نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جنوری, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

غزل قاضی انور

رفیق جعفر

رفیق جعفر سے پہلی ملاقات             رفیق جعفر سے میری پہلی ملاقات سنہ 2009میں سکندراباد کے بس اسٹانڈ میں ہوئی۔میں اور میرے کچھ ساتھی ایک یونیورسٹی کے انٹرویو میں جارہے تھے رفیق جعفر بھی ساتھ ہولئے۔ دن بھروہ ہمارے ساتھ رہے۔ اپنی زندگی کے کئی انٹرویویز کے پر مزاح واقعات سناکر میرے دل و دماغ پر مثبت اثر ڈالا۔ اس کے بعد رفیق جعفر جب بھی گلبرگہ آتے نہ صرف ملاقاتیں بلکہ بیٹھکیں ہوتی جس میں مختلف ادبی، سماجی، معاشی ومعاشرتی مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ان کے ساتھ تقریباً ایک دھے کی ملاقات و رفاقت سے میں نے رفیق جعفر کوایک جہاں دیدہ شخصیت روپ میں پایا۔ وہ ممبئی جیسے عروس البلاد  میں کئی دہے گزارے۔ فلمی ہستیوں و دیگر بڑے بڑے ادیب و شاعروں کے ساتھ ملاقاتیں رہیں۔ علی سردار جعفری، راجندر سنگھ بیدی، مجروح سلطان پوری، طالب خوندمیری، مجتبیٰ حسین جیسے جید ادیب ، شاعر ، ڈرامہ نگار، افسانہ نگار ، مزاح نگار،فلمی رائٹروں کے ساتھ آپ کی صحبتیں رہیں ۔ رفیق جعفر نے ان کی صحبت میں اچھاادب تخلیق کیا۔ جہاں رفیق جعفر ایک اچھے نثر نگار ہیں وہیں اچھے شاعر بھی ہیں۔ان کے اشعار میں سادگی ہے۔ مضمون آسان ا

سونے کی چڑیا نظم حب الوطنی پر از ڈاکٹر سید عارف مرشد

غزل صابر شاہ آبادی

غزل دل کے صدمات ہی ایسے تھے جوٹالے نہ گئے صبر نا کام رہا اشک سنبھالے نہ گئے جانے کس رنج میں ہم ترکِ وفا کر بیٹھے شا نہ ء عشق سے گیسو بھی سنبھالے نہ گئے بے مروّت نے چلو، وعدہ فردا تو کیا حسبِ اندیشہ تبسم پہ تو ٹالے نہ گئے دید قسطوں میں ہوئی، لطف مکمل نہ ہوا ! خار پورے کبھی آنکھوں سے نکالے نہ گئے عہدِ مرحوم کی معصوم فضا ہے جن میں آج تک دل سے وہ مانوس اُجالے نہ گئے کیسی معصوم ارادوں کو سزا دی تم نے پھول اس طرح کبھی آگ میں ڈالے نہ گئے ہجر کے زخم تو بھرہی گئے صابر لیکن داغ زخموں نے جو چھوڑے وہ سنبھالے نہ گئے                                      صابر شاہ آبادی

غزل صابر شاہ آبادی

غزل  کتنے گوشے میں جہاں اب بھی خزاں چھائی ہے فصلِ گُل سارے گلستاں میں کہاں آئی ہے خالی ساغر نہ دکھا تشنہ دیرینہ ہوں میری رسوائی میں اک دور کی رسوائی ہے آپ ہی کہیے کہ لفظوں میں کہاں ممکن ہے اس تبسم میں جو تفصیلِ شناسائی ہے حرم ودیر کی تحقیق چلی ہے جب سے دیکھ ساقی ، تری دہلیز بھی گھبرائی ہے طلب مئے کا سلیقہ ہ میں کیوں کر آئے ہاتھ پھیلانے کی نوبت تو ابھی آئی ہے رات نازاں تھی بہت اپنے اندھیروں پہ مگر ذہنِ انساں نظر آیا ہے ،تو شر مائی ہے شامِ اقرار و ہ معصومئی باہم صابر واقعہ یہ ہے کہ دونوں کو حیاآئی ہے صابر شاہ آبادی

غزل صابر شاہ آبادی

غزل عظمتِ شوق پر حرف آنے نہ دو  آگیا دورِ سود وزیاں دوستو جان سے بڑھ کے دل کی حفاظت کرو عقل ہونے لگی ہے جواں دوستو حُسن کی کوئی حد، حدِ آخر نہیں  اس کے الطاف ہیں بے کراں دوستو وصل ہی جس کی لے دے کے معراج ہو  ذوق اس کا مکمل کہاں دوستو اللہ اللہ رندودں کیافسردگی میکدے کی فضا کتنی بے کیف تھی وہ تبسم بھری آنکھ کیا اُٹھ گئی  ٹوٹ پڑنے لگی کہکشاں دوستو آنکھ ملتے ہی دل کا سکوں مٹ گیا ان سے مل کر ہمیں اور کیا مل سکا اس طرف حسرتیں ، اس طرف غفلتیں جان سی چیز ہے درمیاں دوستو دل پہ ہیرے جو بارِ وفا رکھ دیا  پھول پر اس نے سنگِ گراں رکھ دیا جاں بلب کر کے میرا تماشہ کیا  حُسن یوں ہی نہیں مہربا ں دوستو نسبتِ حُسن صابر جوان سے نہ تھی  میرے احساس میں ہو ش مندی نہ تھی ہا ں مگر جب کوئی دل کو تکنے لگا  چونک کر رہ گیا ناگہاں دوستو صابر شاہ آبادی

غزل چاروں طرف سروں کا سمندر ہے دیس میں

Dr. Syed Arif Murshed   غزل چاروں طرف سروں کا سمندر ہے دیس میں رہزن بھی ساتھ ساتھ ہے رہبر کے بھیس میں قاتل مچا رہے ہیں بے چینی ہر طرف معصوم آدمی ہے بلوے کے کیس میں ستامیں آئے جب سے ان پڑھ اورتڑی پار نا اہل بھی کھڑے ہیں رتبے کی ریس میں رکھتے ہیں بغض دل میں دیتےہیں ساتھ بھی وہ تنکا چھپا ہوا ہے انکی کی بھی کیش میں امبیڈکر کی رچنا مضبوط کانسٹی ٹیوشن گیدڑ کی دھمکیوں سے آنا نا تیش میں ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ 8088830388

غزل : کس کو چاہیں کہ کس کو پیار کریں از ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ

Dr. Syed Arif Murshed غزل کس کو چاہیں کہ کس کو پیار کریں کس کو اپنے گلے کا ہار کریں تجھ کو اپنانے تیرے خاطر ہم کونسا رنگ اختیار کریں زندگی ہار دی ہے پہلے ہی اب بتا تجھ پہ کیا نثار کریں دشمنی ان سے ہو گئی اپنی ہم نے چاہاتھا جس کو یار کریں دشمنوں کا کریں   گلا کیا دوست میرے اپنے ہی مجھ پہ وار کریں راہ تکتے رہے ہیں برسوں سے کب تلک اس کا انتظار کریں اب تو امید اٹھ گئی مرشدؔ اب کہاں کس کا اعتبار کریں ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ 8088830388 بحر : خفیف مسدس مخبون محذوف بنیادی وزن :   فاعلاتن مفاعلن فَعِلن

حیات ِمبارکہ حیدر ایک محبت ایک معمہ

حیات ِمبارکہ حیدر ایک محبت ایک معمہ ڈاکٹر سید عارف مرشد (پنجند کام پاکستان میں شائع شدہ) https://bit.ly/2NxzPQI : لنک پر پنجند کام دیکھا جاسکتاہے                                                                                                ارے !  ارے!!  ارے!!!  کیا کررہے ہو؟  وہی کررہا ہوں بھیا۔۔۔ جو لیلیٰ نے مجنوں کیلئے کیاتھا۔۔۔، رانجھا نے ہیر کیلئے کیاتھا ۔۔۔رومیو نے جولیٹ کیلئے کیا تھا۔۔ سوسائیڈ !۔۔۔ سوسائیڈ!!  (فلم شعلے سے)          عورت کو پانے کیلئے مرد  ناجانے کیا کچھ کرجاتاہے۔ لڑائی جھگڑے  خون خرابے یہاں تک کے خودکشی بھی۔          کائنات میں عورت کا وجود ایک مسلم حقیقت ہے۔ عورت کے بغیر یہ کائنات نامکمل ہے اور یہ بھی کہ عورت کے بغیر گھر بھی نامکمل ہے۔ اسی لئے شادی کرنے کو گھر بسانا بھی کہاگیاہے۔ بیوی کو گھروالی، گھر کی زینت، دیہات میں بیوی کو گھر کا کھوٹا بھی کہا جاتا ہے۔ جس سے تمام گھر باندھا جاتاہے۔ اور اگر یہ کھوٹا نہ ہو یا اکھڑ جائے تو گھر کا شیرازہ بکھرجاتاہے۔ اورسب بے گھر کی طرح رہنے لگتاہے۔ کوئی کہیں جارہاہے تو کوئی کہیں۔ کسی کو کسی کی خبر نہیں۔ یہ

Poetry of Dr. Syed Arif Murshed

غالب ایک لافانی شاعر... ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر

  غالب ایک لافانی شاعر                                                                                                                                                                                          ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر                                                                                                             گیسٹ لکچرر، شعبہ اردو و                                                                                                               فارسی، گلبرگہ یونیورسٹی۔                                  Cell : 9844707960             غالب کی آفاقیت اس میں مضمر ہے کہ وہ ایک ہمہ پہلو اور متنوع شخصیت کا حامل ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی ”غزل اُردو شاعری کی آبرو ہے “ ۔ تو یہ بات بے جا نہ ہوگی کہ اُردو غزل کی آبرو غالب ہیں اور وہ ایک لافانی شاعر ہے جس کی وسعت کے لئے کوئی سیمایا احد مقرر نہیں کی جاسکتی۔ غالب کے کلام کو یا ان کے ایک ایک شعر کو جس جس زاویے سے دیکھا یا پرکھا جائے، اُس کے اتنے ہی پہلو ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ ان کے اشعار کی جتنی گہرائی میں