نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

افسانہ ۔۔۔ احساس ندامت از قمرالنسا Afsana .... Ahsas Nadamat by Qamarunnisa


                  افسانہ


قمرالنساء(ریسرچ اسکالرشعبہ اردو و فارسی گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ)


احساس ندامت

           حیا ناز والدین کی اکلوتی اولاد ہے جو لاڈ وپیارکے جھولے میں بچپن سے جھولتی آئی ہے وہ ایک امیرماں باپ کی اولاد اکلوتی تھی جو نہایت ہی حسین و خوبصورت اور نازک لڑکی ہے جسے نازوں سے پالا گیااسکی ہر خواہش ہر ضد کو پورا کرنا اسکے والدین کا اولین فریضہ تھا اسے اپنی خوبصورتی پر بڑا ناز تھا وہ انتہائی خوبصورت اور ذہین لڑکی تھی بچپن سے لےکر کالج تک ہر کلاس میں ٹاپ کیا تھا والدین کی لاڈلی ،ٹیچرس کی چہیتی اور دوستوں کی جان تھی شاید یہ ہی وجہ تھی کہ کسی کو اپنے مقابل کا سمجھنا ہی گنوارا نہیں تھا وہ دنیا  کے ہر شوق سے قریب اور دین سے کوسوں دور تھی۔
          زندگی میں آنے والی ان آسائشوں نے اسے مغرور بنا دیا تھا وہ کالج میں نہ صرف پڑھائی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ دوسری تمام ایکٹویٹیز میں بھی نمبرون تھی وہ ہر مقابلے میں بڑھ چڑھ کر نہ صرف حصہ لیتی بلکہ انعام اول کی مستحق بھی قرار پاتی اور اب تو کالج میں اسکے شوق بھی اونچے ہوگئے تھے وہ اب Beauty contestمیں حصہ لینے جا رہی تھی وہ اخلاقی تعلیم سے کوسوں دور مغربی تعلیم اور تہذیب میں پوری طرح ڈھل چکی تھی اور یہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اسکے لباس کو بھی عریاں بناتی جارہی تھی جینس،ٹاپ ، minis,skirts,and short اسکے پسندید ہ                                                                                                                   لباس تھے جو بنا آستین کے کبھی اسکے بازوں کی نمائش کرتے تو کبھی جینس اور شارٹس اسکے جسم کی چال ڈھال کا پتہ دیتے اور اس beauty contest میں جیتنے کی چاہ نے رہی سہی کسر پوری کردی تھی ۔۔
مما۔۔بیٹا تمہارے بیوٹی کانٹسٹ کی تیاری کیسی چل رہی ہے۔
حیا۔۔۔مما تیاری تو زوروں پر ہے ۔
مما۔۔۔۔تو میری بیٹی ہی اس contestکی winner ہوگی۔
حیا۔۔۔۔جی مما ofcourse۔
مما۔۔۔بیٹا اچھے سے تیاری کرنا اور جیت کرہی آنا۔
حیا۔۔اوکے مما ۔۔بہت بھوک لگ رہی ہے آج کھانے میں کیابنا ہے ؟
مما۔۔۔آج ہماری princessکی پسند کا pizzaآرڈر کیا ہے۔
حیا۔۔۔واومما آئی لو یو۔۔۔
مما۔۔آئی لو یو ٹو
ڈیڈی۔۔ہائے !میری princessکےسے ہو آپ ؟آج بڑی جلدی گھر آگئی ہو کالج سے، کوئی پارٹی نہیں ہے کیا۔
حیا ۔۔نہیں ڈیڈی میں اپنے contest کی تیاری میں بزی ہوں دیکھنا ایسے پرفارم کروں گی سب دیکھتے رہ جائیں گے۔
ڈیڈی۔۔ہماری بیٹی تو ہے ہی princessاسکا مقابلہ کوئی کر ہی نہیں سکتا۔
حیا۔۔۔thank you ڈیڈ ۔
          حیا کو اس بیوٹی کانٹسٹ کی ایسی دھن سوار ہوئی کہ وہ اسے دنیا کی دوسری چیز کی فکر نہیں تھی اسکے چکر میں وہ اپنی پڑھائی کو بھی بھول چکی تھی اسکا سارا وقت ماڈلس کی طرح کیاٹ واک کرنے اور پراکٹس میں گزرنے لگا ااور دیکھتے دیکھتے کانٹسٹ کا دن بھی آن پہنچاآج کے اس شو کے لئے اس نے ایک بہت ہی بے ہودہ اور ماڈرن ڈریس کا انتخاب کیا تھا جو اسکے جسم کے ہر حصے کی نمائش کررہا تھا اور وہ اپنی شرم وحیا کو چھوڑ کر بہت ہی فاتحانہ انداز میں اسٹیج پر اپنی خوبصورتی اور بے شرمی کے جلوے بکھیر رہی تھی سب اسکی خوبصورتی کی تعریف کررہے تھے اور اسکی نازکی اور حسن کوسراہا جارہا تھا اوروہ تمام باتوں پر بڑے ناز وتفاخر سے مسکرائے جارہی تھی اور بلآخر اس کانٹسٹ کے ججس نے اسکو”خوبصورت دوشیزہ“کے خطاب سے نواز ا اور اسکے سر پر خوبصورتی کا تاج پہنا یا گیا اور وہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھی۔
          گھر پہنچتے ہی وہ اپنے ممی ڈیڈی کی بانہوں میں جھولتے ہوئے کہہ رہی تھی میں پھر سے جیت گئی کوئی مجھے نہیں ہرا سکتا اور اسکے والدین اسکی ہاں میں ہاں ملائے جارہے تھے اور اسکی اس خوشی کو سلیبریٹ کرنا چاہتے تھے اسکے بے ہودہ کپڑوں اور ماڈرن ازم کے نام پر جسم کی اس نمائش پر شاداں تھے اسکے ناسمجھ والدین اسکی اس بے حیائی کو کامیابی سمجھ رہے تھے اور اسکو انکریج کررہے تھے اور بیٹی کی اس کامیابی کا جشن منانے کی سوچ رہے تھے کہ اس پارٹی میں کن کن لوگوں کوبلایا جائے اس پر discussچل رہی تھی اور بلآخر ایک گرینڈ پارٹی کا فیصلہ ہوا جس میں شہر کے بڑے بڑے بزنس مین اور رئیس لوگوں کو دعوت نامے دینے کے لئے فہرست تیار ہوئی اور بڑے جوش وخروش کے ساتھ تمام دوستوں اور رشتہ داروں کو اس پارٹی میں مدعو کیا گیا۔
          بہت ہی شا ہانہ طرز کی پارٹی تھی انواع واقسام کے کھانوں سے بھری ہوئی میزیں، خوبصورت طرز سے سجایا ہوا اسٹیج جس پر حیا راج کماری کی طرح بیٹھی ہر ایک کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی پہلے ہی خدا نے حسن کی دولت عنایت کی تھی اس پر کسی ماہر بیوٹیشن نے اپنے فن سے ساحرہ بنا دیا تھا اور وہ تفاخرانہ و فاتحانہ مسکراہٹ لئے جدید تراش خراش کے نام نہاد لباس میں ملکہ عالیہ بنی بیٹھی تھی۔
          ہر مرد و عورت اسکی تعریف میں قصیدے پڑھ رہے تھے اور وہ مسکراتے ہوئے سب کی داد قبول کررہی تھی مختلف قیمتی تحائف دئےے جارہے تھے اور وہ خوشبو کے ہنڈولے میں جھول رہی تھی وہاں موجود سب ہی لوگ بڑے امیر و کبیر تھے ایسے میں اسکے پھوپھو کی آمد ہوتی ہے جو دیندار اور مذہب پرست خاتون ہیں وہ اپنی بیٹی صائمہ کے ساتھ اس پارٹی میں شرکت کرتی ہیں۔ صائمہ جسکی سادگی اور پاکیزگی اسکے حسن کو اور بھی نکھاررہے تھے۔ وہ اس آرائشی دنیا سے الگ کسی اور ہی دیس کی باسی لگ رہی تھی جو گلابی کامدار شلوار سوٹ میں سلیقے سے سرپر دپٹہ جمائے آنکھیں نیچی کئے بہت ہی شائستہ اور مدھم لہجے میں محوگفتگو تھی اور اسکی اسی سلیقہ شعاری کو اس Partyمیں موجود تمام اشخاص محسوس کرکے عزت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور آخر کار رات دیر گئے اس Party کا اختتام ہوتاہے اور حیا کی آنکھوں میں ایک نیاخواب جنم لیتاہے اسکے دل میں ماڈلنگ کا شوق پیدا ہوتاہے اور وہ ماڈل بننے کے خیالوں میں نیند کی وادیوں میں کھو جاتی ہے۔
          حیابیٹا دیکھئے ۱۱ بج گئے ہیں اٹھ جایئے آپکی پھوپھو اور آپکی بہن صائمہ کھانے پر آپکا انتظار کررہی ہیں۔
جی مما.... آرہی ہوں.... وہ تیار ہوکر جب ہال میں داخل ہوتی ہے تو اسکی پھوپھو اسکی بلائیں لیتے ہوئے کہتی ہے ماشاءاللہ میری بیٹی تو بہت بڑی ہوگئی ہے اور بہت ہی خوبصورت بھی۔

السلام علیکم....باجی.... صائمہ حیاءکے قریب جاکر اسے گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے۔ آپ کیسی ہو۔ اور اپنی امی سے کہتی ہے امی جان.... حیاباجی تو بالکل گڑیا کی طرح ہیں
وعلیکم السلام.... میں اچھی ہوں.... وہ فخریہ انداز میں بولتی ہے۔
مما.... بیٹا جاو صائمہ کو اپنا کمرہ دکھاو اور اب یہ جب تک یہاں ہے آپکے ساتھی ہی رہے گی۔
حیا.... برا سا منہ بناتے ہوئے کہتی ہے کہ اب کیا مصیبت آگئی چلو صائمہ۔
صائمہ ....جی اچھا دیدی۔
باجی .... آپکا گھر تو بہت ہی بڑا ہے۔
ہاں.... بے دلی سے مسکراتے ہوئے یہ میرا کمرہ ہے۔
ماشاءاللہ آپ کا کمرہ تو بالکل کسی راج کماری کی طرح ہے باجی۔
صائمہ .... Thanks ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔
حیا.... جی باجی آپ نے اپنے آپ کو اس طرح ڈھک کے کیوں رکھا ہے یہ head scarfing کیوں کی ہے آج کل کون یہ سرپر ڈوپٹہ اوڑھتاہے اسکی وجہ سے تمہاری صورت بھی پوری طرح سے دکھائی نہیں دے رہی اور نہ ہی تمہارا ہیر اسٹائل یہ کیوں پہنا ہے کیا تم پر پھوپھونے اس کی پابندی لگائی ہے۔
صائمہ .... نہیں باجی.... بالکل نہیں یہ تو میری خواہش ہے ہاں امی جان نے بہت کچھ سکھایا ہے کہ ہماری مسلمان خواتین اور لڑکیوں کو کس طرح زندگی گزارنی ہے مگر انہوں نے یہ سب زبردستی نہیں کی بلکہ میں یہ سب خود اپنی مرضی اور خوشی سے کرتی ہوں۔
حیا....بھلا تم کیسی لڑکی ہو.... کیا تم کالج نہیں جاتی وہاں تمہارا کوئی مذاق نہیں اڑاتا۔
صائمہ .... باجی.... لوگوں کی اپنی رائے ہے اچھی ہو یا بری میں یہ سب اپنے لئے کررہی ہوں کسی کے لئے نہیں۔
حیا.... اوکے جیسے تمہاری مرضی۔
صائمہ....میں فریش ہوکر آتی ہوں۔
حیا.... اوکے۔
صائمہ....فریش ہوکر جیسے ہی روم میں داخل ہوتی ہے اسکی نظر حیا پر پڑتی ہے اور وہ حیا سے کہنے لگتی ہے باجی یہ کیا پہنا ہے وہ حیا دیکھ کر ششدر ہوجاتی ہے۔
حیا.... دیکھو ہے نا میرا ڈریسنگ سینس کمال کا۔
صائمہ.... باجی آپ اسکو ڈریس کہتی ہیں جو آدھے سے زیادہ آپکی جسم کی نمائش کررہے ہیں۔ باجی مجھے یہ سب پسندنہیں.... ہاں آج اسکی مانگ ہے مگر کیا فائدہ ایسے کپڑوں کا جو جسم کو ڈھکنے کے بجائے اسکو دکھانے کے کام آئے کہیں سے بازو دکھائی دے رہے ہیں تو کہیں سے پیٹ.... کیا ماڈرن کپڑوں کا مطلب جسم کی نمائش ہے۔
حیا....Shut up صائمہ تمہیں کیا پتہ فیشن کا....(حیا کی بات کاٹتے ہوئے)
صائمہ .... باجی اگر یہ فیشن ہے تو میں بنافیشن کے ہی ٹھیک ہوں ۔
حیا.... ہاں تم پرفیشن جچتا بھی نہیں دوگز کا ڈوپٹہ میں اپنے آپکو جو چھپایا ہے پتہ نہیں تم کس دور میں جی رہی ہو۔
صائمہ.... ہاں باجی ٹھیک کہا آپ نے فیشن کے نام پر میں ایسی بے شرمی کبھی نہیں کرسکتی نہ میری تہذیب اس بات کی اجازت دیتی ہے نہ میرا دین ۔
حیا.... پھر تو بڑی اولڈ فیشن ہو۔
صائمہ .... کیا دین کی باتوں پر عمل کرنا اور ہیڈ اسکارفنگ کرنا، اپنے تن کو ڈھانپنے والے کپرے استعمال کرنا اولڈ فیشن ہے۔
حیا.... پھر نہیں تو کیا ہم لوگ آج کے اس ترقی یافتہ ماڈرن زمانے کے ہیں ہمیں ماڈرن ازم کو اپنا ناچاہیئے آج کے فیشن کے ساتھ چلنا چاہئے۔ اب تم خود کو دیکھ لو سر سے پاوں تک شلوار سوٹ میں خود کو ڈھک کر رکھاہے۔ تمہیں کوئی دیکھے گا بھی نہیں۔ اور میں نے Beauty contest جیتاہے اور سب سے حسین دوشیزہ کا خطاب پایا ہے۔ جانتی ہو کیوں۔ کیوں کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا جانتی ہوں۔
صائمہ....واہ باجی بہت خوب.... یہ بے شرمی اور بے حیائی ماڈرن ازم ہے ایسے خود کی نمائش کرواکے دادوتحسین حاصل کرنا خوبصورتی کی دلیل ہے تو اللہ بچائے مجھے ایسے عذاب سے۔
حیا.... دیکھو صائمہ تم مجھے لیکچر مت دو مجھے میرے والدین نے کبھی کسی بات کے لئے نہیں روکا تم ہوتی کون ہو؟ مجھے تاکید کرنے والی گنوار جاہل کہیں کی۔
صائمہ .... بالکل خاموش کھڑی یہ سب سنتی ہے اور دل ہی دل میں اللہ سے دعا کرتی ہے اے اللہ تورحم کرنے والا ہے میری بہن کی حفاظت فرما۔
اسکی اس مقابلے میں جیت نے اسکا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچادیا تھا رہی سہی کسر اسکے دوستوں نے میڈیا پر اسکی تصاویر اپ لوڈ کردی تھی جہاں اسکے Viewersکی ایک لمبی لائن تھی اور یہ سب سن کر وہ بڑی ہی خوش تھی.... مگر کچھ دن بعد ہی اسے بےہودہ مسیج آنے لگے کئی کالس آنے لگی گندے اور واہیات کمنٹس کئے جانے لگے جس سے وہ اندر ہی اندر پریشان ہوجاتی ہے اور ان تمام چیزوں سے ایک ڈر اور خوف سامحسوس کرنے لگی ہے اور وہ پریشان ہوجاتی ہے۔ اور اس مسئلے سے نپٹنے کا کوئی راستہ سمجھ نہیں آتااسکا ماڈرن ازم صرف فیشن اور ماڈرن کپڑوں تک ہی محدود تھا اس نے کبھی کوئی اس سے آگے غلط کام نہیں کیاتھا نہ لڑکوں سے کوئی قریبی دوستی تھی نہ اسکا کوئی بوائے فرینڈ تھا۔
          اس فیشن اور ماڈرن ملبوسات نے اسکو پریشان کرکے رکھ دیا تھا ایک دن وہ اپنی فرئینڈ عائزہ کے برتھ ڈے پارٹی سے واپس آرہی تھی کہ اس پارٹی میں موجود کچھ اوباش اور بدتمیز لڑکے اسکو چھیڑنا شروع کردیتے ہیں بے ہودہ اور گندے فقرے کستے ہیں کوئی کہتاہے
کہاں جارہی ہو میری جان
کوئی کہتاہے.... اکیلے اکیلے کہاں جارہے ہو ہمیں ساتھ لے لو جہاں جارہے ہو۔
حیا.... کوایک انہونی کا احساس ہوتاہے اور وہ گھبراکر دیوانہ وار بھاگنے لگتی ہے اور وہ آوارہ لڑکے اسکو پکڑکر گاڑی میں لے جانے والے ہوتے ہیں پولیس کی گاڑی کا سائرن سن کر اسے اسی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوجاتے ہیں اور حیا ہانپتی کانپتی اپنے گھر پہنچتی ہے دروازے کی بیل پر ہاتھ رکھ کر ہٹانا بھول جاتی ہے۔
          پریشان آلودہ چہرہ پسینے سے نہائی ہوئی ہواس باختہ کیفیت لئے وہ دیوانہ وار بیل بجاتی ہے اور دروازہ صائمہ کھولتی ہے اور حیا کی یہ حالت دیکھ کر وہ پریشان ہوجاتی ہے اسکو ڈرا سہما دیکھ کر اسکی بھی حالت دگرگوں ہوتی ہے۔
حیا باجی کیا ہوا اپنے آپ کو یہ کیسی حالت بنالی ہے آپ نے۔
حیا.... صائمہ جلدی سے دروازہ لاک کرلو وہ بدمعاش گھر میں گھس آئیں گے۔
کون لوگ باجی .... کیا ہوا ہے کچھ تو بتائیں۔
اور حیا صائمہ کے گلے لگ کر سسک سسک کر رونے لگتی ہے۔
صائمہ ڈر کے مارے اسے تسلی بھی دے نہیں پاتی۔
صائمہ .... وہ غنڈے مجھے کچھ کردیں مجھے بچالو صائمہ۔
مما.... مما.... مماکہاں ہیں مماکو بلاو۔
صائمہ.... باجی کچھ نہیں ہوگا میں ہوں نا آپ کے ساتھ گھبرائے مت.... آپ بتایئے ہوا کیا۔
حیا.... صائمہ میں جب پارٹی سے نکلی تو کچھ آوارہ لڑکے مچھ پر عجیب فقرے کسنے لگے اور میرا پیچھا کرنے لگے اگر میں انکے ہاتھ لگ جاتی تو پتہ نہیں کیا ہوجاتا۔ میں بڑی مشکل سے گھر تک پہنچی ہوں۔
صائمہ.... اے مالک اے پروردگار تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے جو تو نے میری باجی کو صحیح سلامت گھرتک پہنچادیا انکی حفاظت فرمائی! اور ہمیشہ ان کو اپنے حفظ و آمان میں رکھنا۔ آمین!
حیا....بڑی معصومیت سے اسکو دعا کرتا دیکھتی ہے اور اسکے آمین کہنے پر خود بھی آمین کہتی ہے۔
صائمہ.... باجی آپ بہت خوبصورت ہیں میں جانتی ہوں اور ایک عورت کا کردار جتنا مضبوط ہوگا اسکا مقام بھی اعلیٰ ہوگا۔ آپ نے نئے زمانے کے ساتھ چلنا تو سیکھا لیکن پرانی اقدار کو بہت پیچھے چھوڑ دیا آپ نے عورت کے لباس اور اسکی حیا اسکی عظمت و عفت اور اسکی پاکیزگی کو بھلادیا۔ سرپر دوپٹہ لڑکی کی شخصیت میں چار چاند لگادیتاہے زلفیں کتنی حسین کیوں نہ ہو لیکن تعظیم سرپر دوپٹہ کرواسکتاہے باحیاعورت والدین کے لئے باعث فخر ہے بھائیوں کے لئے باعث عزت، شوہر کے لئے دنیا کا قیمتی سرمایہ اولاد کے لئے عمدہ نمونہ ہے۔ اور تم اس نام نہاد فیشن پر اپنی عظمت، عصمت کو قربان کرنے چلی تھیں باجی آپ دل کی اچھی لڑکی ہو بس اس فیشن پرستی اور اندھی تقلید نے آپ کو آج اس مقام پر لاکھڑا کردیاہے عورت کے معنی ڈھکی چھپی چیز کے ہیں۔ اگر وہ اپنی اس صفت کو جان لے پہچان لے تو دنیا و آخرت دونوں جہاں میں کامیاب ہوگی حیا ناز آپکا نام ہے جانتی بھی ہو اسکے معنی کیا ہیں عزت و فخر والی اور آپ نے حیا کا مطلب بھی نہیں جانا۔ اتنا کہہ کر صائمہ چلی جاتی ہے۔ اور حیا کے لئے ان گنت سوچوں اور پچھتاوں کے دروازکرتی چلی جاتی ہے۔ حیا صائمہ کی باتوں کی گہرائی اور لفظوں کے تقدس سے عورت کی عظمت میں کھوجاتی ہے۔


٭٭٭٭٭




تبصرے

  1. بہت اچھا افسانہ لکھا ہے قمر بہت بہت مبارک اللہ کرے خوب ترقی ملے آپ کو

    جواب دیںحذف کریں
  2. قمرالنساء! آپ کی اچھی ابتدا ہے۔آپ کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. Assalamu alaikum
    Qamrunisha ji aapne bhut achcha afsana likha hai esi trha aap aapni qabiliyat ka muzahira pesh krein

    جواب دیںحذف کریں
  4. یہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. Aslmkm.
    Afsana behad purkashish hai aur is main jadidiyat ka ahsas hota hai afsana padhne ke bad ayesa lagta hai afasne Niger ko mashriqi aur maghribi afsanai aadab par yeksan ubur hasil hai. Aurat Yanhan aurat nahe rahgai balke ek wasitar maqloq ka juzu hai. Puri insani zindegi ki akai hai. Jo waqt ka shikar bhi hai aur shikari bhi hai ....
    Khuda aapke khalam main aur zarkhezi aata farmaye !

    جواب دیںحذف کریں
  6. Aslmkm.
    Afsana behad purkashish hai aur is main jadidiyat ka ahsas hota hai afsana padhne ke bad ayesa lagta hai afasne Niger ko mashriqi aur maghribi afsanai aadab par yeksan ubur hasil hai. Aurat Yanhan aurat nahe rahgai balke ek wasitar maqloq ka juzu hai. Puri insani zindegi ki akai hai. Jo waqt ka shikar bhi hai aur shikari bhi hai ....
    Khuda aapke khalam main aur zarkhezi aata farmaye !

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period