نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نظم - محبت ۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال

 نظم - محبت ۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال


عروسِ شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے
ستارے آسماںکے بے خبر تھے لذتِ رَم سے

قمر اپنے لباسِ نو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلم سے

ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی دنیا
مذاقِ زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے

کمالِ نظمِ ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا
ہویدا تھی نگینے کی تمنا چشمِ خاتم سے

سنا ہے عالمِ بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
صفا تھی جس کی خاکِ پا میں بڑھ کر ساغرِ جم سے

لکھا تھا عرش کے پائے پر اک اکسیر کا نسخہ
چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشمِ روحِ عالم سے

نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیا گر کی
وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسمِ اعظم سے

بڑھا تسبیح خوانے کے بہانے عرش کی جانب
تمنائے دلی آخر بر آئی سعئ پیہم سے

پھرایا فکرِ اجزا نے اسے میدانِ امکاں میں
چھپے گی کیا کوئی شے بارگاہِ حق کے محرم سے

چمک تارے سے مانگی، چاند سے داغِ جگر مانگا
اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلفِ برہم سے

تڑپ بجلی سے پائی، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفسہائے مسیحِ ابنِ مریم سے

ذرا سی پھر ربوبیت سے شانِ بے نیازی لی
مَلک سے عاجزئ افتادگی تقدیرِ شبنم سے

پھر ان اجزا کو گھولا چشمہء حیواں کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرشِ اعظم میں

مہوس نے یہ پانی ہستئ نو خیز پر چھڑکا
گرہ کھولی ہنر نے اس کے گویا کارِ علام سے

ہوئی جنبش عیاں ، ذروں نے لطفِ خواب کو چھوڑا
گلے ملنے لگے اُٹھ اُٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے

خرامِ ناز پایا آفتابوں نے ، ستاروں نے
چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال​

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو