نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں
محمد مسیح اللہ  (لکچرر)

منشی پریم چند کا افسانہ ’’بوڑھی کاکی‘‘

منشی پریم چند، اصل نام دھنپت رائے۔ ادبی زندگی کا آغاز ناول نگاری سے کیا۔ پھر افسانہ کی طرف متوجہ ہوئے انکا پہلا افسانہ ‘‘انمول رتن’’ 1908 میں شائع ہوا۔ اسی سال ان کے افسانوں کا مجموعہ ‘‘سوز وطن’’ منظر عام پر آیا۔ پریم چند نے بارہ ناول اور تین سو سے زائد افسانے لکھے۔ انکا افسانوی ادب اپنی بے مثال حقیقت نگاری کے سبب انفرادیت رکھتاہے۔  انہوں نے اپنے افسانوں میں دیہات کی زندگی کی کامیاب عکاسی کی ہے۔ انکے افسانوں کا موضوع ظلم و استبداد کے خلاف احتجاج۔ سماجی انصاف کی خواہش حب الوطنی اور انسان دوستی انکے افسانوں کے نمایاں موضوعات ہیں۔

 افسانہ ‘‘بوڑھی کا کی’’ ان کے نمائندہ افسانوں میں سے ہے۔ اس افسانے میں پریم چند نے انسانی اقدار سے عاری ایسے انسانوں کو موضوع بنایا ہے جو نہ صرف حددرجہ مفاد پرست اور خود غرض ہوتے ہیں بلکہ اپنے ہی بزرگوں سے تحقیر آمیز اور ناروا سلوک کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔
          اس افسانہ میں  چھ کردار ہیں۔ ۱) بدھ رام   ۲)  روپا        ۳) بوڑھی کاکی   ۴) سکھ رام     ۵) چھوٹا بھائی   ۶)لاڑلی
بدھ رام: کاکردار اس افسانے میں ایسا کردار ہے جو خود غرض مفادپرست انسان ہے۔ جو اپنی پھوپی کی جائداد لیتے وقت تو بڑی اونچے دعوے کرتے ہیں لیکن اسکو کھانے پینے اور ضروریات زندگی کیلئے ترساتے ہیں۔
          اور یہ کہانی بدھ رام کے بڑے بیٹے سکھ رام کے تلکل کی دعوت کی ہے۔ جسمیں ہزاروں روپئے خرچ کرکے سارے گاؤں کی خوشنودی حاصل کرتاہے۔ لیکن جسکی دولت سے شان جتانے والی زندگی ملی اسی کو بھلادیتاہے۔ اور دوسرا کردار ‘‘روپا’’ کا ہے۔ جو بدھ رام کی بیوی ہے۔ اور یہ ایک تیز طرار عورت ہے۔ جو بوڑھی کا کی پر غصہ کا اظہار کرتے ہوئے برس پڑتی ہے۔ مہمانوں کے سامنے بوڑھی کاکی کو ڈانٹتی ہے اور برابھلا کہکر واپس کمرے میں جانے پر مجبور کرتی ہے۔ اور اسکو کھانا نہیں دیتی۔ اور یہ کہتی ہے کہ تم کوئی دیوی نہیں ہو کہ مہمانوں سے پہلے تمکو کھانے دیں۔
          اندھیری کوٹھڑی میں بوڑھی کا کی خیال غم کی تصویر بنکر لیٹ جاتی ہے۔ اور رات گیارہ بج جاتے ہیں۔ اور آنکھ کھلتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ سارے لوگ کھاکر جاچکے ہیں۔ اور کوئی بیدار نہیں کیا۔ اتنے میں لاڑلی اپنے حصے کی پوریاں لیکر آتی ہے۔ اور آواز دیتی ہے۔ کہ کاکی اٹھو میں پوریاں لائی ہوں۔ تو بوڑھی کاکی اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے ۔ لاڑلی کی لائی ہوئی پوریاں چٹخارے لیتے ہوئے کھاتی ہے لیکن سیر نہیں ہوتی۔  اور لاڑلی کے سہارے جھوٹے برتنوں کے پاس جاکر مہمانوں کے بچائے ہوئے پوریوں کے ٹکڑے چن چن کر کھاتی ہے۔ اتنے میں روپا جاگ جاتی ہے۔ اور لاڑلی کو اپنے قریب نہ پاکر پریشانی کے عالم میں تلاش کرتے ہوئے آنگن کی طرف دوڑتی ہے۔ تو کیا نظارہ دیکھتی ہے کہ لاڑلی چپ چاپ کھڑی ہے۔ اور بوڑھی کاکی چھوٹے پتیلوں سے بچے ہوئے ٹکڑے چن کر کھارہی ہے۔ روپا کا کلیجہ سن سا ہوکررہ جاتاہے۔ اور ایشور سے معافی مانگتی ہے کہ پرماتما! میرے اس گناہ کا بدلہ مری اولاد کو نہ دینا۔
          اس افسانہ کا تیسرا کردار ‘‘بوڑھی کاکی’’ جو ایک ضعیف العمر برہمن بوڑھی ہے۔ جسکے شوہر کے انتقال ہوکر ایک لمبا عرصہ گذرگیا اور جوانی میں سات بیٹے اک بعد دیگرے داد مفارقت دے جاتے ہیں۔ اور بھتیجے بدھ رام کے سوا اسکا کوئی وارث نہیں ۔ اپنی ساری جائداد اپنے بھتیجے بدھ رام کے نام لکھ دیتی ہے۔  اور اس افسانہ کا چوتھا کردار بدھ رام کے بڑے بیٹے سکھ رام کا ہے۔ جو ایک سنجیدہ اور سمجھدار لڑکا ہے۔ اور پانچواں کردار بدھ رام کے دوسرے لڑکے کا ہے جو انتہائی شریر لڑکا ہے اکثر بوڑھی کاکی پر پانی کی کلی کرتاہے۔ اور ہمیشہ دق کرتاہے۔ البتہ چھٹا کردار لاڑلی۔ جو بدھ رام کی بیٹی ہے۔ اور یہ ایک معصوم لڑکی ہے جو بھولی بھالی سیدھی سادھی۔ بوڑھی کا کی سے زیادہ قریب اس لئے ہے کہ دونوں بھائیوں سے کھاتے وقت چھین جھپٹ کے ڈر خوف سے بوڑھی کا کی کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ اور دونوں میں انسیت پڑھ جاتی ہے۔ اور وہ بوڑھی کا کی کیلئے بہت ہی نرم دل اور ہمدردی کا رویہ رکھتی ہے۔
          اس افسانے کی تین پلاٹ ہیں پہلے پلاٹ میں منشی پریم چند نے بڑھاپے کی حقیقت اور بوڑھے لوگوں کی کیفیت اور انکے نفسیات کی منظر کشی کی ہے۔ بوڑھوں کا مزاج کیسا ہوتاہے اور وہ کس قدر بے برداشت ہوتے ہیں۔ اور سوائے حسِّ ذائقہ کے تمام حواس جواب دی دیتے ہیں۔
          اور دوسرے پلاٹ میں سکھ رام کے تلک کے فنکشن کی تیاری اور مہمانوں کی آمد تلک کے رسم کی انجام دہی کو بیان کرتے ہوئے انکی مہمان نوازی کا منظر کھینچاہے۔
          اور تیسرے پلاٹ میں بوڑھی کاکی کے ساتھ ہونے والے ناروا سکول اور ضیافت کے اختتام کا منظر پیش کیاہے۔ اور رات گیارہ بج گئے بوڑھی کاکی کے چھوٹے برتنوں میں سے ٹکڑے چن کر کھانے کی دل سوز حرکت کو واضح کیاہے۔ اور اسکا اثر بھی نمایاں کردیاہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو