نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ



: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر، 
شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ


’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔ 
فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:






  1. ۔ نقشِ فریادی 
  2. ۔ دستِ صبا 
  3. ۔ زنداں نامہ 
  4. ۔ دستِ تہہ سنگ 
  5. ۔ سروادئ سینا 
  6. ۔ شامِ شہر یاراں 
  7. ۔ مرے دل مرے مسافر ۔ 
اس کے بعد ان کے کلام کو ’’غبارِ ایام‘‘ کے عنوان سے ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ میں جگہ دی گئی ہے۔ 



فیض ؔ نے جب گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو پطرس بخاری، ڈاکٹر تاثر اور صوفی تبسم جیسے اساتذہ ملے۔ پھر لاہور کے ادیبوں میں امتیاز علی تاج، چراغ حسن حسرت اور حفیظ جالندھری جیسے اصحاب سے ملاقاتیں رہیں۔ فیض کو ان سے سیکھنے سکھانے کا موقع ملا اور شاعری سے خاصی دلچسپی رہی۔ فیض کا یہ تعلیمی دور 1934ء میں جب وہ امرتسر کے کالج میں انگریزی کے لکچرر مقرر ہوئے تب پہلی بار سنجیدگی سے شعر گوئی پر توجہ دی۔ بعد میں صحافت کا پیشہ اختیار کیا اور ’’امروز‘‘ اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر بنے۔ فیض اپنے خیالات اور نظریات کے لحاظ سے اشتراکی تھے، اس لئے حکومتِ وقت سے ان کی نہیں بنی اور وہ ایک بڑے عرصے تک حکومت کے عتاب کا شکار رہے۔ 1948ء میں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے لیکن ان کے خلاف کوئی واضح ثبوت دستیاب نہیں ہوسکا جس کی بنیاد پر مجبوراً حکومت کو انہیں رہا کرنا پڑا۔ ان کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں: 



وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں 
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے 



فیض ؔ ، ادیبوں کی بین الاقوامی کانفرنسوں میں کئی مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں اور اس وقت عالمی شہرت کے مالک بھی رہے ۔ حکومتِ روس نے ان کو ’’آنر آف لینن‘‘ Honour of Lenin کا گرانقدر تمغہ عطا کیا۔ فیض ؔ کا کلام اردو شاعری میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 



(1) نقشِ فریادی: 



’’نقشِ فریادی‘‘ فیض ؔ کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس کی اشاعت 1941ء میں ہوئی۔ اس میں طالب علمی کے زمانے سے 1941ء تک فیض ؔ کا کلام موجود ہے، فیض کا یہ ایک اہم مجموعہ بھی ہے لیکن اس کے مطالعہ سے پتہ نہیں چلتا کہ اس میں شامل نظموں اور غزلوں کا سنِ اشاعت کیا ہے۔ اس مجموعہ میں زیادہ تر رومانی نظمیں شامل ہیں۔ ان کی زبان مشکل لفظیات سے مَملُو ہے۔ ان میں جھنجھلاہٹ، نفرت اور حقارت نہیں بلکہ دردمندی، غم ناکی، تڑپ اور بے چینی ہے ۔ ان کے یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے: 



دُکھ اور بھی ہیں زمانے میں محبت کے سوا 
راحتیں اور بھی ہیں وَصل کی راحت کے سوا 



دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے 
وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گذار کے 



ایک فرصتِ گناہ ملی، وہ چار دن 
دیکھے ہے ہم نے حوصلہ پروردگار کے 



دنیا نے تیری یاد سے بے گانہ کردیا 
تجھ سے دلفریب ہیں غم روزگار کے 



’’نقشِ فریادی‘‘ کے مقدمہ میں نظیر محمد راشد نے لکھا ہے کہ ’’ فیض ؔ کسی مرکزی نظرکا شاعر نہیں صرف احساسات کا شاعر ہے‘‘۔ 
اس مجموعہ میں موجود نظموں میں اپنے آس پاس کے درد وغم کی زندگی کا احساس ہی نہیں بلکہ اس کا ذہنی شعور بھی نظر آتا ہے۔ اس کو پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ نقشِ فریادی کے متعلق فیض ؔ کا ایک متعین نقطۂ نظر ہے۔ ان کا تصورِ حیات ان کے ذہن کی پیداوار نہ سہی لیکن جس تصورِ حیات سے وہ خود کو وابستہ رکھتے ہیں ، وہ ان کی شاعری کو ایک مرکزی نظریہ ضرور بہم پہنچاتا ہے۔ ’’نقشِ فریادی ‘‘ میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیں بھی۔ غزلیں 12، نظمیں 31 اور قطعات 4 ہیں۔ نقشِ فریادی میں غزلوں اور نظموں کو ساتھ دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا انہوں نے اپنی شخصیت اور شاعری کو ان دونوں اصناف میں بانٹ دیا ہے۔ 
نظم میں انہوں نے غمِ زمانہ اور عوام کے دُکھ درد کی ترجمانی کی ہے تو غزل کو اپنے ذاتی غم کیلئے وقف کررکھا ہے۔ ’’نقشِ فریادی‘‘میں ان کی کئی ایک اچھی نظمیں بھی شامل ہیں ، جن میں ’’تنہائی‘‘ ، ’’چند روز اور مری جان‘‘ ، ’’رقیب سے ‘‘ ، مرے ہمدم مرے دوست‘‘ ، ’’میرے ندیم‘‘ اور ’’ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ 
نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں: 



مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ 
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات 



تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے 
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات 



فیض ؔ 9؍ مارچ 1951ء گرفتار کئے گئے اور اس کے لگ بھگ ایک سال بعد 1952ء کے آخر میں ان کے ایامِ اسیری میں دوسرا مجموعۂ کلام ’’دستِ صباء‘‘ شائع ہوا۔ 



دستِ صباء: 



اس میں دیباچہ کی صورت میں فیض ؔ کا ابتدائیہ شامل ہے جو انہوں نے سنٹرل جیل حیدرآباد (پاکستان) میں 6؍ ستمبر 1952ء کو لکھا تھا۔ دستِ صباء میں 3 نظمیں، 17 غزلیں اور 8 قطعات شامل ہیں۔ 
اس مجموعہ میں فیض ؔ نے وطن سے والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔ ان کی چند نظمیں جس میں ’’صبح آزادی‘‘ ، ’’ نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن‘‘ ، ’’شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ‘‘ ، ’’ سیاسی لیڈر کے نام ‘‘ ، ’’دو عشق‘‘ ، ’’زندان کی ایک شام ‘‘ اور ’’زنداں کی ایک صبح‘‘ شامل ہیں، جس میں فیض ؔ کی وطن سے والہانہ محبت اور ان کی فکر دکھائی دیتی ہے۔ ان میں خاص طور پر دستِ صباء کے پہلے صفحہ کا یہ قطعہ کافی مشہور ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: 



متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے 
کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے 
زباں پر مہر لگی ہے تو کیا، کِہ رکھ دی ہے 
ہر اک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے 



اسی طرح ’’صبح آزادی ‘‘ کے یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے: 



یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ شہر 
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں 



یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر 
چلے تھے یار کے مل جائے گی کہیں نہ کہیں 



’’نثار تیری گلیوں پہ اے وطن‘‘ خالص سیاسی نظم ہے جو فیض ؔ نے اپنی گرفتاری سے متاثر ہوکر لکھی۔ اس میں ایک والہانہ پن ہے، سیاست ہے ہی غنائیت کی آمیزش، اس کو اور نکھار دیا ہے۔ یہ بند ملاحظہ فرمائیں: 



نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں 
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھائے چلے 
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے 
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے 



نظم ’’دو عشق‘‘ کی یہ خوبی ہے کہ شاعر کو وطن سے بھی اتنی ہی محبت رہی ہے جتنی کہ اپنے محبوب سے اور انہوں نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ: 



چاہا اسی رنگ میں لیلائے وطن کو 
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں 



ڈھونڈی ہے اسی شوق نے آسائش منزل 
رخسار کے زخم میں کبھی کا کل کی شکن میں 



نظم ’’ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘‘ یہ ایک طبقاتی جنگ سے تعلق رکھتی ہے۔ فیض ؔ نے اس میں عوام کو ظلم و ستم ، جبر واستبداد اور استحصال کرنے والوں کے خلاف عَلم اٹھانے اور لڑنے کی جس انداز میں ترغیب دی ہے وہ لائقِ توجہ ہے۔ اس نظم کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ سیاسی جدوجہد کی دعوت دینے کے باوجود اس نظم میں سیاسی نعرہ بازی سے کام نہیں لیاگیا ہے، سلجھے ہوئے اور شُستہ اسلوب کے اعتبار سے بھی یہ ایک نمائندہ نظم ہے۔ 



زنداں نامہ: 



’’زنداں نامہ‘‘ فیض ؔ کا تیسرا مجموعۂ کلام ہے جس کی اشاعت 1956ء میں ہوئی۔ زنداں نامہ میں غزلوں کا حصہ بھاری ہے ، اس کا سبب اور کچھ نہیں سوائے اس کے کہ قید و بند کے باعث شاعر اپنی ذات ہی سے رجوع ہوتا ہے ۔ اس کا داخل ہی اس کی دنیا ہے۔ وہ اوروں سے الگ تھلگ درون بینی اور خودکلامی سے کام لیتا ہے۔ اس میں نظموں کی تعداد 11، غزلیں 15 اور قطعات 7ہیں۔ اس میں غزلوں کی تعداد زیادہ رہنے کے باوجود اچھی نظمیں جیسے ’’اے روشنیوں کے شہر‘‘ ، ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ ، ’’درد آئے گا دَبے پاؤں‘‘ اور ’’ملاقات‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ 
ان میں ’’اے روشنیوں کے شہر‘‘ جس میں فیض نے لاہور کے بارے میں لکھا ہے ، اس میں انہوں نے فنکارانہ مہارت سے کام لے کر شہر کے معاشرتی اور سیاسی حالات کی ایک ایسی تصویر ابھاری ہے کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اس کا ایک بندھ ملاحظہ کیجئے۔ 
سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر
دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر 
دور اُفق تک گھٹتی، بڑھتی، اٹھتی، گرتی رہتی ہے 
کُہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر 
بستا ہے اس کُہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر 
’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ خود فیض ؔ کی پسندیدہ نظموں میں سے ایک ہے، ہر چند کہ یہ ایتھل ،جولیس اور روزنبرگ کے خطوط سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے۔ یہ نظم ان سار ے شہیدوں اور سرفروشوں کے نام ہے جو اپنے وطن کی آزادی کیلئے شہید ہوئے۔ اس نظم میں رومانی عنصر بھی ہے لیکن انقلابی کیفیت پوری تابانی کے ساتھ ملتی ہے ۔ اس میں امیجری کے اہتمام میں بھی فیض ؔ نے کامیابی حاصل کی ہے۔ نیز غزلوں کے اعتبار سے بھی ’’زنداں نامہ‘‘ کی اہمیت ہے اور ان غزلوں میں غم ذات اور غم جاناں کے ساتھ غم دوراں کی کارفرمائی ملے گی۔ وہ غزل جس کا مطلع ہے: 



ستم کی رسمیں بہت تھی لیکن نہ تھیں تیری انجمن سے پہلے 
سزا خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے 



دستِ تہہ سنگ: 



یہ فیض ؔ کا چوتھا شعری مجموعہ ہے، اس کی اشاعت 1965ء میں عمل میں آئی۔ اس میں 15نظمیں، 11غزلیں اور 7قطعات شامل ہیں۔ اس میں بعض نظمیں ایام اسیری میں لکھی گئی ہیں۔ قابلِ ذکر منظومات ’’دستِ تہہ سنگ‘‘ ، ’’شورش زنجیربسم اللہ‘‘ ، ’’آج بازار میں پابجولاں چلو‘‘ انتہائی اہم نظمیں ہیں، جن میں شاعر اپنے جذبات کو بے پناہ انداز میں ظاہر کرتا ہے ۔ اس کے ابتدائی دو بندھ ملاحظہ فرمائیے: 



1) 
چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں 
تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں 
آج بازار میں پا بجولاں چلو 



2) 
دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو 
خاک برسرچلو، خو بداماں چلو 
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو! 



سروادئ سینا: 



یہ فیض ؔ کا پانچواں مجموعۂ کلام ہے جو 1965ء تا 1971ء تک عمل میں آیا۔ اس مجموعہ میں شامل 35غزلوں اور نظموں میں سے 01 غزل اور 13نظمیں ماسکو میں لکھی گئی ہیں، جن میں چند کے نام یہ ہیں۔ ’’انتساب‘‘ ، ’’سوچنے دو ‘‘ ، ’’سروادئ سینا‘‘ ، ’’دعا‘‘ ، ’’ہارٹ اٹیک‘‘ ، ’’مرثیے‘‘ ، ’’خورشید محشر کی لو‘‘ اور ’’ جرس گُل کی صدا‘‘ وغیرہ ۔ 



دعا کا ایک بندھ ملاحظہ فرمائیے: 



آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی 
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں 
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا 
کوئی بُت کوئی خدا یاد نہیں 



سروادئ سینا کا ایک بندھ ملاحظہ فرمائیے: 



پھر برقِ فروزاں ہے سروادئ سینا 
پھر رنگ پہ ہے شولۂ رخسارِ حقیقت
پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت 
ائے دیدۂ بینا 



اس مجموعہ کی زیادہ تر نظموں میں رنج و اَلم کی فضاء ہے ، ان نظموں میں کلاسیکی اسلوب نظرآتا ہے اور فیض ؔ ان نظموں میں اپنی زندگی میں خود کو تھکا ہوا محسوس کرتے تھے۔ 





شامِ شہر یاراں: 



یہ فیض ؔ کاچھٹا مجموعۂ کلام ہے، اس میں بعض اچھی نظمیں ہیں مثلاً ’’ جس روز قضاء آئے گی ‘‘ ، ’’ اے شامِ مہرباں‘‘ وغیرہ ’’بہار آئی اور درِ امید کے دَر یُوزہ گر‘‘ وغیرہ ۔ فیض ؔ اس مجموعۂ کلام کے مطالعہ سے اس کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس میں رجائیت برقرار ہے اور انقلاب کے ساتھ رومانیت کیلئے بھی برقرار رکھتے ہیں۔ اس میں ابتداء میں دئے گئے اشعار ہی اس مجموعہ کے گرانمایاں ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔ چند اشعار دیکھئے: 



جو پیرہن میں کوئی تار محتسب سے بچا 
دراز دستی پیرفغاں کی نذر ہو 
اگر جرأتِ قاتل سے بخشوا لائے 
تو دل سیاستِ چارہ گرا کی نذر ہوا !



مرے دل مرے مسافر: 



یہ فیض ؔ کا ساتواں مجموعۂ کلام ہے جو مختصر ہے، اس مجموعۂ کلام کی بیشتر تخلیقات لندن اور پیرس میں تحریر کی گئی ہیں۔ مثلاً ’’ لاؤ تو قتل نامہ میرا‘‘ ، ’’ دلِ من مسافرِ من‘‘ ، ’’پھول مرجھا گئے سارے ‘‘ ، ’’ کوئی عاشق کسی محبوبہ سے ‘‘ اور ایک غزل لندن اور ایک غزل پیرس میں۔ اس مجموعہ کی زیادہ تر تخلیقات ہلکی پھلکی ہیں، لیکن اپنے مواد، اسلوب اور ڈکشن کے اعتبار سے دلکش اور بھرپور ہیں۔ 



نظم ’’ لاؤ تو قتل نامہ میرا‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائے: 



سننے کو بھیڑ ہے سرِ محشر لگی ہوئی 
تہمت تمہارے عشق کی بہم لگی ہوئی 
رِندوں کے دم سے آتشِ مۂ کے بغیر بھی 
ہے میکدہ میں آگ برابر لگی ہوئی 



غبارِ ایام: 



’’غبارِ ایام‘‘ اگرچہ کوئی علاحدہ شائع شدہ مجموعہ نہیں ہے بلکہ ’’مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد اور پہلے کا بھی ایسا کلام اس میں موجود ہے جو کسی مجموعہ میں شامل نہیں ۔ ’’غبارِ ایام‘‘ کی پہلی نظم ’’تم ہی کہو کیا کرنا ہے‘‘ اس مجموعے کی اہم ترین نظم ہے۔ دیگر نظموں میں ’’ایک نغمہ کربلائے بیروت کیلئے‘‘ ، ’’ ایک ترانہ مجاہدین فلسطین کیلئے‘‘ اور ’’آج شب کوئی نہیں ہے‘‘ کے علاوہ غزلوں میں بھی نظم ’’ اس وقت تویوں لگتا ہے‘‘ میں فیض ؔ کی شاعری کا رنگ جھلکتا ہے۔ 



نظم ’’ اس وقت تو یوں لگتا ہے‘‘ کا ایک قطعہ ملاحظہ فرمائے: 



اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں 
مہتاب نہ سورج نہ اندھیرا نہ سویرا 
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ 



اپنے اسی کلام کی وجہ سے فیض ؔ صرف اردو کے بڑے شاعر وں میں نہیں بلکہ دنیا کے بھی بڑے شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ 
میں نے فیض احمد فیض ؔ کے مجموعۂ کلام ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ میں شامل مجموعوں پرایک نظر ڈالی ، ان کے کلام کا زیادہ تر حصہ ان کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہے جو آزادی کے بعد دم توڑ گئی۔ 
فیض احمد فیض ؔ نے ’’زنداں نامہ‘‘ اور ’’نقشِ فریادی‘‘ کے مجموعوں میں جو نظمیں لکھی ہیں وہ ان کے کرب اور بے چینی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان پر یہ الزام تھا کہ وہ فوج میں رہتے ہوئے ایک اسلامی ملک کو کمیونسٹ نظریات پر مبنی قانون بناکر حکومت لاگو کرنا چاہتے ہیں، اور وہ فوج میں بغاوت پہنچانا چاہتے ہیں، جب اس کی بھنک اس وقت کے حکمران لیاقت علی خاں کو لگی تو انہوں نے ان کو جیل بھیج دیا اور فوجی بغاوت کے الزام میں ان پر مقدمہ چلتا رہا۔ جو پنڈی (راولپنڈی) کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ 
فیض ؔ کے کلام میں ان کے کمیونسٹ نظریات کی بھرمار نظر آتی ہے۔ بہرحال فیض ؔ کا کلام جیسا کہ میں نے ان کے مجموعوں پراپنی رائے رکھی ہے وہ اپنی جگہ درست ہے ۔ اس مضمون کی تکمیل میں میں نے سجاد ظہیر کا مضمون ’’رودادِ قفس‘‘ اور سابق میجر محمد اسحاق کا مضمون ’’فیض کی ایک تقریر‘‘ جیسے مضامین سے مدد لی ہے۔ 



فیض ؔ کا آخری قطعہ : 



رفیقِ راہ تھی منزل ہراک تلاش کے بعد 
چُھٹا یہ ساتھ تو راہ کی تلاش بھی نہ رہی 
ملول تھا دلِ آئینہ ہر خراش کے بعد 
جو پاش پاش ہوا اک خراش بھی نہ رہی 


https://www.sheroadab.org/2019/01/blog-post_41.html
Faiz Ke Sheri Majmoye Ka Jayeza,
Tanqidi jayeza of Faiz Ahmed Faiz Literature books




*****


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو...

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گل...