مضمون نگار : محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو و فارسی
گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ۔
حیدرآباد کرناٹک کے علاقے میں یوں تو علمی و ادبی لحاظ سے گلبرگہ کو ایک مرکزی مقام حاصل ہے اس وجہ سے بھی کہ گلبرگہ 600سال قبل سلاطین، بہمنی کا پایۂ تخت رہا ہے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کی فیروز شاہ کے عہد میں آمد نے ایک انقلاب برپا کردیا تھا۔
بہمنی سلاطین کے دور میں علم و ادب کی شمعیں روشن ہوچکی تھیں۔ دکنی ادب کی پیدائش ان ہی علاقوں میں ہوئی تھی۔ اور بہمنیوں کی سرپرستی میں خاص طور پر بیدر میں اس ادب کو کافی فروغ حاصل ہوا اور پہلی معلوم شیریں تصنیف فخر الدین نظامی کی ’’کدم راؤ پدم راؤ ‘‘ہے ۔
1956ء کے بعد لسانی بنیادوں پر ہندوستان میں ریاستوں کی تشکیل جدید ہوئی۔ اس طرح گلبرگہ ، بیدر اور رائچور جو تقریباً 200برس تک عہدِ نظامی الملک میں ان کی سلطنت سے وابستہ تھے، وہ کرناٹک میں شامل کردئے گئے۔ اس طرح یہ تینوں اضلاع حیدرآباد کرناٹک کے نام سے مشہور ہوہیں۔ یہاں کا علم و ادب ہندوستان مین فروغ پانے والے علم و ادب سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ خاص طورپر خواتین کے ادب نے اس علاقے میں اپنا ایک مقام بنالیا ہے۔ گلبرگہ اور بیدر کی طرح رائچو میں بھی خواتین نے افسانہ نگاروں میں اپنا ایک علاحدہ مقام بنایا ہے۔ ترقی پسند ادب اور جدیدیت سے دور رہ کر یہاں کی خواتین نے خاص طور پر سمیراحیدر نے روایتی افسانے لکھ کر شہرت حاصل کی ہے۔ ان کے یہ روایتی افسانے ہر چند کہ روایتی کہلاتے ہیں لیکن ان روایتی افسانوں کی صفت یہ ہے کہ اس میں سمیراحیدر نے انسانی نفسیات کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے نفسیات سے وہ بخوبی واقف نظر آتی ہیں۔ کیوں کہ وہ ایک خاتون ہیں اسی لئے خاص طور پر ان کے افسانوں میں خواتین کی نفسیات کا گہرا عکس ملتا ہے۔ ان کے افسانوں کے مطالعہ کے بعد احساس ہوتا ہے کہ وہ صنفی لحاظ سے نہ خواتین کی طرفداری کرتی ہیں اور نہ ہی مردوں کی۔ ان کے افسانوں کے کردار ہماری زندگی کے ارد گرد کے مانوس کردار ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’گہن خواب اور کلیاں‘‘ کے عنوان سے مارچ 1998ء میں شائع ہوا۔ وہ اپنے افسانے کے موضوعات اور فن کے متعلق لکھتی ہیں کہ ’’ میں نے اپنی کہانیوں میں عام لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسئلے، ان کی خوشیاں، غم اور حادثوں کو قلمبند کیا ہے۔ عام طور پر ہندوستان کی صورتیں یافتہ خواتین کے افسانوں اور ناولوں میں خواتین کی بے بسی و بے کسی اور جنسی استحصال کی کہانیوں کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ چاہے وہ عصمت چغتائی ہو یا واجدہ تبسم یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ ہو ، لیکن دکن کی یہ خاتون جو سمیراحیدر کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہیں اپنے افسانوں میں ایسی کسی کیفیت کو بیان نہیں کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی سے جڑی گھریلو نفسیاتی حقیقتوں کا اظہار ملتا ہے۔ خواتین کی بے بسی و بے کسی کی کیفیت اس طرح اردو ادب میں خاص طور پر موجودہ دور کے الیکٹرانک میڈیا میں جس طرح دکھایا جاتا ہے وہ ان کے افسانوں میں نظر نہیں آتا۔ افسانوں کے مطالعہ کے بعد قاری کو زندگی کی حقیقی کیفیتیں نظر آتی ہیں۔ ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ان کا مجموعہ ’’گہن خواب اور کلیاں‘‘ کرناٹک اردو اکاڈمی کی جزوی مالی معاونت سے 2004ء میں بنگلور سے شائع ہوا۔ اور ان کاتیسرا افسانوی مجموعہ ’’ ذراہٹ کے‘‘ عنوان سے 2011ء میں کرناٹک اردو اکاڈمی کی جزوی معاونت سے بنگلور ہی سے شائع ہوا۔ ان کے پہلے افسانوی مجموعہ میں جتنے بھی افسانے ہیں وہ ان کی ابتدائی کاوشوں کا ثمر ہیں، لیکن جب ہم ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’قرمزی رشتے‘‘ مطالعہ کرتے ہیں تو سمیرا حیدر کی سوچ و فکر میں بلندی محسوس کرتے ہیں اور ان کے اس افسانہ میں نفسیاتی مطالعہ کی بھی کافی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ اس مجموعے میں ایک افسانہ ’’سورج کی زنبیل‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ اس افسانے میں بنیادی تین کردار ہیں۔ پہلا کردار عابد ، دوسرا کردار شیرین اور تیسرا کردار ایک مصور ہے۔ ان تینوں کے سہارے سمیراحیدر نے بہت خوبصورت افسانہ تحریر کیا ہے۔
افسانے کا بنیادی تصور جیساکہ عام طورپر ہمیں فلموں میں اور خود اپنے اطراف و اکناف کے ماحول میں دیکھنے کو ملتا ہے یعنی شیرین شادی سے پہلے ایک لڑکے سے محبت کرتی تھی جو ایک مصور تھا، لیکن اس کی شادی عابد نام کے لڑکے سے ہوجاتی ہے۔ شیرین اپنی پہلی محبت کو نہیں بھولتی ۔ یہ بھی عام طور پر بہت سے افسانوں اور فلمی کہانیوں میں دکھایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سماج میں عام طور پر لڑکیوں کی شادی کے وقت ان کی مرضی جاننا نہیں چاہتے، ایسی بے شمار مثالیں ہمارے اِرد گِرد کے ماحول میں ہیں جو افسانے کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتے ہیں۔ یعنی نئے بسائے گئے گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ افسانے کی اٹھان اور اس کا اختتام دونوں مہذبانہ طریقے سے اختتام تک پہنچ جاتے ہیں لیکن ہمارے سماج میں یہ مہذب طور طریقے نظر نہیں آتے ۔ لڑکی چونکہ شادی سے پہلے چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا گھریلو قسم کی ہو ، والدین کو احساس ہونا چاہئے کہ وہ کہیں کسی سے محبت تو نہیں کرتی۔ وہ کہیں کسی سے وابستہ ہونے کا اشارہ تو نہیں دیتی، خاص طور پر لڑکی کی والدہ کو احساس ہونا چاہئے کہ ان کی لڑکی کس ادھڑ پن میں مشغول ہے۔
کچھ گھریلو رشتے ایسے ہوتے ہیں جو گھروں میں بے تکلف ہونے سے روتے ہیں ۔ مثلاً خالہ زاد ، پھوپی زاد، طایا زاد یا پھر محلے کے کسی واقف کار لڑکا یا کالج یا یونیورسٹی کے لڑکے جن سے آزادانہ میل ملاپ کے موقع فراہم ہوتے ہیں، وہاں لڑکا اور لڑکی فلمی زبان میں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھتے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن شادی کا مسئلہ ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیتا ہے تو وہ جس کسی سے شادی کرتے ہیں تو اس کی زندگی کو عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ایسے واقعات روزمرہ زندگی میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میں تفصیلات میں گئے بغیر یہ کہنا چاہتی ہوں کہ مرکوز افسانہ حقیقت میں ہماری آس پاس کی زندگی کا ایک حقیقی عکس نظر آتا ہے۔ افسانہ نفسیاتی اعتبار سے مطالعہ کے قابل ہے۔ افسانہ نگار نے بڑی خوبی سے کہانی اور کردار کے ساتھ انصاف کیا ہے۔
اسی مجموعے میں ایک اور افسانہ ’’ آخری چائے کی پیالی‘‘ ہے ۔ یہ بھی مذکورہ افسانے کی طرح اپنے اندر نفسیاتی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ سورج کی زنبیل میں کرداروں کو اپنے انجام تک پہنچتا ہوا دکھایا گیا ہے لیکن یہ افسانہ اپنے انجام کو نہیں پہنچتا بلکہ آدھے راستے ہی میں دم توڑ دیتا ہے۔ مثلاً تبریز ایک Tutorہے جو S.P رمیش شرما کی چھوٹی بیٹی جیوتی کو ٹیوشن پڑھانے کیلئے اس کے گھر آتا جاتا ہے۔ جیوتی کی ایک سہیلی کوثر ہے۔ تبریز ،جیوتی کہنے پر اسے بھی ٹیوشن پڑھاتا ہے لیکن اتفاق ایسا ہوتا ہے کہ تبریز اور کوثر میں خاموش محبت ہوجاتی ہے۔ یہ اپنی محبت کا ایک دوسرے سے اظہار و اقرار نہیں کرپاتے کہ کوثر نے تبریز کو اپنی شادی کی اطلاع دیتی ہے۔ تبریز کا دل بجھ جاتا ہے اور خود کوثر بھی دل برانگیختہ دکھائی دیتی ہے، گویا وہ اس بات کا اظہار کررہی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے سامنے مجبور ہے اور اپنی محبت کا اظہار نہیں کرسکتی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عام طور پر لڑکی کے والدین اچھے رشتے تلاش کرتے ہیں، اپنی لڑکی کیلئے ایسا لڑکا دیکھتے ہیں جو دولت مند نہ سہی، بنگلہ و کار کا مالک نہ سہی لیکن وہ شادی کے بعد ان کی بیٹی کو خوش حال رکھنے کی ضمانت دیتا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی سوچ رکھنے والے کوثر کے والدین کو یہ کیسے گنوارہ ہوتا کہ تبریز جیسے بدحال اور شریف لڑکے سے اپنی لڑکی کو منسوب کردے۔ ایسے موضوعات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن سمیرا حیدر نے اس افسانے کی نفسیاتی نفس کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس مجموعے میں ایک اور افسانہ ’’ٹوٹتی طنابیں‘‘ہیں۔ یہ افسانہ بھی گھریلو زندگی کے مسائل کو پیش کرتا ہے ۔ اس افسانے کے دو بنیادی کردار ہیں۔ ایک کلیم ضیاء جس کا چھوٹا بھائی تقی ہے۔ تقی کی ایک خوبصورت دُبلی پتلی ، دلکش، جاذبِ نظر متعین سی بیوی ہے۔ اپنے بھائی کی شادی خود کلیم ضیاء نے اپنی مرضی سے کروائی ہے۔ کلیم ضیاء کی بیوی طاہرہ جو ایک سرکاری ملازمہ ہے۔ کلیم ضیاء کے ساتھ اس کارویہ غیر مہذبانہ رہتا ہے، وہ اپنے شوہر کے ساتھ بیوی ہونے کے فرائض انجام نہیں دیتی، دلبرداشتہ شوہر کلیم ضیاء اپنے بھائی تقی کی بیوی حناء سے امیدیں لگائے بیٹھتا ہے۔ حناء بھی کلیم ضیاء کی خدمت میں کوئی کثر نہیں اٹھارکھتی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا اسے محبوب لگتا ہے۔ وہ جب بھی کلیم ضیاء کے روبرو ہوتی ہے تو بنی ، سجی اور سنوری رہتی ہے۔ اس کو دیکھ کر کلیم ضیاء کو ایک قسم کی رومانی خوشی ہوتی ہے، جو توقع وہ اپنی بیوی طاہرہ سے رکھتا تھا، اس کا جیتا جاگتا اظہار حناء کے روپ میں دیکھتا تھا اور کفِ افسوس ملتا تھا کہ طاہرہ نے اس کی زندگی کو اجیرن کررکھا ہے ۔ کلیم ضیاء کے لئے حناء زندہ رہنے کا ایک مضبوط سہارا نظر آتی ہے۔ ایک دن اچانک اس کا بھائی تقی یہ کہہ کر کلیم ضیاء کو رومانی جھٹکا دیتا ہے کہ اس کا ٹرانسفر ہوچکا ہے اور وہ اپنی بیوی کو لے کر مقررہ مقام کو جانے والا ہے ۔ کلیم ضیاء کی جیسے روح نکل جاتی ہے ، اس کی آنکھوں میں حنا کا خوبصورت وجود گردش کرنے لگتا ہے۔
افسانے کے اختتام کے بعد نہ صرف کلیم ضیاء کوجھٹکا لگتاہے بلکہ قاری کے دل میں بھی ایک کسک چھوڑ جاتا ہے، قاری کو کلیم ضیاء کے ساتھ ایک ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے ، ہمارے معاشرہ میں خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔ تعلیم حاصل کرنا اسی کے مذہب نے بھی سکھایا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کا رویہ شوہر کے ساتھ وہ نہیں رہتا جس کا تقاضہ ایک مہذب سماج میں زَن و شوہر کے ساتھ ہونا چاہئے۔
ازدواجی زندگی کے اس بگڑے ہوئے ماحول میں جو نسلیں پیدا ہوں گی وہ سماج کیلئے، گھرکیلئے اور ملک و معاشرہ کیلئے مسائلی نسلیں بن کر پیدا ہوں گی۔ گھرسے لے کر پورا سماج خود غرض ، مفاد پرست، دولت کی ہوس ، تعیش پرست اور ملزمانہ ذہن لے کر سماج کو بگاڑنے کا علم بن جاتا ہے۔ اس لئے مہذبانہ سماج کیلئے عورت کو اس کے حدود میں معین رکھا جائے تو مفید اور کارآمد ہے۔
میں یہ نہیں کہتی کہ سب کی سب ملازمت کرنے والی خواتین طاہرہ جیسے کردار کی ہوتی ہیں لیکن ہمارے دیکھنے میں آتا ہے کہ خصوصاً تعلیمیافتہ اور ملازمت کرنے والی خواتین طاہرہ جیسے رویوں کو اپنی زندگی میں جاری و ساری کرچکی ہیں۔ اس کے برخلاف وہ خواتین جو تعلیمیافتہ نہیں ہیں، چھوٹے چھوٹے کاروبار کرتی ہیں ، ان کی حیثیت گھریلو کام کاج میں ہوتی ہے۔ ایسی خواتین محنت کرنے کے باوجود ایک وفادار خاتون بن کر اپنے گھر میں رہتی ہیں۔
سمیرا حیدر کے تین افسانوی مجموعوں میں میں نے ایک ہی مجموعہ ’’قرمزی رشتے‘‘ کے تین افسانوں کا مختصر جائزہ لیا ہے۔ حیدرآباد کرناٹک کے ضلع رائچور سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون سمیرا حیدر کے نام سے جانی جاتی تھیں، بعد میں انہوں نے اپنے آپ سمیرا ناظم کے نام سے منسوب کرلیا۔
اس لئے ان کے افسانے سنجیدہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں۔ جدید افسانوں کی طرح ان کے افسانوں میں تنوع نہیں ہے پھر بھی سماج کی بنیاد ی حقیقتوں کو جو عورت اور مرد کے رشتوں کے ذریعہ ہمارے گھروں اور ماحول کو پراگندہ کئے ہوئے ہیں، اس کی انہوں نے نشاندہی کی ہے۔ ان افسانوں کی تحلیل کرنا گویا ہمارے پورے معاشرہ کی تعبیر و تشریح کرنا ہے۔ اس لئے ان کے افسانے پڑھے جانے کے قابل ہیں۔ اور نہ صرف پڑھے جانے کے قابل ہیں بلکہ ان کے افسانوں کے ذریعہ اپنے دل و دماغ کو بھی بہتر زندگی گذارنے کیلئے روشنی کی جھلک ملتی ہے۔
*****
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں