نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

۔ سرسید شناسی کو استحکام بخشنے والی ایک کتاب پر تبصرہ ناقد ومحقق پروفیسر شہزاد انجم کی مرتبہ کتاب ”عہد ساز شخصیت:سرسید احمد خاں“


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:rm.meezan@gmail.com
عالمی تاریخ میں جن چند شخصیات کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے ان میں سرسید احمد خاں کانام بھی شامل ہے۔ سرسید احمد خاں ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے ایک ایسے وقت میں ہندوستانی معاشرے میں سماجی اور تعلیمی انقلاب پیدا کیاتھا جب چہار طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ ہماراملک غلام تھا اور غلامی جیسی لعنت سے کہیں بڑی لعنت ہماری جہالت تھی اور اس نے حقوق انسانی کے سارے تانے بانے بکھیر دیے تھے۔ بالخصوص مسلم معاشرہ ایک کٹھن دور سے گذر رہا تھا کہ ایک طرف انگریزی حکومت مسلمانوں کے خلاف نت نئے منصوبے بنا رہی تھی دوسری طرف ملک میں فرقہ واریت کی چنگاری بھی شعلہ کا روپ اختیار کرنے لگی تھی، مختلف تنظیموں نے انگریزوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرنا شروع کردیا تھا۔ غرض کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ملک کی فضا اس قدر مکدر ہوگئی تھی کہ چہار طرف انھیں ذلت ورسوائی کا سامنا کرناپڑ رہا تھا۔ ایسے صبر آزما دور میں سرسید کی واحد ذات تھی جس نے نہ صرف انگریزوں کے ذہن میں مسلمانوں کے خلاف جو زہر بھرا گیا تھا اور منافرت کے جالے بنے گئے تھے اسے توڑنے کی کوشش کی،بلکہ ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کی سماجی اور تعلیمی صورتحال کو بھی بدلنے کی کوشش کی۔
اس وقت میرے پیشِ نظر اردو کے نامور ناقد ومحقق پروفیسر شہزاد انجم کی مرتبہ کتاب ”عہد ساز شخصیت:سرسید احمد خاں“ ہے۔ پروفیسر انجم ملک کی تاریخی دانش گاہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں صدر شعبہ اردو ہیں لیکن ان کی شناخت کا ضامن ان کا یہ عہدہ نہیں ہے، بلکہ وہ دو دہائیوں سے دنیائے ادب میں اپنی علمی اور ادبی کاوشوں کی بدولت اعتبار کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ ہماری جامعات میں دانشوری کی ایک مستحکم روایت رہی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس کا فقدان نظر آنے لگا ہے۔ ایسے وقت میں پروفیسر شہزاد انجم نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے اکابرین کی روایت کے امین ہیں اور شہرت پسندی سے دوررہ کر ادبی وعلمی کارنامے انجام دینے کو فرض اولین سمجھتے ہیں۔ چوں کہ ان دنوں سرسید کے دو سوویں یومِ پیدائش کی مناسبت سے سرسید کے افکار ونظریات کے متعلق نئی نئی کتابیں شائع ہو رہی ہیں اور سرسید کی بحر ذخّار شخصیت میں غوطہ زن ہو کر ہر شخص گوہرِ آبدار حاصل کرنے کی سعی ئ پیہم کر رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پروفیسر شہزاد انجم نے سرسید شناسی کو اپنی اس علمی کاوش سے استحکام بخشا ہے اور سرسید کی ہمہ جہت شخصیت سے جہانِ علم وادب کو روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
اس کتاب میں منثور ومنظوم دونوں طرح کی تخلیقات شامل ہیں۔ سات ابواب قائم کئے گئے ہیں۔ چھ ابواب نثری تخلیقات پر مشتمل ہیں، جب کہ باب آخر منظوم تخلیقات کے لیے مختص ہے۔ اس مختصر تبصرے میں یہ ممکن نہیں کہ تمام مشمولہ مضامین پرمفصل بحث کی جائے۔لیکن مشمولہ مضامین کے قلمکاروں کی فہرست دیکھ کر بھی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پروفیسر انجم نے اس کتاب کی ترتیب میں کس قدر جانفشانی کی ہے اور سرسید کے فکری ونظری سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ مقالہ نگاروں میں قدیم اورجدید دونوں طرح کی شخصیات شامل ہیں۔ ان میں خواجہ الطاف حسین حالی، جواہر لال نہرو، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، پروفیسر خلیق احمدنظامی، علامہ شبلی نعمانی، ڈاکٹر سید عبداللہ، پروفیسر آل احمد سرور، پروفیسر رشید احمد صدیقی، پروفیسرسید احتشام حسین، پروفیسرنورالحسن نقوی، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر محمد مجیب، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر صغیر افراہیم، پروفیسر شافع قدوائی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ اسی طرح منظوم خراجِ عقیدت کے باب میں اسرار الحق مجاز، اکبر الٰہ آبادی، الطاف حسین حالی، ڈاکٹر محمد اقبال، محمد علی جوہر، ظفرعلی خاں، مولوی وحید الدین سلیم پانی پتی، خوشی محمد ناظر اور اظہر عنایتی کی نظمیں شامل ہیں۔ ان مشمولہ نثری اور شعری تخلیقات پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پروفیسر شہزاد انجم کی تنقیدی بصیرت اور تحقیقی بصارت کس قدر بلند ہے۔ میرے خیال میں سرسید شناسی کے باب میں یہ کتاب نہ صرف ایک اہم علمی وادبی اضافہ ہے بلکہ نئی نسل کے لئے سرسید کی بحر بیکراں شخصیت اور ان کے ابدی افکار ونظریات کوسمجھنے اور سمجھانے کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ علمی وادبی حلقے میں پروفیسر شہزاد انجم کے اس تاریخی کارنامے کو قبولیت حاصل ہوگی۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے2019ء میں شائع ہونے والی 784/صفحات کی اس دیدہ زیب کتاب کی قیمت 448/ روپے ہے، جو کہ مناسب ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو