نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

رؤف خوشتر کی تیسری آنکھ

رؤف خوشتر کی تیسری آنکھ

                                                                                                                                                                 ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ

طنزومزاح دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن استعمال ایک ساتھ کی جاتی ہیں۔ طنز الگ چیز ہے اور مزاح چیزے دیگر است۔ مزاح کا مقصد لوگوں کو ہنسانا ہوتا ہے۔ لیکن طنز کا مقصد کسی شخص، سماج، معاشرے، وغیرہ کی خامیوں سے پردہ اٹھانا ہوتاہے۔ اگر طنز میں مزاح کا عنصر نہیں پایا جائے تو طنز بہت گہرے گھاو کرجاتاہے۔ اسلئے یہ ضروری ہے کہ طنز کے ساتھ مزاح بھی ہو۔ یا اس کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ طنز ایک آپریشن ہے جس کے ذریعہ معاشرے یا فرد کی خامیوں اور برائیوں کو نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور مزاح اس اپریشن کے وقت Anesthesia یعنی بے حوشی کی دوا کا کام کرتاہے۔



یوں تو طنزنگاری ومزاح نگاری انسان دنیا میں آتے وقت اپنے ساتھ لے آیا ۔ جیسے انسان کی مادری زبان شاعری ہے ٹھیک اسی طرح ہر انسان اپنے اندر طنزومزاح کے عنصر بھی ضرور رکھتاہے۔ طنزومزاح کے باقاعدہ آغاز کیلئے غالب کے خطوط کے حوالے دیئے جاتے ہیں کہ غالب نے اپنے خطوط میں دل اور دہلی کے رونے روئے اور اس وقت کے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی حالات پر طنز کیا۔ اس کے بعد اودھ پنچ کا دور شروع ہوا۔ یہ پہلا اخبار ہے جس کے ذریعہ خالص طنزومزاح کو پیش کیاگیا۔ یہ اخباربہت مقبول عام و خاص رہا۔کیوں نہ ہو اس اخبار کے ایڈیٹر منشی سجاد حسین بھی ایک اعلیٰ درجہ کے مزاح نگار تھے۔ ان کے مزاح نگاری کے جوہر’’حاجی بغلول، طرح دار لونڈی ، احمق الدین، کھلے خط اور سربستہ مضامین میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔
اودھ پنج کے بعد کے لکھنے والوں میں مہدی افادی، محفوظ علی بدایونی، خواجہ حسن نظامی، سلطان حیدر جوشؔ ، سجاد حیدریلدرم، منشی پریم چند، سجاد علی انصاری، مرزا فرحت اللہ بیگ، قاضی عبدالغفار، ملارموزی، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، شوکت تھانوی، کنھیالال کپور، کرشن چندر، شفیق الرحمٰن اور ابراھیم جلیس جیسے قداور مزاح نگاروں نے طنزومزاح میں اپنے انمنٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

کرناٹک میں مزاح نگاری کے نمونے تقریباً اردو کے ابتدائی دور سے ہی ملتے ہیں۔مزاح نگاری نظم و نثر دونوں میں عام رہی ہے۔ کرناٹک میں نثر کے ذریعہ مزاح نگاری کرنے والوں میں فرحت اللہ بیگ، ابراہیم جلیس، عابد مرزا، رزاق فاروقی، عظیم الدین عظیم، رنگ راؤ بڑشیٹی، لیئق صلاح، مجتبیٰ حسین، اقبال سلیم، مشتاق سعید، ڈاکٹر راشد فریدی، شکیل رضا، انور احمد برقؔ ، ضیاء جعفر، مختار احمد منو، ڈاکٹر شمیم ثریا، منظور وقار، ڈاکٹر حلیمہ فردوس، اطہر معیز، امجد علی فیض، محمد فاروقی نشتر، سیدہ عشرت فاطمہ، ضاء رومانی وغیرہ کے نام صفحہ اول میں شامل کئے جاتے ہیں۔ مزاحیہ شاعری کے حوالے سے جن کی تخلیقات منظر عام پر آئی ہیں ان میں باسط نوشہ، سلیمان خطیب، بگڑ رائچوری، سرور مرزائی، فیض الرحمٰن فیض، اعجاز حسنی، عبدالقادر عارف، ڈاکٹر محمود خان قیصر، محمد ہارون سیٹھ سلیم، ڈھکن رائچوری، ڈاکٹر وحید انجم، نذیر نصرت ہنگامہ، عارف مرشد، عثمان اعجاز ،عتیق اجمل، سلطان فرحت، راشد ریاض وغیرہ شامل ہیں۔
مختصر سی تمہید کا اطناز دراصل روف خوشتر ہے۔ اس تحریر کا اصل مقصد روف خوشتر کے مضمون ’’ آنکھ بیتی‘‘(چشم واہ کی نہیں چشم آہ کی کہانی) پربات کرنی ہے جو ان کی کتاب ’’آنکھ بیتی‘‘ میں شامل ہے۔
مزاح نگاری انسان کی تیسری آنکھ ہوتی ہے ۔ دو ظاہری آنکھوں کے علاوہ تیسری آنکھ رکھنے والا شخص ہی مزاح نگار ہوسکتاہے۔اپنی کتاب آنکھ بیتی ’’مجھے بھی کچھ کہنا ہے‘‘ میں روف خوشتر لکھتے ہیں کہ ’’دونوں آنکھوں کے علاوہ بغیر چشمہ والی تیسری آنکھ کا بھی ان طنزومزاحیہ مضامین کے قلم بند ہونے میں عمل دخل ہے‘‘۔ (آنکھ بیتی صفحہ ۔۱۱؂)

طنزومزاح نگاری کے متعلق مذکورہ کتاب کے اگلے صفحے میں روف خوشتر یوں رقمطراز ہیں ۔لکھتے ہیں کہ۔
’’طنزومزاح نگاری زندگی اور سماج کی منفی صورتِ حال بتلاتے ہوئے بھی بنیادی طورپر رجائی رھتاہے۔ اور وہ کہتا ہے کہ دنیا کتنی حسین ہے۔ یہاں کانٹوں کے ساتھ پھول بھی ہیں۔ جب ایک قنوطی کہتاہے کہ دنیا کتنی بری ہے کہ یہاں پھولوں کے ساتھ کانٹے لگئے ہوئے ہیں۔ [کتاب آنکھ بیتی ص ۱۲)

یعنی قنوطیت یا رجایت کہیں باہر سے آنے والے جذبات نہیں ہیں۔ یہ اپنی داخلی کیفیت کا نام ہے۔ انسان اگر اپنے ذہن میں منفی پہلو رکھ کر دنیا کو دیکھتا ہے تو اسے دنیا میں صرف پریشانی ، یاس و ناامیدی، ناکامی و نامرادی نظر آتی ہے۔ اور اگر وہی انسان دنیا کو امید والا چشمہ لگاکر یعنی رجائیت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے دنیا حسین، ہرطرف، باغ و بہار، گل و بوٹے، کامیابی ہی کامیابی نظر آتی ہے۔ بقول شاعر
کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوئے سحر سے ہم
اُمید صبح کیوں دل وحشت اثر نہیں
کیا وہ خدائے شب ہے خدائے سحر نہیں
انسا ن جیسی امید رکھے گا ویسے ہی اس کے نتائج برآمد ہوں گے۔ اسلئے ہمیشہ انسان کو اچھی امید رکھنی چاہئے۔ ایسی ہی رجائی جذبات رکھنے والی شخصیت روف خوشتر کی تھی۔ موصوف کی شخصیت کے متعلق ڈاکٹر بی محمدداؤد محسن کچھ یوں رقمطراز ہیں۔ملاحظہ فرمائیں۔
’’کہاجاتا ہے کہ شخص بن کر نہیں بلکہ شخصیت بن کر جینا چاہئے کیونکہ شخص تو خاک ہوجاتے ہیں لیکن شخصیت زندہ رہتی ہے۔ پروفیسر روف خوشتر کی ذات شخص سے شخصیت بن چکی تھی ‘‘۔ (ماھنامہ شگوف۔ اکتوبر ۲۰۱۸۔ ص ۲۶)

پروفیسر صاحب اپنی پوری زندگی اردو ادب کی عموماً طنزومزاح کی خصوصاً آبیاری کرتے رہے۔ عام طورپر لوگ ریٹائرہونے پر ذہنی تور سے بھی اپنے آپ کو معذور سمجھنے لگتے ہیں لیکن روف خوشتر نے ریٹائرہونے کے بعد اپنی ادبی سرگرمیوں کو اور جلا بخشی۔ پہلے سے زیادہ لکھنے پڑھنے اور محفلوں میں شریک ہونے لگے۔ داود محسن ایک جگہ لکھتے ہیں۔
’’انہیں لکھنے، اخباروں اور رسالوں میں شائع ہونے اور اردو کی محفلوں میں شریک ہونے کا شوق جنون کی حد تک تھا ۔ ریاست و بیرون ریاست سمیناروں، کانفرنسوں اور ورکشاپوں میں شریک ہوتے تھے اور اپنے مضامین پیش کرتے تھے۔ بہت سے اردو پروفیسر حضرات وظیفہ یابی کے بعد کونا پکڑلیتے ہیں لیکن رؤف خوشتر صاحب کا فن اور وہ خود جوان ہوچلے تھے‘‘۔ (ماھنامہ شگوفہ۔ اکتوبر ۲۰۱۸۔ ص۲۴)

پروفیسر روف خوشتر کی خوش مزاجی بزلہ سنجی کے متعلق ڈاکٹر فرزانہ فرح کے مضمون کا ایک حوالہ دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں جس میں انہوں نے ان کی ریٹایر ہونے کے بعد والی زندگی کی وضاحت کچھ اس ڈھنگ سے کی ہے ۔ لکھتی ہیں۔
’’محترم جب بھی فون کرتے، شگفتہ لہجے میں ڈاکٹر صاحبہ، کا نعرہ لگاتے۔ مزاح پاروں، خاکوں، نغموں، اپنی پرنسپلی سے ہوتے ہوئے بات ریاستی لکھاریوں تک پہنچتی۔ زیادہ تر ایسا شوشہ چھوڑتے کہ ہنستے ہنستے میں چور سی بن جاتی۔ ان سے بات کرکے یک گونہ تازگی کا احساس ہوا کرتاتھا۔ سبکدوشی کا بار جس طرح ریٹائرد لوگ اٹھائے پھرتے ہیں، اس کے بالکل برعکس رؤف صاحب سبکدوشی کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے۔ فراغت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خوب مطالعہ کیا۔ ملک بھر کے رسالوں میں شائع ہوئے۔ ‘‘( مضمون روؤف خوشتر۔۔۔ سدارہے ان کا نام پیارا۔ روزنامہ منصف)

موصوف کی طنزومزاح کی کائنات بہت وسیع ہے۔ لیکن میں ان کے ایک مضمون آنکھ بیتی کے حوالے سے بات کروں گا۔
’’آنکھ بیتی‘‘ مضمون ’’کتاب آنکھ بیتی کا پہلا مضمون ہے‘‘ اس میں روف خوشتر نے جہاں دنیا کی بے راہ روی پر طنز کیا ہے وہیں گھروں میں پیش آنے والے چھوٹے موٹے واقعات، نوک جھونک اور بیویوں کی عادات و اطوار کو بھی طنز کا نشانہ بناتے ہوئے معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھاہے۔بیویوں کی ایک خاص(عام) یعنی عام و خاص عادت [کہاوت ہے کہ اندھا بھی گڑھ اپنے ہی لوگوں کو بانٹتا ہے] پر طنز کیا ہے کہ عورتیں خوشیاں ہو کہ غم (خصوصاًخوشیاں) کے وقت صرف اپنے ہی رشتہ داروں کو یاد کرتی ہیں۔

اس مضمون میں معاشرے کے متواسط طبقہ کی زبوں حالی اور غریبی کو اپنی آپ بیتی کے رنگ میں طنز کا نشانہ بنایاہے۔ لکھتے ہیں۔
’’آپریشن کے دن بیگم اور ان کے رشتہ داروں کے کارواں کے ساتھ شفاخانہ پہنچے۔ وہاں آپریشن روم لے جانے سے پہلے ہمیں قمیص نکالنے کو کہاگیا۔ ہمارے پیرہنِ بے سیف نکالتے ہی ہماری بنیائن جلوہ گر ہوئی۔ جو بجا طورپر اپنے جابجا سوراخوں کے سبب متوسط طبقہ کی معاشی زبوں حالی اور جیب خالی کی بھرپور عکاسی کررہی تھی۔ ان سوراخوں کو دیکھ کر ہمارے سارے سالے کیا گورے کالے سب اپنے اپنے سرجھکالیے۔ شاید وہ جان گئے تھے کہ دولھے بھائی کی اچھی خاصی زندگی اور بنیائن میں اتنے سوراخ ہونے کا سبب ہمارے شب و روز میں ان کی بے جامداخلت سے ہے۔ بنیائن کے ان جھروکوں میں ان کو ان کے اصلی چہرے نظر آئے‘‘۔ (آنکھ بیتی صفحۃ 19؂)
مذکورہ بالا اقتباس میں روف خوشتر نے معاشرے میں ہونے والی سسرالی کے لوگوں کی بے جا مداخلت اور مردپر سسرال کے لوگوں کے بالا دستی پر بھرپور طنز کیاہے۔
روف خوشتر نے جہاں جملے ، فقرے، اشعار میں معمولی تحریف کے ذریعہ سماج پر طنز کیا ہے وہیں محاوروں کو بھی نہیں چھوڑا ۔ایک محاورہ ’’سب کو ایک نظر سے دیکھنا‘‘ کو اپنے اس مضمون میں کیسے استعمال کیاہے ملاحظہ فرمائیں۔
’’ہماری آپریشن والی بائیں آنکھ پر ایک سیاہ پٹی ڈوری کی مدد سے باندھی گئی اور ہم اپنے یک چشم ہونے کے سبب پہلی بار سب کو ایک نظر سے دیکھنے کے قابل ہوگئے۔ اپنے یک چشم ہونے پر ایک دوسرے یک چشم جس کی آنکھ پر سیاہ پٹی اور اپنے سیاہ کرتوت والے رسوائے زمانہ موشے دایان کی یاد کیسے نہ آتی۔ وہ بھی تو فلسطینیوں کو ایک نظر سے دیکھتا تھا۔ چونکیے نہیں ان کو ابدی نیند سلاتے وقت اس کی نظر میں سب فلسطینی برابر تھے۔ کیا جوان کیا بوڑھے کیا بچے اور کیا خواتین سب کو بلاامتیاز ایک ہی صف میں کھڑا کر کے بڑی آسانی سے بندوق چلاتا تھا کہ اس کو گولی چلاتے وقت دوسری آنکھ بند کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ قتل و غارت میں مساوات کی ایسی پابندی کی مثال اور کہاں ملتی ہے۔ ایک دوسرے یک چشم و سیاہ پٹی والے رنجیت سنگھ کا ذکر شر کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔‘‘ (آنکھ بیتی ص۲۰)

مندرجہ بالا اقتباس سے ان کی ذہنی صلاحیت و کائنات کے عمیق مطالعے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے وہ اپنی نظر پورے عالم کی سیاسی، سماجی و معاشی صورت حال پر رکھتے تھے۔ حالی نے شاعری کیلئے تخیل، مطالعہ کائنات اور انتخاب الفاظ یا تفحص الفاظ کا ہونا ضروری قرار دیاتھا۔لیکن پروفیسر روف خوشتر نے نثر میں بھی ان تمام شعری لوازمات کو استعمال کیاہے۔ عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ فنکار ایک مضمون میں ایک یا دو سبق آموز باتیں کہہ جاتا ہے لیکن موصوف کے ایک ایک مضمون کے ہر ہر پیرگراف میں ایک یا ایک سے زیادہ معاشرے کی کمزوری اور بے راہ روی پر طنز ملتاہے۔
ڈاکٹر کے نہانے سے پرہیز کے مشہورے پر انہوں نے مسلمانوں کی ایک خاص (عام)یعنی عام خاص عادت پر طنزکیا ہے جو شنیدنی ہے۔
’’۔۔۔۔۔ آپریشن والی آنکھ کو چند ہفتوں تک خشک رکھنا ہے۔ اس لیے مذکورہ مدت تک آپ سرپر سے مت نہائیں۔ آپ چاہیں تو شانوں تک نہا سکتے ہیں آپ کی مرضی کوئی زبردستی نہیں۔ شاید وہ ہماری تاریخ و جغرافیہ کو دیکھ کر اور ہمارے حلیہ کو تاڑ کر جان گئیں کہ ہم کو نہانے سے وہ ہے جس کو آپ الیرجی کہتے ہیں۔ ہم اپنے بچپن کے دنوں میں پہنچ گئے۔
آتا ہے یاد مجھ کو گذرا ہوا زمانہ
والد کی مار سے بھی ہرگز نہ ہم نہانہ
۔۔۔ (آنکھ بیتی ص ۲۰)
مسلم معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ جمعہ کو نہانا ہی سنت اور عین ثواب سمجھاجاتاہے۔ جب کہ نہانے کے عمل سے انسان اپنے آپ کو گندگی سے پاک رکھتا ہے اگر طبعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نہانے کو ایک ورزش بھی بتایاگیا ہے جس سے جسم کی تمام رگ و ریشوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے اورنئی توانائی دوڑتی ہے نیز جسمانی تکان بھی جاتی رہتی ہے۔ روف خوشتر نے مسلم معاشرے کے اس عمل کو کہ صرف جمعہ کو نہانا ہی ضروری ہے پر بھرپور طنز کیاہے۔ آگے لکھتے ہیں۔
’’۔۔۔یہ دیکھ کر والد صاحب ایک خوفناک اور دشوار حل متبادل یوں پیش کرتے کہ میاں یا تو ایک بالٹی پانی نہالو یا پھر ریاضی کے دس سوال حل کرکے بتلاؤ۔ وہ ریاضی میں ہماری قابلیت سے بخوبی واقف تھے۔ آخر کو ہمارے باپ جو ٹھہرے۔ نہاتا کیا ریاضی کرتا؟ ہماری ریاضی، ریاضی سے نودو گیارہ ہونے تک ہی تھی۔ نہانے اور ریاضی سے اپنے ازلی بیر کو بہت دنوں تک اپنے مسلمان ہونے کی دلیل سمجھتے تھے۔‘‘ (آنکھ بیتی ص۲۰)
رشید احمدصدیقی کیلئے کہاگیا ہے کہ وہ معمولی اور بظاہر غیر اہم محسوس ہونے والے واقعات اور اشیاء کے بیان میں غضب کا مزاح پیدا کردیتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ الفاظ کے معمولی الٹ پھر سے رشید احمد صدیقی مزاح پیدا کردیتے ہیں۔ لیکن پروفیسر رؤف خوشتر کا یہ انداز ملاحظہ فرماتے ہوئے روف خوشتر پر آپ اپنی رائے قائم کریں کہ کیا رؤف خوشتر میں مذکورہ بالا وصف موجود ہے؟ انداز ملاحظہ ہو۔

’’ایک دن کھانا(وہی دال روٹی) رکھ کر پوچھنے لگی کہ آج چاند کی کونسی تاریخ ہے؟ ہم دال اور غصہ میں بھرے بیٹھے تھے۔ جھلا کر کہا کہ چاند کی تاریخ کیا پوچھ رہی ہو۔ دال کی تاریخ پوچھو۔ دال کی۔
ہم: دال میرے لیے، سب کے لیے مرغ کی ٹانگ؟
بیگم: مجھ سے پہلے سی ضیافت میرے محبوب نہ مانگ
ہم: دعوتیں اور بھی ہیں دال کی دعوت کے سوا
بیگم: اور بھی غم ہیں زمانے میں زوجیت کے سوا
فیض نامہ سنا کر بیگم دستِ صبا کی طرح کمرے سے رخصت ہوئی۔ اور ہم بے فیض ہو کر دال روٹی پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں۔

غبارحاضر صفحہ نمبر ۲۶ سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’عورتیں شوہر کی جان اور پڑوسن کا پان کھانا اپنا بنیادی حق سمجھتی ہیں‘‘۔

رؤف خوشتر نے اپنے ہر مضمون میں موقعہ محل کی مناسبت سے اشعار میں تھوڑی سی تبدیلی کرتے ہوئے مزاح پیدا کیاہے ۔ملاحظہ کریں۔

مجھے کیا برا تھا ڈرنا اگر ایک بار ہوتا
بحوالہ (کتاب آنکھ بیتی۔ مضمون آنکھ بیتی سے)

ہم کو اب تک خاموشی کا وہ زمانہ یاد ہے

لو آج بھی ہم صاحب فولاد ہوگئے
بحوالہ (کتاب آنکھ بیتی ‘‘ مضمون جب تک ۔تب تک سے)

ہے خبر گرم ان کے سلانے کی

نیند کیوں عمر بھر نہیں آتی
نہ ہو سونا تو جینے کا مزہ کیاہے

اس انجمن میں آپ کو سونا ہے بار بار
دفتر کے میز و کرسی کو پہچان لیجئے

ابتدائے رزق ہے سوتا ہے کیا
بحوالہ (مضمون سوئیں گے ہم ہزار بار سے )
ایسا لگتا ہے کہ روف خوشتر کے خون کے ہر ہر خطرے میں طنزومزاح موجود تھا۔ جب وہ اپنا تعارف پیش کرتے تھے تو یوں کہتے۔
نام : وہی جو ماں باپ نے رکھا، تاریخ پیدائش: وہی جو فکر تونسوی کی تھی، اہلیہ کا نام: وہی جو رضا نقوی کی اہلیہ کا تھا، اولاد: وہی جو یوسف ناظم کی تھی۔ روف خوشتر نے اپنی تین مزاحہ تصانیف ’’آنکھ بیتی، غبارحاضر،، اور صرفِ درباں، کے ذریعہ اردو ادب و طنزو مزاح کی آبیاری کی۔

بالآخر مسکراہٹوں اور قہقہوں کا بے تاج بادشاہ ، اردو ادب میں طنزومزاح کاسپہ سالار، اپنی طنزو مزاح کی کائنات کوسمیٹتے ہوئے۔ 8؍ستمبر2018کو اپنی دونوں ظاہری آنکھیں اور ایک باطنی آنکھ ،جس سے وہ دنیا کو دیکھتا تھا دنیا کی بے راہ روی پر انسو بہاتاتھا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کرلی۔ آخر میں انہی کے مضمون آنکھ بیتی کے اس شعر پر میں اپنے قلم کو روکتا ہوں۔ کہ

چشم روشن عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے باصرہ میرا


مضمون نگار :  ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ
لکچرر شعبہ اردو و فارسی، گلبرگہ یونیورسٹی
8088830388, 9341765291

******

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو