نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سالم شجاع انصاری کی غزل گوئی



سالم شجاع انصاری کی غزل گوئی
محمد ارشد خان رضوی فیروزآبادی 
سالم شجاع انصاری
                                              

               
کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی زندگی میں ہی ادبی تاریخ کا حصّہ بن جاتی ہیں۔ وہ اپنے عہد، یہاں تک کہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی بھر پور متاثر کرتی ہیں۔
        ایک سچا شاعر فطرت کا نقیب ہوتا ہے وہ اپنی فکر سے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ، اپنی ظریفانہ سنجیدگی سے لوگوں کو ہنساتا، اور مستقبل کے اشاریے پیش کرتا ہے، اور وہ عظیم شاعر جسے لوگ ادبی دنیا میں سالم شجاع انصاری کہتے ہیں

سالم شجاع انصاری کا تعلق صنعت کاری کے شہر سہاگ نگری فیروزآباد سے ہے.
شہر فیروزآباد آگرہ اور علی گڑھ سے متصل صوبہ اتر پردیش میں واقع ہے.
جب بھی شعر و شاعری کی بات ہوتی ہے تو اس میں آگرہ اکبرآباد شعروشاعری کا مرکز قرار پاتا ہے
آگرہ ایک عرصہ دراز تک  شعروشاعری کا گہوارہ یعنی مرکز ادب رہا.
ظاہر سی بات ہے کہ اس کے اثرات شہر فیروزآباد پر بھی مرتب ہوئے
اور فیروزآباد میں بھی شعرو ادب کا آغاز ہوا. فیروزآباد میں ابتداء سے ہی داغ دہلوی کے تلامذہ کا بول بالا رہا اور اسی سلسلہ داغ سے سالم شجاع انصاری کا تعلق ہے.
سالم شجاع انصاری اس دور کے بہت ہی پختہ کار اور ابھرتے شاعر ہیں
سالم شجاع انصاری ملنسار، منکسرالمزاج، خلیق، اور حساس دل کے مالک ہیں 

انکی شاعری میں جہاں ایک طرف تغزل ہے وہیں دوسری طرف تصوف کے آبشار بھی نظر آتے ہیں
وہ زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر گفتگو کرتے ہیں .
 انکے اشعار جہاں ہیجانی کیفیت لئے ہوئے تو وہی سنجیدگی،متانت، سادگی،روانی،شایستگی اور تازگی بھی انکے کلام میں نظر آتی ہے
جہاں تک غزلوں کا تعلق ہے تو وہ اپنی غزلوں میں محبوب سے محبوب کی عرضیت کو اس طرح پیش کرتے ہیں جو میر اور مومن کے یہاں شروع ہوتی وہ سالم شجاع انصاری کے یہاں بھی قائم رہتی نظر آتی ہے

وہ اپنے محبوب سے کہتے ہیں 

ایک ہم ، ہم پہ سب گزرتی ہے 
ایک تم ، ہم پہ سب گزارتے ہیں 

اس شعر میں بھی سالم شجاع انصاری میر اور مومن کی طرح اپنی عرضیت کو واضح کرتے دکھائی دے رہے ہیں 

تو وہیں دوسری جانب نباضی کرتے ہوئے وہ اپنے شعر میں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں

وہ جن کے نام پہ شہروں کے نام رکھے گئے 
انہیں سے مانگا گیا ہے ثبوت شہریت

سالم شجاع انصاری کی اہم خصوصیات یہ بھی ہے کہ انکے شعروں میں تغزل کے ساتھ ساتھ تصوف کے روشن جلوے  نظر آتے ہیں 

وہ کہتے ہیں شعر ملاحظہ ہو 
میں بدن ہوں، تو بدن کا مرے سایا تو ہے
میرا پرتو، میرا نقشہ، مرا چہرہ تو ہے
کون ہوگا کہ جسے بھیڑ گوارا ہوگی
ایک کا ایک ہی ہوتا ہے سو مرا تو ہے
دیکھ کر تجھکو تڑپ جاتا ہے ایمان مرا
اے بت خاک ازل واجب سجدہ تو ہے

انکے اس اشعار میں تغزل و تصوف کے جلوے صاف رونما ہیں
سالم شجاع انصاری کی شاعری میں سادگی و سلاست و روانی  اور سنجیدگی کی جیتی جاگتی تصویر  پیش کرتے نظر آتے ہیں 

وہ کہتے ہیں 
چاہے کش پہ کش لے لو، چاہیں کشمکش لے لو
زندگی کی یہ سگرٹ جل کے راکھ ہونی ہے

سالم شجاع انصاری کی شاعری میں بے پناہ عصری آگہی کے جلوے اور جو بھی سیاسی سماجی محرکات ہوئے یا جو بھی سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی انہوں نے اپنی فکرو تجسّس سے شاعری کی معراج بنایا 

وہ فرماتے ہیں 

ہمارے عشق کے پرزے اڑا رہے تھے لوگ 
کھڑے ہوئے تھے خدا بھی تماش بینوں میں 


 عصری آگہی کے جلوے بھی ملاحظہ فرمائیں 
من موافق خدا تلاش لیے 
بت پرستوں نے بت تراش لیے 
پتھروں میں بھٹک رہا ہوں میں 
آئینہ دل کا پاش پاش لیے

اور کہتے ہیں 
جسم کے ڈھیر سے ایک شور عجب اٹھتا ہے 
مجھکو ملبے سے نکالو مرا دم گھٹتا ہے


سالم شجاع انصاری زبان و بیان پر اچھی قدرت رکھتے ہیں وہ اردو زبان کے ساتھ ساتھ ہندی اور برج میں بھی یکساں کمال رکھتے ہیں انکی شاعری میں ہندی زبان کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے اور بہت خوبصورتی کے ساتھ ہندی قافیوں سے اپنی غزلوں کو مرصع کرتے دکھائی دیتے ہیں 

ہندی قوافی 
وہ کہتے ہیں 
سمجھ لینا کہ ہیں سنجوگ اچھے
جو مل جائیں تمہیں کچھ لوگ اچھے
محبت، فرض، سچائی، شرافت
کبھی ہوتے نہیں یہ روگ اچھے
ہے جن کے ہاتھ میں تقدیر اپنی
کرم اچھے نہ انکے بھوگ اچھے

سالم شجاع انصاری کی جو سب سے اہم خصوصیت ہے وہ یہ ہے کہ وہ سنگ زمین پر گل مہکانے کا ہنر رکھتے ہیں 
انکی جہت بالکل مختلف ہوتی ہے 
سخت ترین سے سخت زمین پر مشکل سے مشکل قافیوں میں شعر کہنے کا ملکہ انکو اچھی طرح آتا ہے 

ملاحظہ ہو 
ہوگیاہے نصیب سناٹا
توڑ! اے عندلیب سناٹا
کیا تعجب دماغ پھٹ جائے
اس قدر ہے عجب سناٹا
دے گیا شور زندگی سالم
اب ہے دل کے قریب سناٹا

شاعر بڑی بڑی بحروں میں شعر آسانی سے کہتے ہیں اور انہیں بڑی بحر میں آزادی بھی فراہم ہوتی ہے 
مگر چھوٹی بحروں میں فکری وسعت کو قائم رکھنا یہ بڑے شعراء کے کلام کی نمایا خصوصیات ہوتی وہی خصوصیت سالم شجاع انصاری کے یہاں خوب دیکھنے کو ملتی ہے 
وہ چھوٹی بحر  میں مقفٰی اور مسجع غزل 
کتنی فنکارانہ صلاحیت سے کہتے ہیں 

ملاحظہ ہو
لوگ برسوں تباہ ہوتے ہیں
تب کہیں کچھ گنہ ہوتے ہیں
اتنی سستی نہیں گناہ گاری
اس میں ایماں سیاہ ہوتے ہیں
اک اذیت بھری مسافت کے
راستے خیر خواہ ہوتے ہیں



سالم شجاع انصاری کے بیشتر شعروں سے صاف واضح ہوتا ہے کہ انکے اندر فخر آخرت اور دنیا کی بے ثباتی ہے. وہ دنیا کو صرف ایک امتحان گاہ تصور کرتے ہیں اور آخرت کو اصل جانتے ہیں 

وہ کہتے ہیں 
سفر کے بعد پھر سے اک سفر ہے
یہ دنیا ہے کہ کوئی رہ گزر ہے
فقط شور تماشائے ہنر ہے
نہ جادو ہے نہ کوئی جادو گر ہے

سالم شجاع انصاری فکر، تجسّس، اور تصوف میں غرق نظر آتے ہیں 
انکے اندر انانیت، خودی، فرد کی تلاش، بے ساختہ نظر آتی ہے 

وہ لکھتے ہیں 
عشق مرشد کے سبب ممکن ہوا
میں مسلماں تھا، پر اب مومن ہوا
روح کے ساتوں طبق روشن ہوئے
مجھ پہ ظاہر جب مرا باطن ہوا
اب ہر اک شے میں نظر آتا ہے تو
گوشہ گوشہ مظہر مومن ہوا

سالم شجاع انصاری بہت مایہ ناز شخصیت کا نام ہے سالم شجاع انصاری کی نہج بہت مختلف ہے
 انکے یہاں سادہ سلیس زبان میں جو ردیف ہے وہ بہت کم ہی دوسرے شعراء کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے. وہ مشکل سے مشکل ردیف کو بہت سلاست کے ساتھ پیش کرتے ہیں اسکے باوجود سنجیدگی، متانت سادگی، روانی اور شایستگی کے دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیتے
انکا یہ کمال حسنہ ہیں کہ وہ چھوٹی چھوٹی بحروں میں بھی مشکل ردیفوں کو بہت سلیقے اور پیش کر تے ہیں اور قاری اس سے محظوظ ہوتے ہیں
اسکی زندہ مثال آپکے سامنے پیش کر رہا ہوں 

وہ کہتے ہیں کہ 
مسئلے سب ثقیل ہو گئے ہیں 
میرے سجدے طویل ہو گئے ہیں 
زندگی ہم سے بھیک مانگتی ہے 
اور ہم بھی بخیل ہو گئے ہیں 

آخر کار ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آج کے موجودہ دور کے شاعروں میں سالم شجاع انصاری کا اپنا ایک خاص مقام ہے اور انکی شاعری سے ہندوستان کے علاوہ بیرونی ممالک کے لوگ بھی مستفیض ہو رہے ہیں 
اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ  سالم شجاع انصاری راستوں کو ہموار کرنے میں بے پناہ مددگار اور مشعل راہ ثابت ہونگے اور انکی شاعری سے زمانہ فیضیاب ہوگا ساتھ ہی شعرو ادب کی محفلوں میں فیروزآباد اور مرکز ادب آگرہ کا نام ہمیشہ روشن و تابناک رہیگا

احقر خادم اردو
محمد ارشد خان رضوی فیروزآبادی 
شعبہ اردو سینٹ جانس کالج آگرہ 
مکان نمبر 41، گلی نمبر 8 ،کشمیری گیٹ فیروزآباد 283203 یو. پی انڈیا 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو