غزل
دل
کے صدمات ہی ایسے تھے جوٹالے نہ گئے
صبر
نا کام رہا اشک سنبھالے نہ گئے
جانے
کس رنج میں ہم ترکِ وفا کر بیٹھے
شانہء عشق سے گیسو بھی
سنبھالے نہ گئے
بے
مروّت نے چلو، وعدہ
فردا
تو کیا
حسبِ
اندیشہ تبسم پہ تو ٹالے نہ گئے
دید
قسطوں میں ہوئی، لطف مکمل نہ ہوا!
خار
پورے کبھی آنکھوں سے نکالے نہ گئے
عہدِ
مرحوم کی معصوم فضا ہے جن میں
آج
تک دل سے وہ مانوس اُجالے نہ گئے
کیسی
معصوم ارادوں کو سزا دی تم نے
پھول
اس طرح کبھی آگ میں ڈالے نہ گئے
ہجر
کے زخم تو بھرہی گئے صابر لیکن
داغ
زخموں نے جو چھوڑے وہ سنبھالے نہ گئے
صابر شاہ آبادی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں