نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اُردو زبان و ادب کے فروغ میں ڈاکٹر زورؔ کا حِصّہ


اُردو زبان و ادب کے فروغ میں ڈاکٹر زورؔ کا حِصّہ


محمد مدثر، ریسرچ اسکالر
آج اُردو زبان اور اس کا ادب جس ارتقائی منزل پر نظر آرہا ہے ، ماضی قریب و ماضی بعید کے بہت سارے ادیبوں، شاعروں ،نقادوں،صحافیوں ارو مُحققین کی بے پناہ مُحبتوں اور محنتوں کا ثمر ہے بلاشُبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کا سرما یہ دُنیا کی کسی بھی زبان اور ادب کے سر مائے سے کم نہیں ۔ اکیسویں صدی میں تو اس سرمائے میں اضافہ ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ارتقاء کسی فردِ واحد یا کسی ادارے کا کام نہیں ،اجتما عی کوششوں کا نتیجہ ہے۔




چونکہ یہ زبان ہندوستان کی مُشترکہ تہذیب کی دین ہے۔ اس کا خمیر اسی زمین سے اُٹھا ہے۔اس لیے اس کی پرورش ہندوستان کے مُسلمانوں کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کے دانشوروں اور قلم کاروں نے کی ہے۔ اسی وجہ سے اس میں کئی ہندوستانی زبانوں کے لہجوں کی مہک ہے اور اس کے ادب میں خالص ہندوستانی مُشترکہ تہذیب کی روح سرا ئیت کرگئی ہے۔ آج عالمی سطح پر اس کی خوشبومحسوس کی جا سکتی ہے۔ خوش قسمتی سے اُردو زبان کو ہر دور میں کچھ ایسے بے لوث اور قابل شخص ملے جنہوں نے اس زبان سے سچّے عاشق کی طرح پیار کیا ۔اس کی خدمت میں اپنی اپنی زندگیوں کا ایک ایک لمحہ صرف کیا تواتر کے ساتھ زبان کو سنوارنے سجانے کی ذمّہ داری لی اور اس کے ادب کو پُر وقار بنانے کے لیے آخر سانس تک جدوجہد کرتے رہے۔ ایسے ہی جانثاروں میں حیدرآباد (دکن ) کے سپوت سیّد محی الدین قادری زورؔ کا نام تاریخِ اردو زبان و ادب میں جگہ جگہ روشن نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر زورؔ کی پیدائش ۲۸ رمضان ۱۳۲۲ ھ میں حیدرآباد کے ایک محلّہ شاہ گنج میں ہوئی تھی ۔وہ ایک مُہذِ ب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے نجی حالات کے متعلق پروفیسر سیدہ جعفر ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔ 

’’ان کے والدِ محترم کا نام سیّد غلام محمد شاہ قادری ہے جو موسی ندی کی طُغیانی (یکم رمضان ۱۳۲۶ھ) میں اہل و عیال کے سیلاب میں نذر ہو نے کے بعد خاندان کے واحد چشم و چراغ رہ گئے تھے۔ وہ سیلا ب کے وقت پربھنی گئے ہوئے تھے ۔ وہ مشائخ خاندان کے فرد تھے ۔ اُ نھوں نے پیری مُریدی کے سلسلے کو جاری رکھا تبلیغی مساعی میں بھی کوتا ہی نہیں کی ، اپنے آبائی وطن بیدر میں وعظ فرماتے تھے ۔ان کاانتقال ۱۳۶۱ ھ میں ہوا ‘‘ (بحوالہ : ڈاکٹر زور ؔ مونو لاگ۔ ص، ۱۰ ) 
اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر زور ؔ کا تعلق اعلی بزرگ گھرانے سے ہے۔ان بزرگان نے دین کی تبلیغ کے خدمات کا فرض ادا کیا ۔ ان کے خاندان کی تفصیل ان کے پڑدادا تک روشنی میں آچکی تھی اُس سے پہلے کا علم نہیں ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا آبائی وطن بیدر ہے ۔( یہ وہی بیدر ہے جو آج ریاستِ کرناٹک کا حِصّہ ہے) اس یہ اندازہ ہوا کہ بیدر میں ان کے خاندان کے لوگ پیوندِ خاک ہوئے ہوں ، ڈاکٹر زورؔ کی دادھیال اور ننھیال دونوں مشائخین کے گھرانے تھے۔ ڈاکٹر زور ؔ پر بھی ان گھرانوں کے اوصاف اور اعلی کردار کا اثر زندگی بھر رہا ۔ دین داری کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں انھوں نے تعلیمی ، علمی اور ادبی خدمات کو اپنی زندگی کا مقصد بنا یا۔اس مقصد کی وجہ سے انھوں نے عزت بھی پائی اورشہرت بھی! 



ڈاکٹر زورؔ کا تعلیمی سفر ان کے گھر سے ہوتا ہے ، گھر میں دینی اور تعلیمی ماحول تھا ابتدا ئی تعلیم گھر پر ہوئی اس کے بعد مدرسہ دارالعلوم میں ہائی اسکول میں ہوئی پھر عثمانیہ کالج سے ۱۹۲۵ ء میں بی ۔اے اور ۱۹۲۷ ء یم ۔اے کا امتحان اوّل درجہ سے پاس کیا اس امتیازی کامیابی کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومتِ حیدرآ باد نے انھیں سرکاری وظیفے پر اگست ۱۹۴۷ء میں انگلستان بھیجا ۔لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا مقالہ’’ اُردو کے آغاز و ارتقا ء‘‘ پر تھا جسکی پذیرائی ہوئی، وہاں کے انگریزی پروفیسر سے سنسکرت ،لسانیات اور صوتیات کا علم حاصل کیا حیدرآباد لوٹ آئے عثمانیہ یونیورسٹی میں ریڈر کی حیثیت سے تقرر ہوا ۱۹۵۰ ء میں چادر گھاٹ کالج کے پرنسپل بنے یہیں سے ۱۹۶۰ ء میں وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ۔حکومتِ ہند نے ساہتیہ اکاڈمی کا رُکن نامزد کیا مرکزی حکومت کی طرف سے شائع ہونے والے اُردو رسالہ ’’ آج کل ‘‘ سے بھی منسلک رہے آ خری عمر میں کشمیر یونیورسٹی کے صدرِ شعبۂ کی حیثیت سے خدمات انجام دی ۲۳ ستمبر ۱۹۶۲ ء کو قلب پر حملہ کی وجہ سے انکی موت واقع ہو گئی ، کشمیر میں ہی پیوندِ خاک ہوئے ۔



ڈاکٹر زورؔ کا تعلیمی ، علمی اور ادبی سفر تیز رفتاری سے چلتا رہا اور آخری سانس تک وہ فعاّل رہے ۔ تعلیمی فرائض کی ادئیگی کے ساتھ وہ تخلیقی و تحقیقی کام بھی تواتر کے ساتھ کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایک قابل ترین اُستاد کے ساتھ ماہرِ تعلیم ، ماہرِ لسانیات و دکنیات مانے جاتے ہیں ۔ کُلیاتِ سلطان محمد قُلی قُطب شاہ کی تدوین کو ڈاکٹر زورؔ کا ادبی کارنامہ سمجھا جاتا ہے ۔ جسکی اُردو ادب میں بڑی اہمیت ہے اُن کی دیگر کتابوں میں ’’ گولکنڈا کا ہیرے ‘‘ سر گزشت حاتم ، ہندوستانی لسانیات ، روحِ تنقید اور شہ پارے موضوعات اور توانات کی وجہ سے اُردو ادب کی اہم کتابیں قرار دی گئی ان کتابوں کی اہمیت اس زمانے میں بھی تھی اور اب بھی ہے ۔ در اصل جس زمانے میں یہ کتابیں لکھی گئیں اس اُردو زبان و ادب خاص طور پر دکنی ادب کو ایسے تحقیقی کام کی اشد ضرورت تھی ڈاکٹر زورؔ کے اس بنیادی کام نے زبان و ادب کو بہت فائدہ پہنچایا ۔یہ وہی کتابیں ہیں جن سے اُردو ادب کی تاریخ و تحقیق کی سمتیں متعین ہوئی فردِ واحد کے ان کارناموں کی وجہ سے ڈاکٹر زورؔ کا نام تاریخِ اُردو ادب میں تابندہ رہے گا ۔



ڈاکٹر زورؔ نے تخلیقی ادب میں شاعری اور افسانہ نگاری کو بھی اپنایا تھا ۔ افسانے نیم تاریخ نیم ادبی ہوا کرتے تھے انکے زیادہ ت تر افسانے دکن کے بادشاہی دور کے متعلق ہیں جن میں اُ س زمانے کی تہذیبی اور سماجی زندگی اُجا گر ہوتی ہے۔ ان افسانوں میں پیش کئے واقعات بڑے دلچسپ اور قابلِ مطالعہ ہے ۔ان کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا اس سلسلے میں مُحقیقین اور تاریخ دانوں میں اعتراضات بھی ہیں اور اعترافات بھی۔ لیکن ڈاکٹر زورؔ کے افسانوں کے واقعات عوام و خاص میں مقبول ہیں ۔ بول چال اور تذکروں میں آج بھی دُہرائے جاتے ہیں اور حوالہ اُردو، تلگو، کنڑی اور دیگر زبانوں کی تحریروں کا حِصّہ بھی بنتے ہیں ۔ 

جہاں تک ڈاکٹر زورؔ کی شاعری کا تعلق ہے انھوں نے نو عمری کے زمانے میں اس کی شروعات کی، کالج اور یونیورسٹی کے زمانے تک یہ سلسلہ رہا لیکن شاعری کا سرمایہ کم مگر پرمغز ہے پھر عرصہ دراز تک شاعری نہیں کی لسانیات ،تحقیق اور اُردو زبان کی تعلیمی اور ادبی فروغ و ارتقاء میں زندگی بھرمصروف رہے۔ عمر کے آخری حصے میں کشمیر کے قیام کے دوران انھوں نے پھر شاعری شروع کر دی تھی لیکن اس شاعری کا سرمایہ بہت کم ہے ۔


ڈاکٹر زورؔ کی شاعری میں کلاسیکی شاعری سے استفادہ تو نظر آتا ہے لیکن تقلید نہیں ۔ زبان میں سادگی اور خیال میں نُدرت پائی جاتی ہے۔ ان کا رجحان پابند نظم کی طرف زیادہ تھا ان کی کچھ نظمیں اس وقت مشہور بھی ہوئیں جن میں سے ایک وہ نظم بھی ہے جوجا معہ عثمانیہ کے متعلق ہے۔ ملاحظہ ہو اس نظم کا ایک بند ۔

اس کے ہر ذرّے کو رشک آفتاب اب دیکھئے 
عظمتِ ملک دکن کو بے نقاب اب دیکھئے 
ہو چُکا مِنت کشی کا سد باب اب دیکھئے
دیکھئے دیکھئے یہ انقلاب اب دیکھئے



داغ ہائے مِنت اغیار دھوتے جائیں گے

نو نہالانِ چمن شاداب ہوتے جائیں گے 
(ص ،۱۵۵ ۔ڈاکٹر زورؔ مونولاگ)
ڈاکٹر زور ؔ کی شاعری میں جگہ جگہ زندہ رہنے کا حوصلہ ملتاہے۔ جدو جہد کا پیغام اور رجا ئیت کا احساس ملتا ہے۔ قطعہ بند اشعار ملاحظہ ہوں ۔
اپنی تقدیر بنتی ہے تدبیر سے 
اب نہ دشمن کا ڈھونڈوں کرم ساتھیوں 
منحصر ہے یہ دُنیا جو اسباب سے
سب ہی اسباب ہونگے بہم ساتھیو



زندگی سانس لیتی رہے گی یوں ہی 

زندہ دل ہنستے ہنستے گذر جائیں گے
موت سے بھی مریں گے نہی زورؔ ہم 
زندگی میں جو کام کر جائیں گے
( ص، ۱۵۹۔ڈاکٹر زورؔ مونولاگ ) 



راقم الحروف کا خیال ہے کہ ڈاکٹر زورؔ اگر شاعری پر زیادہ توجہ دیتے اور تواتر کے ساتھ شاعری کرتے تو ان کا مقام اُردو شاعری میں بلند ہوتا لیکن جتنی تعداد میں ان کا کلام دستیاب ہے اس کا معیار اور مقام بھی کم نہیں ۔

اُردو ادب تحقیق کے سلسلے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ محققین نے اپنی عمرِ عزیز کا بڑا حصہ صرف کر کے ماضی کے سمندر کو کھنگال کر موتی نکالے اور حال کے ادب والوں کو تقسیم کر دیئے ایسے کئی نام ہیں ۔ ان ناموں میں ڈاکٹر زورؔ کا نام اس لئے منفرد قرار پاتا ہے کہ انہوں نے اپنی تحقیق دکنی زبان و ادب کو موضوع بنا یا ان کی تحقیق کی روشنی میں اہل نظر دھند میں لپٹی اُردو زبان کی اینٹوں کے ساتھ ساتھ ہیرے جواہرات کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ پروفیسر سیدہ جعفر کا ایک اقتباس ملا حظہ ہوں ۔


’’ ادبی تحقیق کے لئے ڈاکٹر زورؔ نے جس میدان کا انتخاب کیا تھا وہ اس کے لئے ہر طرح مو زوں تھے گولکنڈے کی تہذیبی تاریخ کا انھوں نے گہرا مطالہ کیا تھا ڈاکٹر زورؔ کا سب سے بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اُردو کی ادبی لسانی روایات کی منتشر تاریخ کو مربوط کردیا بکھری اور ٹوٹی کڑ یوں کو جوڑ دیا جس سے اُ ردو زبان کی تاریخ کے تسلسل کو سمجھنا آسان ہو گیا ۔ (بحوالہ : ڈاکٹر زورؔ مونولاگ ص، ۵۱۔) 



اس اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر زورؔ نے اُردو زبان کی تحقیق میں کس قدر عمدہ اور صحیح بنیادی کام انجام دیا ۔ لسانیات میں اُن کی دلچسپی رنگ لائی اور اُردو والوں کو ان کی تحقیق سے حاصل شدہ جوہر مل گئے ڈاکٹر زورؔ کے تحقیقی کارناموں پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ راقم الحروف کی بساط نہیں کے اس کا احاطہ کرے اور اس پر اظہارِ خیال کرے ڈاکٹر زورؔ کا عظیم کارنامہ ’’ ادارۂ ادبیات اُردو ‘‘ کا قیام یہ ادارہ ۱۹۳۱ ء ؁ میں قائم ہوا تھا اس ادارے میں ڈاکٹر زور ؔ نے مختلف شعبے قائم کئے تھے مختلف علوم و فنون کے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے اشاعتی پروگرام کے تحت سینکڑوں کتابیں شائع کی تھی ۔ نایاب کتابوں اور مخطوطات کا ذخیرہ اس لائبریری میں محفوظ کیا تھا اس کا دفتر ان ہی کی تعمیر کردہ عمارت ’’ ایوان اُردو ‘‘ میں ہے جو پنجہ گٹہ حیدرآباد (تلنگانہ ) میں شاہی فنِ تعمیر کا نمونہ ہے اسی میں نادروہ نایاب کتابوں اور یادگار چیزوں کی نمائش کا کمرہ بھی ہے۔ اور خوبصورت ہال بھی ، جس میں ادبی نشستیں اور جلسے اب بھی ہوتے رہتے ہیں ادارے کے تحت کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور اب بھی شائع ہو رہی ہیں ادرے کا ترجمان ماہنامہ ’’ سب رس ‘‘ ایک معیاری ادبی رسالہ ہے۔جو ڈاکٹر زورؔ کے زمانے میں جاری ہوا تھا برس ہا برس سے پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا ۔اب یہ رسالہ پروفیسر بیگ احساس کی ادرت میں آن بان سے شائع ہو رہاہے ۔بہر حال یہ ادارہ برسوں سے فعّال ہے اس سے سینکڑوں ،ملکی غیر ملکی اسکالر س،صحافی ،اساتذہ اور طلبا و طالبات فائدہ اٹھا چکے ہیں اور اب بھی یہ ادارہ فیض پہنچا رہا ہے ڈاکٹر زور ؔ کے تعیّن کردہ نظام پر ادارہ کے عہدیداران ،ذمہ داران اور اراکین آج بھی خوش اسلوبی سے کام کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر زور ؔ کے زبان و ادب کے سلسلے میں بے شمار کارنامے ہیں ۔ تعجب اس بات پر ہے کہ صرف ایک شخص نے اپنی ایک عمر میں اتنے سارے کام کیسے کئے ہونگے اور ادارے کے تحت تحقیق و تدوین اور ترجمے کے کام ماہرین سے کیسے کروائے ہونگے ۔ آج یہ بنیادی اور معیاری کام لوگوں کے کام آرہے ہیں اور ان کا قائم کردہ ’’ ادارۂ ادبیات اُردو ‘‘ اکیسویں صدی میں بھی ان کے خوابوں کی تعبیر کی نقش ثبت کر رہا ہے ۔ بلاشُبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُردو زبان و ادب کہ فروغ میں ڈاکٹر زورؔ کا حصّہ قابل قدر اور قابل ستائش ہے۔ پروفیسر سیدہ جعفر کے ایک اقتباس پر راقم ا لحروف اپنی گفتگو ختم کرتاہے ۔



’’ حیدرآباد نے ڈاکٹر زورؔ جیسے اُردو کے شیدائی بہت کم پیداکئے ہیں اُردو کی بقا ء و ترویج کیلئے علمی خدمات کے ساتھ ساتھ عملی کام کرنے میں مولوی عبدالحق کے سوا کوئی ان سے ہم سری کا دعوی نہیں کرسکتا ۔ فرزندانِ جامعہ عثمانیہ میں ڈاکٹر زورؔ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے نہ صرف دکن اور جنوبی ہند بلکے پورے برِ صغیر کو اپنے فیضانِ علم سے مستفید ہونے کا موقع عطا کیا ڈاکٹر زورؔ کا یہ کارنامہ بھی کم اہم نہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں اُردو کے فدائیوں کی ایک جماعت پیدا کردی تا کہ ان کے بعد بھی اُردو تحریک آگے بڑھتی رہے ‘‘ (بحوالہ : ڈاکٹر زورؔ مونولاگ ص، ۱۹) 



مقالہ نگار :  محمد مدثر

ریسرچ اسکالر، شعبہ ارددو و فارسی، گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ
فون : 9241000789 


******

تبصرے

  1. جوابات
    1. پسندیدگی کیلئے شکریہ۔
      دیگر احباب سے بھی شیر کریں اور دیگر مضامین بھی پڑھیں
      اس سائٹ پر بہت ساری نظمیں اور غزلیں بھی موجود ہیں
      اس لاک ڈاون کے پرئیڈ میں اس سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔
      والسلام

      حذف کریں
  2. بہت عمدہ اور دلچسپ مطلوبہ معلومات مطالعہ میں فراہم ہوئیں،آپکا ممنون و مشکور۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ
      میگزین کے دیگر مضامین کا بھی مطالعہ کریں۔
      وہ بھی آپ کو ضرور پسند آئیں گے

      حذف کریں
    2. جوچیز آپ کو پسند آتی ہے وہ دیگر احباب کو بھی شیر کریں
      والسلام

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو