غزل
گذری باتوں کی یاد آتی ہے
کس قدر دل مرا دکھاتی ہے
دربدرٹھوکریں کھلاتی ہے
زندگی مجھکو آزماتی ہے
جب بھی وہ سامنے مرے آئے
میری آواز لڑکھڑاتی ہے
حال دل اسکو کیا سناوں میں
دور رہ کر وہ مسکراتی ہے
شہرتیں کس قدر ملیں اسکو
اسکی تصویر بھی کماتی ہے
رشک آتا ہے اپنی قسمت پر
بے سبب مجھکو آزماتی ہے
جانے کس بات پر تمہیں اکبرؔ
اپنی تقدیر بھی رلاتی ہے
(ڈاکٹر چندا حسینی اکبرؔ ، گلبرگہ)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں