نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حیض کا مشکل سے آنا

 

حیض  کا مشکل سے آنا

                                                                                                                             حکیم ادریس بیگ، گلبرگہ

            حیض کا خون درحقیقت ایک فضلہ ہے جس کا بدن میں رک جانا دیگر فضلات مثلا بول و براز وغیرہ کے بند ہوجانے کی مانند بہت سے شدید امراض اور تکالیف کا باعث ہوتاہے۔ یہ خون صحت کی حالت میں 12 سے 16 برس کی عمر کے درمیان عورتوں کو سن بلوغ میں آنا شروع ہوتاہے۔ جو ماہ بماہ بعض کو 28 دن کے وقفہ سے بعض کو 22 دن کے وقفہ سے آیا کرتاہے۔ اور عموما 3، 4، 5، یا 7 دن آکر خود بخود بند ہوجاتاہے اور 45 سے 55 سال تک کی عمر میں قدرتاً بند ہوجایاکرتاہے۔ حالت حمل میں اور ایام رضاعت میں بچہ کو دودھ پلانے کا زمانہ یہ خون جنین کی پرورش میں صرف ہوتاہے۔ چنانچہ حمل قرار پانے کے بعد ایام ماہواری بند ہوجاتے ہیں۔ اور اس سے جنین کو غذا پہنچ کر رحم میں 9 ماہ تک جنین کی تکمیل ہوتی ہے۔ جس قدر حصہ جنین کی غذا سے فاضل بچتاہے وہ وضع حمل کے وقت بطور نفاس کے خارج ہوتاہے۔

            دودھ پلانے کے زمانے میں یہ خون عورت کے پستان میں پہنچ کر دودھ کی صورت اختیار کرتاہے۔ جس کے ذریعہ بچہ غذا حاصل کرکے پرورش پاتاہے۔ ان ایام کے علاوہ اس خون کا رک جانا یا بے قاعدگی کے ساتھ آنا مرض میں داخل ہے جس کا اگر مناسب علاج نہ کیاجائے تو شدید امراض، مالیخولیا، مرگی، سکتہ، فالج، اختناق الرحم، ضعف ہضم، فرہبی، شکایات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لئے بہت جلد اس کا علاج کرنا چاہئے۔

اسباب: غیر شادی شدہ اور موٹی لڑکیوں میں اکثر حیض کا خون درد سے اور کم مقدار میں آتاہے۔ رحم کاٹل جانا، ورم رحم، لیکوریا، ایام حیض میں سردی لگنے یا بارش میں بھیگے سے کبھی کثرت مجامعت سے یا رنج و غم سے دفعتاً یہ شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض دفعہ خون کی کمی اور نقاہت کی وجہ سے بھی یہ شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ کبھی جسم کے ہارمون کی خرابی سے بھی درد کے ساتھ حیض آتا ہے۔

علامات: یاتو ابتداہی سے حیض نہیں آتا۔ یا کچھ مدت آکر بند ہوجاتاہے یا مقدار مقررہ سے کم آتاہے۔ یا تھوڑا تھوڑا رک رک کر درد کے ساتھ آتا ہے۔ شدت درد سے مریضہ کے ہوش و حواس بجا نہیں رہتے۔ ایام حیض میں اعضاء شکنی اور بیچینی ہوتی ہے۔ پیروں کے مقام پر گرانی، کمر کولھے اور رانوں میں درد ہوتاہے۔ کمی خون کے سبب سے ہوتو جسم کا رنگ پھیکا ہوجاتاہے۔ چہرے پر زردی اور عام جسم کمزوری سستی اور کاہلی ہوجاتی ہے۔ دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ جب سردی لگنے یا بارش میں بھیگنے یا رنج و غم وغیرہ سے ہوتو تھوڑا سا حیض آکر پھر دفعتہً بند ہوجاتاہے۔ جب بعض پرانے امراض میں ضعف و نقاہت کے سبب یہ عارضہ ہو تو بتدریج حیض کم ہوتے ہوئے بالکل بند ہوجاتاہے۔

 

علاج :

 اگر ہر ماہ درد سے خون کم مقدار میں آتا ہے تو اس کے لئے بہترین چیز ہارمون کی مرکب جامع حمل گولیاں ہیں۔ یہ گولیاں Mala-D اور Saheli کے نام سے ملتی ہیں۔ ان کے 22 گولیوں کے پاکٹ ہوتے ہیں۔ ماہواری کا خون رکنے کے پانچویں دن سے ہر روز ایک گولی سوتے وقت پانی سے کھلائی جائے گولیاں ختم ہونے کے دو تین دن بعض حیض کھل کر جاری ہوجاتا ہے اور اول تو پہلے ہی کورس میں آرام ہوجاتاہے پھر بھی اگر کچھ کمی محسوس کررہے ہیں تو دو یا تین ماہ تک یہ گولیاں استعمال کراسکتے ہیں، درد اور کمی حیض کی شکایت دور ہوجائے گی۔

            جسمانی کمزوری یا نقاہت کی وجہ سے ہو تو کشتہ فولاد 2 چاول دواء المسک جواہر والی 5 ماشہ میں ملاکر کھلانا اور کھانے کے بعد شربت فولاد۔ 3-3 ماشہ پلانا نفع بخش ہے، ایام مقرر سے تین یوم پہلے حب مدار ایک ایک عدد صبح، دو پہر اور شام کھلا کر شربت بزروی 4 تولہ پانی میں گھول کر پلانا بھی فائدہ مند ہے۔ ایام سے فراغت کے بعد تقویت کے لئے خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا 5 ماشہ چند روز کھلائیں۔

            ریوند چینی شورہ قلمی، جو کھار، زیرہ سفید ہر ایک ایک تولہ شکر سفید ہم وزن سب ادویہ کو کوٹ چھان کر سفوف بنائیں اور روزانہ 7 ماشہ استعمال کریں، تخم مولی، تخم گاجر، میتھی کوٹ چھان کر ایک کف دست نیم گرم پانی سے پھانکیں۔ تخم گاجر ایک تولہ، گڑ دوتولہ لے کر آدھ سیر پانی میں جوش دیں، یہاں تک کہ دو پاؤ بھر رہ جائے پھر اس کو چھان کر پلائیں، چار پانچ دن کے استعمال سے حیض جاری ہوجائیگا۔

            باؤ بڑنگ 6 ماشہ سونٹھ 3 ماشہ، گڑھ 2 تولہ کو آدھ سیر پانی میں جوش دیں، یہاں تک کہ پانی تقریباً تہائی رہ جائے، اس کو چھان کر پلائیں، چند روز کے استعمال سے حیض جاری ہوجائیگا۔

            کپاس کے پتے اور پھول ہر ایک 2 تولہ لے کر آدھ سیر پانی میں جوش دیں یہاں تک کہ پانی چوتھائی رہ جائے اس کو مل چھان کر گڑ 2 تولہ ملا کر پلائیں۔ چند روز برابر پلانے سے حیض جاری ہوجاتاہے۔

            پیاز کو پانی میں جوش دے کر پلانے سے ایام کھل کر آتے ہیں۔ ہینگ کو گھی میں بھون لیں صبح و شام ایک گلاس گرم پانی سے لیں۔

غذاوپرھیز:

            کھانے میں شوربہ یا مونگ کی دال چپاتی دیں۔ ترکاریوں میں ترئی، کدو، شلجم، گاجر، میتھی، اور پالک دے سکتے ہیں ،دودھ اور مکھن حسب برداشت دیا جاسکتاہے۔ دیر ہضم اور نفاخ نیز کھٹی اور بہت تھنڈی چیزیں نہ دیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو