نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*ڈاکٹر مشتاق احمد دربھنگہ ۔۔۔۔نظم ۔۔التجا


نظم ۔۔التجا
یہ تورات و زبور ،یہ انجیل و قرآن
یہ گیتا و گرنتھ ،یہ وید و پران
یہ سقراط و افلاطون کا فلسفہ حیات
یہ مہاویر کی جیوتی ،یہ گوتم کا گیان
یہ نظام و چشتی کا درس اخوت
یہ کبیر کا ابدی درسن ،یہ خسرو کا  بہرالفت 
یہ شاہ بلھے کی امریت وانی ،یہ تلسی کی چوپائی
یہ آنند کا ازلی اپدیش ،یہ اسباق میرا بائی
یہ سائیں کا چمتکار ،اڈیرو لال کی روشنی
یہ مارکس کی کتاب سرخ ،باپو کا پیغام زندگی
یہ تان سین کا ملہار ،روی شنکر کی دھن
یہ ہیرا لال کی تھاپ ،برجو کی تھرکن
یہ چورسیا کی بانسری ،یہ بسم اللہ کی شہنائی
یہ میر و غالب کی غزلیں ،یہ پنت و نرالا کی نظمیں
یہ پریم پچیسی ،یہ آگ کا دریا
یہ ساحر کے گیت ،یہ بچچن کی مدھو شالا
یہ لتا کی جادوئی سر ،اختر کے نالے
یہ رفیع کے ابدی بول ،مکیش و مننا کے نغمے
یہ آئنسٹائن کی دانشوری ،یہ آریہ بھٹ کا وگیان
یہ رمن کی جستجو ،یہ کلام کا فکر آسمان
یہ دلیپ و مدھو بالا کی جوڑی ،یہ دھرم و ہیما کی کہانی
یہ امیتابھ و ریکھا کا جادو ،یہ عامر و سلمان اور بجلانی
     یہ اظہر و تندلکر کے بلے ،یہ یہ ثانیہ کی چہک ،آنند کی خاموشی
یہ دھیان کی جادو گری ،یہ بالا و اشا اڑن پری
تم نے کبھی سوچا ہے
یہ سب آسمانی کتابیں اور صحیفے
یہ سب ملفوظات و ایجادات
ہمارے جینے کے ہیں خدا کی عطیات
مگر
ہم اہل علم و ہنر ،بن نہیں سکے انسان
کہ بستی میں کہیں ہندو ہیں ہم ،کہیں مسلمان
چلو ،جنگلوں میں چل کر دیکھتے ہیں
جہاں رہتے ہیں صرف اور صرف حیوان
ایسا لگتا ہے کہ جیسے
ان کے لئے ہی اترے ہیں
یہ تورات و زبور ،یہ انجیل و قرآن
یہ گیتا و گرنتھ ،یہ وید و پران !
*ڈاکٹر مشتاق احمد
دربھنگہ ۔
مورخہ ۔11 اپریل 2020

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period