ڈاکٹر مشتاق آحمد |
نظم
۔ نجات
اب
ڈور بیل نہیں بجتی
مجھے
بھی کسی کا انتظار نہیں
میں
بار بار گھڑی نہیں دیکھتا
کہ
کوئی منتظر ہوگا میرا
کسی
کی شکایت کا اندیشہ بھی نہیں
میرے
وہم و گماں میں بھی نہیں تھا
کہ
کبھی دیر وحرم میں
ایک
جیسی ویرانی ہوگی
کہ
انہیں ہی آباد کرنے کی خاطر
خاک
ہوئیں ہیں نہ جانے کتنی بستیاں
اب
سڑکوں پر کوئی مقابلہ نہیں
ایک
دوسرے کو دیکھ لینے کی دھمکی بھی نہیں
اب
دفتر سے کال کرنے کی ضرورت نہیں
کہ ٹفن بکس چھوڑ آیا ہوں
اب
دیر شام لوٹنے کی شکایت بھی نہیں
کہ
دہلیز پر چرا غ نہیں جلتے
مگر
لفظ
تصور جاناں
بے معنی ہو گیا ہے
تنہائی
بھی آنکھ چرانے لگی ہے
کہ ہر طرف
اداسیوں
کا بسیرا ہے
میں منتظر ہوں
صبح
نو کا
کہ
نئی کرن
اک نیا پیغام لے کر اے گی
زندگی کے لئے
اک نیا
انعام لے کر اے گی
میں
منتظر ہوں
صبح نو کا
کہ
اب تنہائی بھی
آنکھ چرانے لگی ہے !
لفظ
تصور جاناں بے معنی ہو گیا ہے !
*ڈاکٹر
مشتاق احمد
دربھنگہ
مورخہ
۔13اپریل 2020
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں