نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نیا قانون از سعادت حسن منٹو


نیا قانون از سعادت حسن منٹو

منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔

استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔

سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔

پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ضرور ٹھنڈک پہنچے گی۔۔۔

پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا اور اصطبل میں جاکر تانگہ تیار کیا اور باہر نکل گیا، اس کی طبعیت آج غیر معمولی طور پر مسرور تھی، وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔۔۔ادھر ادھر گھومتے ہوئے کافی دیر ہوگئی مگر منگو کو کچھ نیا نہیں دیکھائی دیا ۔۔۔پھر اسے ایک سواری چھاؤنی کی ملی اس نے اندازہ لگایا کہ وہاں سے نئے قانون کا کچھ پتہ چل جائیگا۔۔۔ چھاؤ نی سے اسے ایک گورے نے اشارے سے اپنی طرف بلایا(منگو کو گوروں سے نفرت تھی)۔۔۔صاحب بہادر کہاں جانا مانگتا ہے؟۔۔۔منگونے طنزیہ انداز میں پوچھا۔۔۔گورے نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے بولا جانا مانگتا ہے یا پھر گڑبڑ کرے گا؟ وہی ہے۔۔۔یہ الفاظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئے اور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔۔۔وہی ہے۔۔۔استاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے کہا کہاں جانا مانگتا ہے؟ہیرا منڈی، کرایہ پانچ روپے ہوگا۔۔۔یہ سن کر گورا چلایا پانچ روپے کیا تم۔۔۔ہاں ہاں پانچ روپے۔۔۔کیوں جاتے ہو یا بیکار باتیں بناؤ گے۔۔۔

گورے نے اپنی چھڑی سے منگو کو تانگہ سے نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔۔۔پھر کیا تھا منگو کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح سے اوپر اٹھا اور چشم زدن کی گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔۔۔دھکا دے کر منگو نے گورے کو پیچھے ہٹایا اور دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کردیا۔۔۔گورے نے زور زور سے چلانا شروع کیا ۔۔۔اس چیخ و پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام تیز کردیا۔۔۔وہ گورے کو جی بھر کر پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا؛پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ۔۔۔پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔۔اب ہمارا راج ہے بچہ:۔۔۔وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔۔۔اب نیا قانون ہے میاں ۔۔۔نیا قانون! استاد منگوکو پولیس کے سپاہی تھانے لے گئے۔۔۔راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ نیا قانون نیاقانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔۔۔نیا قانون نیا قانون کیا بک رہے ہو؟ قانون وہی ہے پرانا۔۔۔اور استادمنگو کو حوالات میں بند کردیا گیا! (اختتام)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

اداریہ

  آداب !                   اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض   تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔                   عزیزان من!   کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم   ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔                   کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور