ڈاکٹر پیرزادہ فہیم اور اداکار عرفان خان کی یادگار ملاقات، بہ انداز نظم
ایک یادگار لمحہ، تصویر میں ہماری
یوں قید ہوگیا ہے
جب دیکھتا ہوں اس کو
ماضی کے سارے لمحے، اک ایک کرکے مجھ کو
مسرور کررہے ہیں شاداب کررہے ہیں
عرفان خاں کا مجھ سے
وہ ہمکلام ہونا، وہ قہقہے لگانا
کتنے حسین تھے وہ، لمحے جو اپنے گذرے
پر اب جو سوچتا ہوں
کچھ کہہ نہیں میں پاتا
زندہ رہا وہ جب تک
لڑتا رہا قضا سے
جیتا رہا ہمیشہ، ہمت سے حوصلے سے
کتنے جہات میں وہ، بٹ بٹ کے جی رہا تھا
میں نے جو اس کو دیکھا، میں نے جو اس کو سمجھا،
بس اس قدر ہی جانا
وہ شیدائی ادب کا، فنکار تھا بلاک
اس کا مطالعہ تھا، بے حد وسیع و گہرا
دوران گفتگو ہی
میں نے کیا حوالے، تحریر یوسفی کو
جب اس نے پڑھ لیا تو، حیرت میں ڈوب کر یہ
کہنے لگا وہ مجھ سے، کیا خوب ہے یہ ہیومر
گرویدہ ہوگیا وہ، تحریر یوسفی کا
تحریر یوسفی ہی اک وجہ بن گئی تھی
دونوں کی دوستی کی
اب نقش بن گیا ہے ، اس پردہ ذہن پر
وہ یاد گاری لمحہ،
جو قید ہوگیا ہے، تصویر میں ہماری
اک یاد گار لمحہ
پروفیسر عبدالرب استاد
ماشااللہ بہت اچھے انداز میں پیش کیا آپ نے ڈاکٹر صاحب، مبارکباد
جواب دیںحذف کریںمشکور و ممنون
حذف کریںڈاکٹر پیر زادہ فہیم اور عرفان خان کی ملاقاتیں اور دوستس کی روداد کی بہترین عکاسی ہے استاد محترم نے ،میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔اور ڈاکٹر سید عارف مرشید کو نظم اچھے انداز میں پیش کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیر
حذف کریںماشاءاللہ۔بہت عمدہ اور مؤثر نظم کی تخلیق پر میں استاد محترم پروفیسر عبد الرب استاد صاحب کو بہ صمیم قلب مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھ نظم کی ترسیل پر ڈاکٹر سید عارف مرشد بھی لایق تحسین ہیں۔۔ ۔سید اسداللہ
جواب دیںحذف کریںماشاءالله
حذف کریںبے حد شکریہ
حذف کریں