نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قیلولہ اوریادداشت

                                                                                قیلولہ اوریادداشت                        
                                                                                                                                                عندلیب آمنہ



جرمنی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مختصرترین قیلولے سے بھی انسان کی ذہنی کارکردگی پرمثبت اثرپڑتا ہے۔رسالہ نیوسائنٹسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف چھ منٹ کے لئے آنکھیں بندرکرےآڑم کرنا بھی یادداشت پراچھا اثرڈالتا ہے،یعنی یہ مختصرترین قیلولہ بھی دماغ میںیادداشت کی صلاحیت بہترین بنادیتا ہے۔تاہم برطانیہ کے ایک تحقیق کارنے اس بات سے اتفاق نہیں کیا اورکہا کہ یادداشت پرمثبت اثرات کے لئے نسبتاً لمبی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔
            درجنوں تحقیقی کاموں میں نیند اوریادداشت کے باہمی تعلق کا کھوج لگانے کی کوشش کی گئی ہے اوراس بات کے واضح شواہد ملے ہیں کہ سونے اورجاگنے کا یہ سلسلہ اس ضمن میں اہم کردارادا کرتا ہے۔اس حالیہ تحقیق میں سائنس دانوں نے یہ پتا چلانے کی کوشش کی کہ کتنی کم سے کم نیند ہماری یادداشت پرقابل ذکراثرات مرتب کرسکتی ہے۔ان تحقیق کاروں نے کچھ رضاکاروں کواپنے تجربوں میں شامل کیا اوریہ دیکھا کہ ان چند رضاکاروں کی ذہنی کارکردگی جوچھ منٹ سولئے تھے،ان باقی رضاکاروں سے بہتررہی جوسونہیں سکے تھے۔
            بعض سائنس دانوں کا نظریہ یہ ہے کہ ذہن میںیادداشت قائم رکھنے اوراسے نکھارنے کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب انسان گہری نیند میں ہواورگہری نیند کا یہ مرحلہ اس وقت کے کم از کم بیس منٹ بعدآتا ہے،جب انسان سونا شروع کرتا ہے۔تاہم اس نئی تحقیق سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ جونہی ایک شخص سوئے اس کے دماغ میں ایسا عمل شروع ہوجائے،جویادداشت پراچھااثرڈالے اوراس عمل میں نیند کی کمی بیشی کوکوئی دخل نہ ہو۔اس نے مزید بتایاکہ یہ پہلاموقع ہے کہ اس کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ اس قدرکم وقفے کی نیند بھی یادداشت پراچھا اثرڈال سکتی ہے۔
            ایک برطانوی سائنس داں نے کہا ہے کہ یہ نظریہ کہ صرف چھ منٹ کی نیند ذہنی کارکردگی کوبہتربناسکتی ہے دلچسپ اوراچھوتی بات ہے لیکن اس سلسلے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے اورمزید تحقیق درکارہے۔کیونکہ ابھی تک سائنس داں یہی کہتے رہے ہیں کہ یادداشت کے عمل پربہتراثرات کے لئے چھ منٹ سے کہیں زیادہ نیند درکارہوتی ہے۔
                                                                                                          بحوالہ : http://www.fikrokhabar.com


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور