نظم ۔۔۔روشن اندھیرا
(پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے نام )
دوپہر کی دھوپ ہے
تا حد نظر
کوئی سایہ دیوار نہیں
شعلوں پہ رواں دوا ں ہے
ہمارا قافلہ در قافلہ
ہماری جلتی بجھتی آنکھوں میں
سب اپنے ہیں کوئی اغیار نہیں
کہ ہماری آنکھوں پر نہیں ہے
کوئی چشمہ وقت
ہم محنت کشوں کو معلوم ہے
اپنی صدیوں کی کہانی
جہان نو کی رونق ہم سے ہے مگر
یہاں ہمارے لہو سے گراں ہے پانی
پھر بھی دیکھو
رواں دواں ہے ہمارا قافلہ
کہ ہمیں معلوم ہے
یہ اندھیرا ہمارا مقدّر نہیں ہے
ہم تیری روشنی کے مارے ہوئے ہیں
ہمیں غم نہیں کہ
دربدر اشکبار ہیں ہم
پھر بھی ندارد اخبار ہیں ہم
تاریخ ہمیں صدا دے رہی ہے
چلتے رہنے کا حوصلہ دے رہی ہے
کہ جب بھی
ہم پر ظلم و ستم ڈھا ے گئے ہیں
شاہ وقت صفہ قرطاس سے مٹا ے گئے ہیں
اندھیرا ہمارا مقدّر نہیں ہے
(پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے نام )
دوپہر کی دھوپ ہے
تا حد نظر
کوئی سایہ دیوار نہیں
شعلوں پہ رواں دوا ں ہے
ہمارا قافلہ در قافلہ
ہماری جلتی بجھتی آنکھوں میں
سب اپنے ہیں کوئی اغیار نہیں
کہ ہماری آنکھوں پر نہیں ہے
کوئی چشمہ وقت
ہم محنت کشوں کو معلوم ہے
اپنی صدیوں کی کہانی
جہان نو کی رونق ہم سے ہے مگر
یہاں ہمارے لہو سے گراں ہے پانی
پھر بھی دیکھو
رواں دواں ہے ہمارا قافلہ
کہ ہمیں معلوم ہے
یہ اندھیرا ہمارا مقدّر نہیں ہے
ہم تیری روشنی کے مارے ہوئے ہیں
ہمیں غم نہیں کہ
دربدر اشکبار ہیں ہم
پھر بھی ندارد اخبار ہیں ہم
تاریخ ہمیں صدا دے رہی ہے
چلتے رہنے کا حوصلہ دے رہی ہے
کہ جب بھی
ہم پر ظلم و ستم ڈھا ے گئے ہیں
شاہ وقت صفہ قرطاس سے مٹا ے گئے ہیں
اندھیرا ہمارا مقدّر نہیں ہے
ہم تیری روشنی کے مارے ہوئے ہیں !!
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں