غزل
Hassan Mehmood, Gulbarga
|
زندگی تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
اک
ترے غم کے سوا کچھ بھی نہیں
دُشمنوں سے تو ہوا کچھ بھی نہیں
دوستوں سے بھی ملاکچھ بھی نہیں
جان دے کر بھی دیا کچھ بھی نہیں
مجھ میں تھا اِس کے سوا کچھ بھی نہیں
ہار پر اُس کو گلہ کچھ بھی نہیں
جیت کر مجھ کو ملا کچھ بھی نہیں
عمر بھر کی نیند ساری اُس کے نام
میری آنکھوں کو ملا کچھ بھی نہیں
رات دن گذرے ہوں جسکے ایکساں
سانس کا پھر سلسلہ کچھ بھی نہیں
دینے والا دے رہا ہے خوب تر
میرے ہونٹوں پر دعا کچھ بھی نہیں
آندھی اور طوفان سارے ہیچ ہیں
سامنے اُسکے چلا کچھ بھی نہیں
کامیابی کیا بھلا اُس کو ملے
وقت پر جس نے کےا کچھ بھی نہیں
وقت کی تیرہ فضا میں دور تک
روشنی کا سلسلہ کچھ بھی نہیں
ڈھونڈتا ہے کیوں سکوں کو جابجا
اِس خرابے میں ملا کچھ بھی نہیں
روز جیتے ہیں یہاں مر مر کے جو
سامنے اُن کے قضا کچھ بھی نہیں
قیس سے پوچھا جنوں کیا چیز ہے
مسکرایا بس کہا کچھ بھی نہیں
..........................
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں