افسانہ
‘‘دعا’’ کا جائزہ
سید
محمد اشرف نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کہانیوں سے کیا اور بہت کم عرصہ میں دور
جدید کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شامل ہوگئے اور اپنا ایک مقام بنالیا۔ انہوں نے
افسانہ نگاری میں انسانی اقدار کی پامالی معاشرتی عدم مساوات کا کرب اعلیٰ اقدار
کی زوال پذیری کو موضوع بنایاہے۔ زبان و بیان پر فنکارانہ گرفت کردار کے انتخاب
میں بیدار بغزی کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ انکے فنی مہارت کا عکس ہے جو انکے افسانوں سے
جھلکتاہے۔
انکےافسانوں میں سادگی اسلوب کے علاوہ فطری پن نمایاں نظر آتاہے۔ انکے
افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ‘‘ڈار سے بچھڑے’’ اور ‘‘بادصبا کا انتظار’’ اور
ایک ناول بھی شائع ہوچکی ہے۔
‘‘دعا’’ یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو انتہائی غریب گھرانے سے تعلق
رکھتاہے۔ معاشی تنگی کی وجہ سے گاؤں سے شہر کو کام کیلئے آتاہے تاکہ اپنے ماں باپ
بھائی بہن کی مدد کرسکے۔ لیکن وہ شہر آکر جس گھر میں ملازم بنتاہے۔ وہ اسکا
استحصال کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک کام لیتے ہیں۔ نتیجتہً اسکے دل میں نفرت کا جذبہ
ابھرتاہے۔ چنانچہ ایک دفعہ طوفان آتاہے۔ تو مالکن ہم صاحب کے کہنے پر وہ جانماز
بچھاکر نماز و وظیفہ تو پڑھتاہے لیکن طوفان کو ٹالنے کیلئے دعا نہیں پڑھتا۔ اور یہ
اسکے ساتھ کئے گئے ناروا سلوک و استحصال کا رد عمل ہے۔
اور اس کہانی کے کردار چار ہیں۔ صاحب یعنی مالک اور انکی شریک حیات میم صاحبہ
اور انکے دو بچے اور کام والا لڑکا جسکا نام سلیم صدیقی ہے۔ گاؤں میں رہنے والے
ماں باپ اور سلیم کےبھائی بہن کا بھی کہانی میں تذکرہ ہے۔ لیکن کہانی انہیں چار کے
درمیان گھومتی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔ صاحب سرکاری ملازم ہیں جو اپنی ڈیوٹی پر
صبح جاکر شام کو لوٹتےہیں۔ اور اپنے معمول کے مطابق دختر سے گھر لوٹکر ضرورت سے
فارغ ہوکر چائے نوشی کیلئے ٹیبل کے پاس کرسی پر بیٹھجاتے ہیں اور TV پر خبریں
دیکھتے ہوئے چونک جاتے ہیں۔ میم صاحب سے کہتے ہیں کہ دیکھو آج طوفان آئے گا
امکان ہے عرب ساگر میں ہوا کے دباؤ کے کارن۔ اس نے بچوں کو باہر جانے مت دو۔
میم صاحبہ ایک گھریلو خاتون ہیں جو اپنے کام کاج سے فارغ ہوکر گھر میں آرام
کرتی ہیں۔ اور سلیم کو اپنے بچوں کی اسکول بھیجنے اور واپسی پر گھر لانے کی ذمہ
داری سونپ کر فون رسیور نیچے رکھ کر آرام کرتی ہیں۔
دو
نھنے منےبچے معصوم روزانہ اسکول جاتے ہیں۔ اور دوپہر کو واپس آتے ہیں۔ انکی خدمت
اور تربیت کی ذمہ داری سلیم کے ذمہ ہوتی ہے۔ اور ان معصوم بچوں کے ساتھ سلیم بھی
بچہ کی طرح رہتاہے۔ اور انکی تربیت و خدمت کا ہر طریقہ سے لحاظ رکھنا ہے۔ حتی کہ
انکو کھانا کھلانے کی ڈیوتی بھی بخوبی انجام دیتاہے۔ عام طورپر بچے کھانا کھاتے
ہوئے بیزارگی کا اظہار کرتے ہیں۔ انکو ادھر اُدھر کی باتیں سناکر کھلانا پڑتاہے۔ اور
ہوم ورک میں تساہل سے بچانے کیلئے بھی انکو بار بار آگہی کرتے رہنا پڑتاہے۔ اور
کبھی انکا موڑ بنانے کیلئے کوئی قصہ کہانی بھی سناکر دلچسپی کو بڑھانا پڑتاہے۔
سلیم
صدیقی ایک بار بچوں کو اپنے دادا کی سکائی ہوئی دعاؤں کا تذکرہ کرتاہے۔ کہ طوفان
آندھی دوباراہ آنے لگے اور بجلیاں کڑکنے لگیں تو کیاکرنی چاہئے۔
اتفاق
سے میم صاحبہ یہ سن لیتی ہیں۔ اور طوفان کے دن انکو باد آتاہے کہ سلیم صدیقی نے
اپنے دادا جان کی بتلائی ہوئی دعا بچوں کو سنایاتھا۔ تو آج طوفان آنے کا امکان
دیکھ کر سلیم کو عشائ کے بعد دعا کرنے وظیفہ پڑھنے کیلئے بیٹھادیتی ہے۔ سلیم
وضوکرکے عشا کی نماز بڑھکر وظیفہ پڑھنے بیٹھ جاتاہے۔ اچانک بجلی چلی جاتی ہے۔
باہر
گرج و چمک کی آواز و روشنی سے خوف کا عالم طاری ہوتاہے۔ اور میم صاحب چونک پڑھتی
ہیں۔ اتنے میں صاحب ایک بڑی موم بتی جلاکر سلیم کے پاس لاکر رکھیتے ہیں۔ اور دیوار
پر اسکا عکس اور ہونٹوں کے ہلنے کا سایہ نظر آتاہے۔ لیکن وظیفہ کے ختم کے بعد
ہاتھ اٹھاکر خاموش ہوجاتاہے۔ صاحب اور میم صاحب باہر سے برابر دیکھتے رہتے ہیں کہ
ہونٹ ہلنا کیوں رک گئے۔ اتنے میں سلیم منھ پر ہاتھ پھیر کر جانماز اٹھاکر
ارکھدیتاہے۔ دونوں پوچھتے ہیں کے دعا کئے۔؟ تو سلیم مثبت انداز میں سر ہلاکر جواب
دیتاہے۔ حالانکہ وہ دعا نہیں کرنا۔ اور یہ دعانہ کر اس بات کا ثبوت اور رد عمل ہے
کہ اسکے ساتھ ظلم و زیادتی حیثیت سے زیادہ کام کا بوجھ ڈالا گیاہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں