نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ڈاکٹر مشتاق احمد دربھنگہ مورخہ ۔23 اپریل 2020

نظم۔۔ ۔پال گھر کے شہید سنت بابا کی  چٹھی 
پریہ کوی 
میں جانتا ہوں 
آج کی رات پھر  تیری  
آنکھوں میں کٹی ہوگی 
سورج طلوع ہوا ہوگا  مگر
 تیرگی کہاں چھٹی ہوگی  
میری دوڑ تی،چیختی ہوئی تصویر 
ہاے ماتم کرتی ہوئی میری تقدیر   
حیوان کو شرمندہ کرتی ہوئی  
 انسانی صورت 
مو ک درشک رکشک  
اپنی جاں کی خیر مانگتے ہوئے
تم نے جب دیکھا ہوگا    
 تڑپ تڑپ کر 
میری جان کو جاتے ہوئے 
میں جانتا ہوں تیری پیڑا 
تجھے  پریشان کئےہوئے  ہوگی 
تو کوی ہے ،یہ دریشیہ  تجھے 
اندر سے لہو لہان کئےہوئے  ہوگی    
تیری آنکھوں میں پھر لوٹ آئ  ہوگی 
اخلاق و پہلو کی تصویر
عرفاں کے بندھے ہوئے ہاتھ 
رستم کے پاؤں کی زنجیر
میرے پریہ کوی 
مجھے دکھ ہے کہ 
یہ اپنی ، وہ بستی نہیں رہی  
جہان رہتے تھے رحیم و کبیر 
بے خوف چلتےرہتے  تھے  
ہم کنیا کماری سے کشمیر 
مگر میرے پریہ کوی 
میری تجھ سے یہ ونتی ہے 
میرایہ انتم کام کر دینا 
میرا یہ پتر عام کر دینا 

یہ  بستی  پرانےہی  روپ میں  رہے تو بہتر ہے 
بھارت ماتا،  اپنے سروپ میں رہے تو بہتر  ہے 
کہ گم تھی جب تک الگ الگ پہچان 
یہاں رہتے تھے بس انسان ہی انسان!
میرے پریہ کوی 
میرا یہ انتم کام کر دینا 
میرا یہ پتر عام کر دینا 
******

ڈاکٹر مشتاق احمد 
دربھنگہ 
مورخہ ۔23 اپریل 2020

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو