نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

محمد یعقوب بیگانہ بحیثیت شاعر از استاد عبدالرشید


محمد یعقوب بیگانہ بحیثیت شاعر

         
 محمد یعقوب بیگانہ نے ایک شاعر کی حیثیت سے کم وبیش تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ حمد ، نعت ،نظم ،غزل ،مرثیہ ،قطعات وغیرہ لکھے ہیں۔ آپ کی تین شعری تصانیف منظرِ عام پر آچکی ہے۔ جن کے عنوان ” انسان بنو ،حنائے غزل اور عدم کاسفر ہے ۔ا ن کے مجموعہ ” انسان بنو اور عدم کاسفر“ میں نظموں کی کثرت ہے جب کہ مجموعہ ” حنائے غزل “ غزلیہ شاعری پر مشتمل ہے۔
           بیگانہ کے کلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کے خیالات احساسات اور مشاہدات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔آپ کے کلام کی برجستگی ،سادگی اور صاف گوئی کے بدولت ان کے نغموں میںحسن وتاثیر کی شان پیدا ہوئی ہے۔ ان کے شعری سرمایے میں دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں نظمیہ شاعری کا پلہ بھاری ہے۔ انہوں نے پابند نظموں کے علاوہ دو چار آزاد نظمیںبھی لکھی ہیں ۔ جن کے مطالعے سے انداز ہ ہوتاہے کہ آپ آزاد نظمیں بھی کامیابی کے ساتھ لکھے سکتے ہیں۔ آگے کے صفحات میں آپ کے تین شعری مجموعے کا مقدور بھر جائزہ لیا گیا ہے۔

 انسان بنو:
          انسان بنو“ محمد یعقوب بیگانہ دھرم کوٹوی کاپہلا شعری مجموعہ ہے جو 1996-97ئ میں کرناٹک اردو اکاڈمی کے مالی اشتراک سے منظر عام پر آئی ۔ ڈیمائی سائز کی یہ کتاب ہے 122صفحات پر مشتمل ہے۔ بیگانہ نے یہ کتاب اپنے فرزند محمد مجاز اور اپنے استادِ محترم ابراحسنی گنوری کے نام معنون کی ہے ۔
           اس مجموعے میں حمد ونعت کے علاوہ 29نظمیں اور35غزلیں شامل ہیں۔ بیگانہ نے ”اپنا تصور “ کے نام سے جو دیباچہ لکھا ہے اس کے جائزے سے ایک بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ جدید شاعروںاور ادیبوں نے جدت طرازی کے جنون میں بے تکی باتیں کہنے کوطرہ امتیاز سمجھ رکھا ہے۔ جب کہ اصنافِ شاعر کی ہئیت بدل جانے اور بے صد پاباتیں کرنے سے اردو شاعری کاحسن پامال ہوچکا ہے۔ا ورشاعری یکسر بے اثر ہو چکی ہے۔ اسی ایک سبب سے اردوا دب کے قاری ادب سے دور وہ چلے ہیں۔بیگانہ کہتے ہیں۔ جدت پسندوں کی جدت طرازی شعر ادب تک ہی محدود نہیں بلکہ نثری ادب بھی ان کے آلہکار کانشانہ بنا ہواہے۔ جس کا بیگانہ کو بے ح ملال ہے۔
           بیگانہ ادب کوزندگی کا آئینہ تصور کرتے ہیں ۔جس کے باعث قاری کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اس کے مطالعے سے آسودگی میسر آتی ہے ۔ ادیبوں اور شاعروں کی موجودہ روش سے محسوس ہوتاہے کہ وہ ادب کے مقاصد سے غافل ہوچکے ہیں بیگانہ کی نظر کلاسیکی اردو ادب کے حسن اور اس کے تاب وتوانگی پر ہے۔ یہ ادب کی بدلتی روش سے مطمئن نہیں اور اردو ادب کو ایک بڑے خسارے سے محفوظ رکھنے کےلئے اپنی ذات سے جس قدر ممکن ہوسکے کوشش کرتے ہیں۔ بگڑے شاعروں اور ادیبوں کی ضررسائ؛ی سے ادب کو بچانے کے لئے صاف سیدھی اور فکر انگیز شعر کہنے لگتے ہیں۔ درا صل یہ جدت پسند شاعری کا رد عمل ہے۔ بیگانہ کو یقین ہے کہ ان کے خیالات اور امن کاشعری اسلوب قارئین کو آسودگی کاسامان بہم پہنچائے گا۔
           آئےے دیکھیں کہ وہ اپنے قول وفعل میں کتنے کھرے اترتے ہیں ۔بیگانہ کے شعری مجموعہ ” انسان بنو“ کاتنقیدی جائزہ لینے سے پہلے ایک بات یہاں کہنا ضروری سمجھتاہوں کہ بیگانہ نے اس کتاب کے دیباچے میںجدید شعری ونثری ادب کو سرے سے جو مسترد کردیا ہے وہ صحیح نہیں بلکہ یہ ان کی شدت پسندی ہے اور جدید ادب پر ان کی کھلی زیادتی ہے ۔ یہ بات میانہ رو ادیب وناقد بلکہ قاری بھی تسلیم کرتاہے کہ جدید یت کی جانبداری کو خصوصابڑا نقصان پہنچا یا ،مگر اس کے بر خلاف سنجیدہ مزاج ترقی پسند شاعروں نے اپنی جدید اور سلجھے ہوئے انداز بیان اور اسلوب اور فکر کی پاکیزگی سے اردو شاعری میں تازگی پیدا کی ۔ہماری شاعری جو ادب برائے ادب کی حد بندیوں میں اسیر تھی اسے آزاد کرکے اس پر احسان عظیم کیا ۔نظم نگاری میں ہئیت کے نئے تجربوں کی بنا پر شاعری کے حسن وقارمیں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے انحراف عدل وانصاف سے رو گردانی کے مترادف ہوگا۔ میں یہاں چند ترقی پسند مقبول شاعروں کی کوششوں کے اظہار کو ضروری سمجھتاہوں جن کے فیض سے اردو شاعری کے حسن میں چار چاند لگ گئے۔
           معین احسن جذبی ترقی پسند شاعر ہونے کے ساتھ انہوں نے کلاسیکی شاعری سے اپنا رشتہ مستحکم رکھا۔ ترقی پسند ی کے مقصد سے وہ بخوبی واقف تھے ۔ وہ اردو ادب کو عوامی زندگی کا عکاس بنانا چاہتے تھے۔ اس کے ذریعے عصری زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور سلجھانا چاہتے تھے ۔خلیل الرحمن اعظمی کی جذباتی کے متعلق یہ رائے ہے کہ ان کاکلام شروع سے آخر تک ایک ہزار شخصیت کے ذہنی ارتا کی ترجمانی ہے۔
           جذبی نے اردو غزل کو ایک دلآویز اور پر کشش لہجہ عطا کیا ہے۔ انہوں نے الفاظ سے معنی کے رشتہ کو قائم رکھا۔
ہر خار زارغم سے گزرتے ہیں اہل غم
پرنرمی خرامِ نسیم چمن لئے

          جذبی کا نرم اور گداز لہجہ دلوں پر خاص اثر چھوڑتاہے۔
           مجروح سلطان پوری بھی کلاسیکی ادب سے اپنا رشتہ مستحکم رکھتے ہوئے اور جدید لہجہ کو بھی ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیں۔ ان کے لہجے میں بلند آہنگی کا احساس ہوتاہے۔
ہم روایت کے منکر نہیں لیکن مجروح
سب کی اور سب سے جدا اپنی ڈگر ہے کہ نہیں
           خلیل الرحمن اعظمی اردو کے نہایت معروف شاعر ہیں ۔ جو پہلے ترقی پسند بعد میں جدیدیت پسند بنے ۔مگر انہوں نے اُردو کے مقبول اساتذہ سے اپنا رشتہ مضبوط رکھا ۔ خصوصاً میر کے نرم اور گداز لہجے کو اپنا نے کی کامایب کوشش کی۔ وہ خودکہتے ہیں ۔” مجھے ان کے یہاں غم پرستی کے بجائے غم سے نبرد آزما ہونے اور اس زہر سے امرت نکالنے کا سلیقہ نظر آیا۔۔۔۔۔۔۔ اس آواز کا سوانح مجھے نہ ملتا تو میری روح کا غم جو اندر سے مجھے کھا ئے جارہاتھا نہ جانے مجھے کن اندھی وادیوں کی طرف لے جاتا۔
کھڑکیاں جاگتی آنکھوں کی کھلی رہنے دو
دل میں مہتاب اتر تا ہے اسی زینے سے
          بہر کیف چند شدت پسند ادیبوں اور شاعروں سے جن کا تعلق ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق سے تھا اردو ادب کو ضرور نقصان پہنچا ہے۔ مگر ان دونوں مکاتب فکر کے چند میانہ رو اور سنجیدہ ذہن ادیبوں اور شاعروں سے اردو کا نیا دلآویز گلشن کھلا ہے جس کی مہک اور رعنائی سے دلوں کو تازگی اور آسودگی میسر آتی ہے۔ لہٰذا جدید شاعری کو یکسر مسترد کرنا حق وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ دینا ہے۔
           اس کتاب کی پہلی نظم حمد ہے جو سات شعروں پر مشتمل ہے ۔یہ غزل کی شکل میں لکھی گئی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کے گن گائے ہیں۔ ایک شعر میں انسان کی بے بسی اور مجبوری کاذکر کیا گیا ہے کہ انسان اللہ کانائب ہونے کے باوجود اس کی بے پناہ قدرت کوسمجھنے سے قاصر ہے ۔آدمی کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ وہ سورج سے آنکھ نہیں ملا سکتا جب کہ اس کی تابنا کی اس سے ہزاروں لاکھوں گناہ زیادہ ہے ۔ زیر نظم تو سادہ سلیس لگتی ہے مگر وہ ایک جگہوں پر اساس کی پیچیدگی کھٹکتی ہے ۔
          بیگانہ کے شعری مجموعہ”ا نسان بنو “ میں 35غزلیں شامل ہیں ۔ ان کے شعروں کی کل تعداد دو سو پینتیس ہے۔ اردو شاعری میں صنفِ غزل کو جو مقبولیت نصیب ہوگی کسی اور صنف کو نصیب نہ ہوئی ۔ کہنے والوں نے تویہاں تک کہہ دیا کہ غزل اردو زبان وادب کی آبرو ہے ۔ غزل کی جن خوبیوں نے اسے ہر دلعزیز بنایا ہے وہ ہیں۔ تغزل ، محسوسات کی بر جستہ بیانی یعنی اس کا فطری بہا جسے حسن بیان بھی کہنا درس ہے۔ جس میں گھلاوٹ اور شیرینی ہوتی ہے ۔ پھر زندگی کی تسلیم شدہ حقیقتوں کا اظہار ہے۔ جس سے شاعری میں تابندی کے ساتھ توانائی بھی آتی ہے۔ ان کے علاوہ جامعیت بھی اس کا حسن ہے جس سے قوت تاثیر ابھرتی ہے ۔
          بیگانہ نے نظم نگاری میں اپنی معلومات اور مشاہدات کو سمونے کی کوشش کی ہے۔ ان کی بعض نظمیں اچھی اور بہت اچھی ہیں اور بعض کاحال بہت برا بھی ہے جس کاتذکرہ کرنا مناسب نہیں ہے ۔جہاں تک غزل گوئی کے فن میں بیگانہ نے اپنے جوہر دکھانے کی کوشش کی ہے ان کی روشنی میں کس قدر ناقد کو اطمینان ضرور ہوتاہے۔ان غزلوں کے بیچ منتخب اشعار کی تعداد بھی خاصی ہے ۔ا پنی منتخب شعروں کی روشنی میں ان کے طرز بیان اور نگ تخیل کاجائزہ لیاجاسکتا ہے۔سب سے پہلی بات یہ کہ ان کے شعروں میں تغزل کی شان پائی جاتی ہے۔ در اصل یہی وہ عنصر ہے جو غزل کوغزل بناتا ہے ۔غالب اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ۔
ہر چند ہو مشاہد حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے باد وساغر کئے بغیر

                                                                   استاد عبدالرشید
                                                         ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو کوئمپو ےونےورسٹی
                                                           سیہادری کالج کےمپس شےموگہ ۔کرناٹک
         

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو