوست اور شعر و ادب کے قدرداں بھی تھے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر طیب انصاری رقمطراز ہیں:

"محمود شاہ بہمنی ٧٨۰ھ تا ٧٩٩ھ شاعر تھا۔ اور عربی و فارسی خوب بلتا تھا۔ اسی بادشاہ نے خواجہ حافظ کو شیراز سے دکن بلایاتھا"

            بہر کیف فیروز شاہ بہمنی کا عہد شعروادب کا عہد زرین کہلاتا ہے۔ عہد فیروزشاہ دراصل اس نشاۃ ثانیہ کا تسلسل تھا جسکا محمود شاہ بہمنی نے آغاز کیاتھا۔ فیروز شاہ بہمنی ایک اچھا ادیب و شاعر تھا جو فیروزی اور عروجی تخلص کیاکرتاتھا۔ یوں تو فیروز شاہ کئی زبانوں کا ماہر تھا۔ ڈاکٹر طیب انصاری کے کہنے کے مطابق۔

"صحیح معنوں میں پہلی بار اور اکبر آعظم سے بہت پہلے فیروز شاہ نے دکن میں ہندلسانی کلچر کی بنیاد رکھی"۔

            فیروز شاہ ملی جلی تہذیب، فنون لطیفہ اور شعروادب کا دلدادہ شاعر و حکمران تھا۔ فیروز شاہ کا دکنی کلام ملاحظہ کیجئے:

تجھ مکھ چندا جوت جلے ساراجیوں

تجھ کان یہ موتی جھمکے تارا جیوں

فیروزی عاشق کوں ٹک یک چاکن دے

تج شوخ ادھر لب اہے شکر پاراجیوں

حضرت سید اکبر حسینی:

            حضرت بندہ نوازؒ کے فرزند اکبر جو دہلی میں تولد ہوئے اور ٨١٥ھ میں گلبرگہ تشریف لے آئے۔ بڑے عالم و فاضل تھے۔ آپکو نثر اور نظم دونوں میں مہارت تھی۔ جس کا مواد تصوف پر مبنی ہے۔ سید اکبر حسینی کی نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

دھوکر زبان کوں اپنی پیرسوں بیان پر

بولوں صفت خدا کی کرشکر میں زبان پر

بے پیر جو مواتونین ہے درست اس پر

پڑنا نماز جنازہ تو ہوئے گناہ اکبر

 

            حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کے خانوادوں نے بھی اردو شعروادب کی ترقی و ترویج میں غیر معمولی خدمات انجام دیں ہیں۔ ان میں آپ کے والد محترم حضرت راجو قتال حسینی، بڑے فرزند سید اکبر حسینی اور پوتے سید عبداللہ حسینی سے بھی بعض دکنی رسائل مرتب ہوتے ہیں۔ اسی عہد میں نشاط العشق کا قدیم اردو دکھنی میں ترجمہ کیاگیا۔

 

فخرالدین نظامیؔ:

            سلطان احمد شاہ ثالث المعروف بہ نظام شاہ بہمنی کے عہد کا ایک اور معروف شاعر فخرالدین نظامیؔ بیدری گذرا ہے۔ جسکو بندہ نوازؒ کے بعد موجودہ معلومات کے پیش نظر اردو کا پہلا شاعر کہاجاتاہے۔ جسکی مثنوی "کدم راؤ پدم راؤ" مشہور ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

شہنشاہ بڑا شاہ احمد کنوار

دھنیں تاج کا کون راجا بہنگ

پرت پال سنار کرتار ادھار

کنور شاہ کا شاہ احمد بہجبگ

شاہ صدرالدین:

            شاہ صدرالدین بہمنی عہد کے ایک صوفی بزرگ شاعر گذرے ہیں۔ ہم عصر شعراء میں عبداللہ حسینی، مشتاق، لطفی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ تصوف پر مبنی کئی تصانیف کا پتہ چلتاہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو۔

صدرالدین تو کسب پر ثابت اچھے

صرف سو صنعتوں کے نت ثابت، اچھے

صدرالدین پل پل میں یوں بیک ہوا

وصل بھی یک پل منجی میں حل ہوا

 

مشتاق: سلطان محمد شاہ بہمنی (متوفی ١٤٨٢ ) کے دور میں موجود تھا۔ اس نے دکنی زبان میں قصیدہ لکھاتھا۔ اس کی چند غزلیات بھی ہمدست ہوئی ہیں۔ نصیرالدین ہاشمی کے کہنے کے مطابق مشتاق اپنے عہد کا باکمال شاعر اور استاد سخن تھا۔

لطفی:  لطفی بھی بہمنی دور کا شاعر تھا اور مشتاق کا ہم عصر بھی۔  اس نے شاہ محمد کی مدح کی ہے۔ جو خلیل اللہ بت شکن کی اولاد میں تھے۔ لطفی نے بھی مشتاق کی طرح قصائد اور غزلیات کہی ہیں۔ ایک قصیدہ خواجہ کرمانی کی زمین میں ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ لطفی کو خواجہ کرمانی سے کتنا شغف تھا۔ بہمنی دربار میں کرمانی کا کلام پسند کیاجاتا تھا۔ لطفی کے کلام میں تشبیہات کے ساتھ تلمیحات بھی ملتے ہیں۔ بقول لطفیؔ۔

خلوت منے سجن کے میں موم کی بتی ہوں

یک پاؤں پر کھڑی ہوں جلنے پرت بنی ہوں

لطفی تیرے جتن کی پائی کہاں ہے اس میں

جیوں پانچ پاندواں کے کھتے سو دہروپتی ہوں

 

            میراں جی شمس العشاق:

            بہمنی دور کے ایک اہم شاعر شاہ میراں جی شمس العشاق جو اپنے تصوف اور قابلیت کی بنا پر شمس العشاق کہلائے۔ آپ کی تصانیف تصوف کے موضوع، اصول و اعمال پر ہیں۔ یہ پہلے صوفی بزرگ ہیں جسکا کلام مستقل طورپر ملتاہے۔ ان کی اہم تصانیف میں شہادت الحقیقت، خوش نفر، خوش نامہ اور شرح مرغوب القلوب مشہور ہیں۔

 

            ١٤٢٦ء میں پایہ تخت کی منتقلی کے نتیجہ میں گلبرگہ کی وہ اہمیت باقی نہ رہی جو اس وقت موجود تھی۔ تاہم دکنی زبان یہاں پھلتی پھولتی رہی۔ تقریباً سو برس بیدر بہمنی سلاطین کا مرکز رہاتھا۔

 

            بہمنیہ تاریخ سے ظاہر ہوتاہے کہ گلبرگہ و بیدر کے عہد بہمنی کے مشہور شعراء میں نظامی، مشتاق، فیروز، لطفی، اشرف، آزری وغیرہ کے نام نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ جنہوں نے غزلیں، قصیدے اور مثنویاں لکھیں۔

 

            اورنگ زیب کے عہد کا قادرالکلام صوفی شاعر محمود بحری ہے۔ جسکی تصانیف میں "من لگن" اور "بنگا بنامہ" بہت مشہور ہیں۔ علاوہ ازیں شیخ داؤد، ضعیفی، شاہ غنایت، شاہ عبدالرحمٰن قادری، سید محمد خاں، عشرتی، سید احمد ہنر، بلبل، وجدی وغیرہ اہم شعراء گذرے ہیں۔ بقول شخصے "دکن کو اردو سے اور اردو کو دکن سے الگ کردیں تو دونوں فقط ادھوری صداقت بن کے رہ جائیں گے"۔

 

            یہاں یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ بہت سارے دکنی شعرا ایسے بھی ہیں۔ جنہوں نے بہمنی سلطنت کے خاتمہ کے بعد بھی جو نئی ریاستیں وجود میں آئیں اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور داد و تحسین پاتے رہے۔

 

            مذکورہ تمام صوفی شعراء نے نہ صرف اردو شعروادب کی خدمات انجام دی ہیں بلکہ تصوف اور مذہب کو عوامی زندگی سے مربوط عام کیا۔

 

            اس کے علاوہ تہذیبی اور شعروادب کی ترقی و نشوونما میں اولیائے کرام نے بھی بہت اہم کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ گویا تمام شعراء اس عہد کے درخشاں ستارے ہیں جو ہمیشہ اپنے کلام سے چمکتے دمکتے رہیں گے۔

            تاہم بہمنی دور تاریخی وادبی اعتبار سے ناقابل فراموش عہد رہاہے۔ Urdu poetry in the Bahmani period


https://www.sheroadab.org/2020/10/blog-post.html

 

٭٭٭٭٭

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو