نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کھجور: قرآنِ حکیم، حدیثِ نبوی اور طبی تحقیقات کے آئینے میں

 

کھجور: قرآنِ حکیم، حدیثِ نبوی  اور طبی تحقیقات کے آئینے میں

ڈاکٹر فہد انوار

         قرآن کریم میں جن  پھلوں  کا تذکرہ   بار بار آتا ہے  ان میں سےایک  کھجور   ہے     کھجور کا درخت  اور پھل  ان لوگوں کا کثرت سے دیکھابھالااوراستعمال کیاہواتھاجووحی ناز ل ہونےکی جگہ رہتےتھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کے اولین مخاطب مشرکین مکہ  تھے۔ اور ان کے سامنے  ایسی چیزوںکاتذکرہ جن سےوہ مانوس تھےدعوتی اعتبار سے  پُر حکمت تھا، قرآن حکیم میں   کم و بیش اکیس جگہ کھجور کا ذکرہے، آیت قرآنیہ میں  غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے  کہ کھجور کاذکر   قرآن حکیم میں مندرجہ  ذیل  پس منظر میں ہوا  ہے۔

۱۔استدلالی انداز میں یعنی کھجورکاپھل اللہ تعالی ٰکی عظیم نعمتوں میں  شمار کر کے  عظمتِ  الٰہیہ  کو دلوں میں بٹھانے کے لیے۔

 ۲۔جنت کی نعمتوں کے تذکرے میں    تاکہ سننے والو ں کے دلوں میں شوق بڑھے۔

  ۳۔کھجور کے پھل کو بطور طاقت بخشنے کا  ذریعہ کےطورپراوراسی سےاسکی طبی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے۔

 ۴۔ کلمہ توحید کی مثال کے طور پر۔

۵۔ کھجور کی گٹھلی  کے مختلف   اجزاء  کا ذکر  کسی چیز کی مقدار  بتانے کے لیے۔

۱۔کھجور۔ ایک   عظیم نعمت

        بہت سی آیت میں  کھجور  کے  پھل کو اللہ  تعالی   کی نعمتوں  میں شمار کیا گیا ہے  تاکہ انسان  اس کے خالق کی قدر  پہچانے   مثلا  سورۃ النحل میں  اللہ تعالی    کی بندوں پر  کی جانے والی نعمتوں  کا بطور  اس کی  نشانی  کے ذکر ہے۔ ان میں پانی  اور  اور اس کے ذریعے اگنے  والے پھلوں میں کھجور کا  ذکر فرمایا گیا۔ مثلا:

يُنْبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالْأَعْنابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَراتِ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ( النحل  :۱۱ )

’’  اللہ تعالی   اسی پانی  سے تمھارے لیے  کھیتیاں، زیتون،کھجور  کے  درخت  انگور  اور ہر قسم  کے پھل  اگاتا  ہے  حقیقت یہ ہے کے  ان سب باتوں میں  ان لوگوں  کے لیے  بڑی نشانیاں ہیں  جو سوچتے سمجھتے ہیں۔

۲۔جنت کی نعمت 

فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ ( الرحمن  :۶۸ )

کھجور  کی طبی افادیت

قرآنِ حکیم میں کھجور کا ذکر متعدد مقامات پر ہے۔ کئی مقامات پر اسے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت شمار کیا گیا ہے۔سورہء مریم میں حضرت مریم  علیہا لسلام کو دردِزہ کے وقت تاکید کی گئی کہ وہ  کھجور کے درخت کی ٹہنی ہلائیں تاکہ تازہ اور پکی ہوئی کھجوریں گریں اور اس میں سے کھا ئیں۔ارشادِربّانی  ہے:

 وهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا (مریم:۲۵)

اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ،اس میں سے پکی ہوئی تازہ کھجوریں تم پر جھڑ یں گی۔

اس کی وجہ جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے یہ تھی کہ اس سے بچے کی ولادت میں آسانی ہوگی۔اس طرح یہ آیت ِکریمہ ایک عظیم طبی فائدہ دے رہی ہے۔ چنانچہ طبی تحقیقات بھی اس پر گواہی دیتی نظر آتی ہیں کہ حاملہ خواتین کو کھجور کا استعمال  وضع ِحمل میں سہولت دیتا ہے۔ ڈاکٹر خالد غزنوی  صاحب حضرت مریم کے واقعہ میں کھجور کی طبی افادیت کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

اس سے  معلوم ہوا  کہ کھجور کھانے سے ا ن کو instant energy(فوری توانائی )حاصل ہوئی کیونکہ کھجور دافعِ قولنج ہے اس لیے ان کو درد بھی کم ہوا۔اس طرح قرآنِ مجید نے تاریخِ طب میں پہلی مرتبہ Invalid Foods کا تصور پیش کیا۔(طبِ نبوی  اور جدید سائنس،ج 1ص159،الفیصل ناشران  وتاجرانِ کتب)

کنگ فہد سول ہسپتال تبوک  میں کی جانے والی ایک تحقیق میں  89 حاملہ خواتین  کو شامل کیا گیا۔ 26کو صرف تازہ کھجوریں کھلائی گئی جبکہ  32کو تازہ کھجوروں کے بعد 250 ملی لیٹر پانی بھی پلایا گیا۔31 کو یوں ہی رہنے دیا گیا۔ دیکھنے میں آیا کہ تازہ کھجوریں کھلائی گئی (بالخصوص جن  کو پانی بھی پلایا گیا)میں وضعِ حمل  (لیبر) کا پہلا اورتیسرا مرحلہ  جلد اورآسانی سے طے ہو گیا۔ اسی طرح  بچے کی صحت پربھی مثبت اثر دیکھا گیا۔چنانچہ جن خواتین کو کھجوریں استعمال کرائی گئی تھیں،ان کے بچوں میں ولادت کے متعلق پیچیدگیاں مثلا دل کی دھڑکن  کاخلافِ معمول ہونا وغیرہ نہیں دیکھا گیا۔

( Izzaddin E,Ahmed,Hyder.O.Mirghani  and others,Effect of Dates Fruit consumption o Labour  and Vaginal Delivery in Tabuk,KSAJournal of Taibah University Medical Sciences,2018Novebmer,Page:6)

۴۔کلمۂ توحید کی مثال

        قرآن  کریم  میں اللہ سبحانہ وتعالی نےکلمہ طیبہ کی مثال ایک پاکیزہ درخت سےدی ہےجس کی جڑ  زمین میں مضبوطی سےقائم ہےاوراسکی ٹہنیاں اوپرآسمان کیطرف اٹھی ہوئی ہیں وہ درخت اپنے رب  کے حکم سے پھل دیتا ہے، جیسے اس درخت کی جڑ زمین  میں ہے  ایسے ہی کلمہ ء طیبہ  مومن کے دل میں  مضبوط ہوتا ہے  اور اس کی شاخیں  مختلف  اعمال کی صورت  میں ہر وقت  اس کے جسم سے ہو کر  اوپر  آسمان کی طرف  اٹھتے  ہیں:

ألَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ۔ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ (ابراہیم:۲۴تا۲۶)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی وہ مثال کلمہ طیبہ کی ہے جو شجرہ طیبہ کی طرح سے ہے اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخیں بلندی میں ہیں. وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریںاور کلمہ خبیثہ کی مثال ایسی ہے جیسے خبیث درخت ہو جسے زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا گیا ہو اس کے لیے ثبات نہیں ہے،

یہ درخت کونساہےاس میں اکثرمفسرین کی رائے یہ ہےکہ یہ کھجورکادرخت ہے۔ کھجور کا درخت بھی  ہر موسم میں کوئی نہ کوئی فائد ہ پہنچا رہا ہوتا ہے، اس کا پھل تو ہے ہی برکت والا  اسی لیےآنحضرت  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے افطار کےلیےبھی  پسند فرمایاکہ یہ غذائیت کےساتھ ساتھ قوت بھی دیتاہےاسکےعلاوہ کھجورکےدرخت کا گودااس کی چھال وغیرہ مختلف کاموں میں استعمال ہوتے  ہیں۔

صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے:

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ایک درخت ہےجس کے پتے نہیں گرتے اور وہ مسلمان کی طرح ہے۔ مجھے بتاؤ وہ کون سا ہے؟ لوگ صحراؤ ں کے درخت شمار کرنے لگے۔ میرے دل میں آیا کہ وہ کجھور کا درخت ہے، لیکن ( کم عمر ہونے کی وجہ سے) میں شرم کے مارے چپ رہا۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں بتا دیں وہ کون سا درخت ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کجھور کا درخت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ﷜ فرماتے ہیں کہ میں نے بعد میں اپنے والد کو بات بتائی تو انہوں نے فرمایا(اگر تو اپنے دل میں آنے والی ) بات کہہ دیتا تو مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ محبوب ہوتی۔ )بخاری، کتاب العلم رقم  ۶۲)

کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال یہ تین آیات ہیں جن میں پہلی آیت میں کلمہ طیبہ کو شجرہ طیبہ سے تشبیہ دی ہے اور دوسری آیت میں کلمہ خبیثہ کو شجرہ خبیثہ سے تشبیہ دی ہے حضرات مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ کلمہ طیبہ سے کلمہ ایمان لا الٰہ الا اللہ مراد ہے اور کلمہ خبیثہ سے کلمہ کفر مراد ہے، کلمہ طیبہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ایسے پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ خوب مضبوطی کے ساتھ زمین میں جمی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں اونچائی میں اوپر جا رہی ہوں اور وہ ہمیشہ پھل دیتا ہو جب بھی اس کی فصل آئے تو فصل ضائع نہ ہو۔ سنن ترمذی (تفسیر سورة ابراہیم) میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ شجرہ طیبہ (پاکیزہ درخت) سے کھجور کا درخت مراد ہے جس سے کلمہ طیبہ کو تشبیہ دی ہے لا الٰہ الا اللہ کی جڑ (یعنی مضبوط اعتقاد) مومن کے قلب میں استحکام اور مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہے اس کی شاخیں یعنی اعمال صالحہ جو بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوتے ہیں وہ آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں اور ان پر رضائے الٰہی کے ثمرات مرتب ہوتے ہیں کما فی سورة فاطر (إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) کھجور کا درخت زمین میں مضبوطی کے ساتھ جما ہوا ہوتا ہے اپنی جڑوں میں استحکام اور پھلوں میں عمدگی اور شاخوں میں بلندی لیے ہوئے ہوتا ہے اس کے پھل بھی ہر فصل میں آتے رہتے ہیں اور لوگ اس سے برابر منتفع ہوتے رہتے ہیں اس کے پھل میں غذائیت بھی ہے اور قوت بھی ہے اور دیکھنے میں بھی نظروں میں خوب بھاتا ہے۔ کلمہ طیبہ کی مثال دینے کے بعد کلمہ خبیثہ کی مثال دی اور فرمایا کہ کلمہ خبیثہ یعنی کلمہ کفر ایسا ہے جیسے کوئی خبیث درخت ہو جسے زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے اور اسے کوئی قرار اور ثبات نہ ہو سنن ترمذی کی مذکورہ بالا روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شجرہ خبیثہ سے حنظل مراد ہے جو بہت زیادہ کڑوا ہوتا ہے اس کا مزہ بھی برا ہے اور اس کی بو بھی بدترین ہے اور اس کے کھانے سے بہت سی مضرتیں پیدا ہوتی ہیں اس کا جماؤ بھی زمین میں نہیں ہوتا زمین سے یوں ہی ذرا تھوڑا سا تعلق ہوتا ہے ہلکے سے ہاتھ کے اشارے سے اکھڑ آتا ہے.(انوار البیان  ازمولانا عاشق الٰہی رحمہ اللہ تعالیٰ)

۴۔کھجور کی گٹھلی  کے متعلق قرآنی مثالیں

  قرآن کریم میں کھجورکی گٹھلی  کے حوالے سے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں :

۱۔فتیل : کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں موجود  ایک دھاگا۔ ارشاد باری تعالی ہے

 أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنْفُسَهُمْ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا (النسا:۴۹ )

        ترجمہ : کیا  تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا  جو اپنے آپ کو بڑا پاکیزہ بتاتے ہیں ؟ حالانکہ پا کیزگی  تو  اللہ جسے چاہتا ہے  عطا کرتا  ہے  اور (اس عطا  میں ) ان پر ایک دھاگے کے برابر ظلم   نہیں ہوتا۔

۲۔نقیر : کھجور کی گٹھلی کا شگاف

        أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا(النسا؛ ۵۳ )

        ترجمہ : تو کیاان (کو کائنات کی ) بادشاہی  کا کچھ حصہ  ملا  ہو ا ہے  ؟ اگر ایساہوتاتویہ لوگوںکوگٹھلی کےشگاف کےبرابرکچھ نہ دیتسے۔

        وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا (النسا:۱۲۴ )

        ترجمہ : اور جو شخص نیک کام کرےگا،چاہےوہ مردہویاعورت بشرطیکہ وہ مومن ہو۔ تو  ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور کھجور  کی گٹھلی  کے شگاف  کے برابر بھی ان پر ظلم نہیں ہوگا۔

        ۳۔ قطمیر : کھجور کی گٹھلی  کا چھلکا

يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ(الفاطر:۱۳)

        ترجمہ : وہ رات کو  دن  میں داخل کرتا ہے  اور دن کو رات میں  داخل کردیتا ہے   اور اس نے سورج  اور چاند  کو کام پر لگا دیا ہے۔ (ان میں سے )  ہر ایک  کسی مقررہ  میعادتک کے لیے رواں دواں ہے۔ یہ ہے اللہ  جو تمھارا پروردگار ہے  ساری بادشاہی اسی کی ہے  اور اسے چھوڑ کر جن (جھوٹے خداؤں  کو) تم پکارتے ہو  وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے  کے برابر  بھی  کوئی اختیار  نہیں رکھتے۔

        اسلوبِ  قرآنی  کو سامنے رکھنے سے معلوم  ہوتا ہے کہ کھجور  کی گٹھلی  سے متعلق  ان تینوں چیزوں  (شگاف، شگاف کا دھاگا اور گٹھلی کی جھلی)  کو بطور کنایہ  ذکر کیا  گیا ہے  تاکہ کسی  چیز کےچھوٹے  پن کو بیان  کیا جائے۔

زبانِ نبوت صلی اللہ علیہ آلہ وسلم  سے کھجور کی افادیت کا اظہار

        نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کھجور  کی  خاص عزت  افزائی فرماتے ہوئے  افطار کے لیے کھجور کو پسند  فرمایا۔ افطار کے وقت  جب روزہ ہ دار پر  اللہ تعالیٰ  کی خاص رحمت کا  نزول ہوتا ہے  حتی کہ  اس کی دعا پر   فرشتے بھی آمین کہتے ہیں ایسے وقت میں کھجورکااستعمال جہاںایک پاکیزہ احساس عطاکرتا ہےوہیں دن بھربھوکےمعدےکوایک طاقت بخشنےوالی غذابھی میسرآتی ہے۔

         نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کھجور کے درخت کو مومن کی مثل قرار دیا جیسا کہ عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ   کی روایت گزر چکی ہے۔ کھجور کے لیے پسندیدگی کے اظہار کے ساتھ آپ ﷺ نے بطور خاص عجوہ کھجور کی خاص فضیلت بیان فرمائی :’’ابوہریرہ   رضی  اللہ تعالی ٰ عنہ راوی ہیں کہ حضورصلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایاعجوہ کھجورجنت میں سےہےاوراس میں زہرسےشفاءہےجبکہ’’ من‘‘ اور  اس کا پانی آنکھ  کیلےشفاء ہے   ( ترمذی  باب ما جاء فی  الکماۃ  والعجوۃ، ۲۰۶۶ )

        ایک اورجگہ ارشادنبوی صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ’’   جس نے سات عجوہ کھجوریں  صبح  کے وقت  استعمال کی   اسے  اس دن  زہر یا جادو  نقصان نہیں پہچا سکتے۔ ‘‘(بخاری  باب فی شرب السم  والدوا بہ، ۵۷۷۹ )

        حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ میں بیمار ہوا  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   میری عیادت  کے لیےتشریف لائے۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ    میر ے  سینے پر  رکھا  یہاں  تک  آپ ﷺکےہاتھ   کی ٹھنڈ ک  میں نے اپنے دل میں محسوس کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایااسےدل کادورہ پڑا ہے   اسے ثقیف کے بھائی حارث بن کلدہ  کے پاس لے   جاؤ   وہ  علاج کرتا ہے،  طبیب کو چاہیے  کہ   وہ  مدینہ کی سات عجوہ  کھجور یں گٹھلیوں  سمیت کوٹ کر اسے  کھلائے۔ (ابو داؤد، باب فی تمرۃ العجوۃ۳۸۷۵ )

        اس حدیث پاک میں آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت سعد  رضی اللہ عنہ  کے مرض کی تشخص  فرمانے کے ساتھ  علاج کرانے کی  بھی ہدایت کی اورپھر  اپنے پاس  سے ایک علاج  بھی  تجویز فرمایا  جو  عجوہ کھجور کھلانے پر مشتمل ہے۔

          نبی اکرم صلی اللہ علیہ  وسلم  نے نو زائید ہ بچوں  کے لیے بھی کھجور کو اختیار  فرمایا۔ چنانچہ  جب مدینہ منورہ میں حضرت عبد اللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ  کی ولادت ہوئی  ( جو مدینہ طیبہ کے ہجرت  کے بعد کسی بچے کی پہلی  ولادت  تھی )  توآپ رضی اللہ عنہ  کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا بچے کو لے کر  دربار رسالت  ﷺ  میں حاضر ہوئیں اور آپ ﷺ کی  مبارک  گود میں ڈال دیا۔ آپ ﷺنے کھجور منگوائی،اسے چبایا  پھر اپنا لعاب  اور کھجور  بچے کے منہ میں  ڈال کر اس کے  تالو سے لگایا  پھر بچے کے   لیے برکت کی دعا کی۔ (بخاری باب ھجرۃالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  و اصحابہ  ۳۹۰۹ )

         کھجور کی ایک برکت  نبی اکرم ﷺیہ بھی   بیان فرمائی   کہ جس گھر میں کھجور  ہو اس  گھر والے  کبھی  بھوکے نہیں رہے گے۔ (مسلم، باب  فی ادخار  التمرونحوہ من  الاقوات ۲۰۴۶ )

        کتابِ ہدایت اورزبانِ رسالت سےکھجورکےپھل کی اہمیت اورفوائدذکرکرنےسےمقصودیہ ہےکہ اس پھل سےفائدہ حاصل کیاجائےاوردینی ودنیوی  برکات  کو سمیٹا جا سکے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو