اکیسویں صدی
افسانہ
نگار:۔ محمد رضون منصور تماپوری
موبائل
نمبر :9986382406
میں نے بہت محنت
اور شوق سے ڈاکٹری کی ، یہ میرے والدین کی تمنا اور میری خواہش دونوں کا ملا جلا
نتیجہ تھا ۔ فی زمانہ ممبئی جیسے شہر میں ڈاکٹر بننا ایک معمولی سی بات ہے۔ یہاں
ایک دواخانہ شروع کرنا گویا پان شاپ شروع کرنے جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ ہاں اگر آپ
کسی حد تک لوگوں کی توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں اور آپ کو من چاہی فیس بھی مل سکتی
ہے۔ ممبئی میں اس لئے تقریباً ڈاکٹر کسی نہ کسی بیماری کے ماہر ضرور ہوتے ہیں جیسے
کہ آنکھوں کے ماہر، دل کے ماہر وغیرہ وغیرہ۔اب میں پھر سوچ میں پڑ گیا کہ مجھے ان
گنت مہارتوں میں سے کس بیماری کا ماہر ہو نا چاہیے۔ میں نے سارے ماہرین پر نظر
دوڑائی ان سب ماہروں میں مجھے یہ ایک عام بات نظر آئی ، یہ سب بیماریاں اتفاقاً
آتی ہیں یا حادثاتی طور پر تو انسان کو ان بیماریوں میں مبتلا ہو نے کا اور پھر
ڈاکٹر کے پاس آنے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ویسے ڈاکٹر کا پیشہ نہایت معزز اور مقدس
پیشہ ہے ۔ کیوں کہ دوسروں کے مقابلہ لوگوں کی زندگی بچاتا ہے انہیں موت کے منہ سے
چھین کر نئی زندگی عطا کر تا ہے ۔ حالانکہ اس میں ڈاکٹر کی محنت سے زیا دہ خدا کی
شفاعت کا دخل ہوتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ ڈاکٹر اس پیشے کا غلط استعمال کر تے
ہوئے دولت کے پیچھے بھا گ رہے ہیں۔ کوئی غریب جب اسپتال سے علا ج کر واکر باہر
نکلتا ہے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کی ایک کڈنی غائب ہو چکی ہے۔ اور کچھ ڈاکٹر
زندگی دینے کے بدلے پیسوں کی خاطر زندگی لینے پر تلے ہوئے ہو تے ہیں۔ میرے پاس
پیسوں کی کمی نہیں مگر خواہش ضرور ہے کہ اور کماﺅں ۔ میرا پیشہ عام
ڈاکٹروں سے ذرا مختلف ہے۔ بہت سوچنے کے بعد مجھے ایسا ایک شعبہ نظر آیا جس کے لئے
حادثہ یا اتفاق کی ضرورت نہیں ممبئی کے تقریباً لوگ کبھی شوقیا کبھی جان بوجھ کر
اس مرض میں مبتلا ہو تے ہیں اور اس کے علا ج کے لئے دوڑ پڑتے ہیں۔ آپ اس کے علا ج
کے لئے جتنی چاہے رقم وصول کر سکتے ہیں یہ بیما ری کی نوعیت پر منحصر ہے ۔ یہ بیما
ری آج کل کا ایک حصہ بن گئی ہے۔ کیونکہ مجبوراً کچھ مصلحتاً اور کچھ خواہش کے طور
پر اور کچھ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا شکار ہو جا تے ہیں ۔ تو میں نے سارے ماہرین کی
جانچ کر نے کے بعد اس مرض کا ماہر بننا طے کیا جو کہ ممبئی میں آج کل اور آنے والے
دنوں میں سب سے زیا دہ معروف ہے اور رہے گا ۔ آپ کو بیشتر جگہ اس کے اشتہارات ملیں
گے۔ یا یوں کہوں کہ ممبئی میں سب سے زیا دہ اسی کے اشتہارات آپ کو دیکھنے کو ملیں
گے۔ بسوں میں سڑکوں پر ٹرینوں میں پیشاب خانوں اور اب کہیں کہیں تو کالج میں بھی
یہ اشتہارات نظر آئیں گے۔ یہ بیماری حاملہ پن ہے اور میں ابارشن اسپیشلسٹ بننا طے
کیا۔ اور میری یہ خواہش بغیر رکاوٹ کے تکمیل کو پہنچی ۔ میں نے اپنا دواخانہ شروع
کیا۔اور میرے پاس بھی راشن کا دکان کی طرح روز بروز لائن بڑھنے لگی۔ جہاں لوگ
زندگی لینے کی قیمت زندگی بچانے سے زیا دہ دینے پر آمادہ ہیں ۔ یہ ایک عجیب اور
مختلف تجربہ تھا۔ میرے پاس طرح طرح کے لوگ آنے لگے ۔ بڑے چھوٹے ، جوان ،بوڑھے ،
اچھے برے، امیر غریب ، ان سب میں زیادہ تعداد 15سے 25تک کی نسل کی ہوتی ۔ جن میں
بھی اکثر غیر شادی شدہ ہوتے ۔ ان سب سے ملکر مجھے زندگی کی قیمت معلوم ہو گئی ۔
لوگ اپنی جمع کی ہوئی ردی جس طرح کباڑے والے کو ڈالتے ہیں اسی طرح یہاں اپنے گناہ
کو ڈال کر چلے جا تے ہیں ۔ وہ معصوم زندگی کو جرماً ایک غلطی کی طرح مٹانے آتے ہیں
ایسے ہی ایک روز ایک لڑکی آئی۔
”ڈاکٹر میرا Abortionکرنا ہے۔“ وہ ایسے کہہ رہی تھی جیسے میں
حجام ہوں اور اسے بال کٹوانے ہیں ”ٹھیک ہے “ یہ کہتے ہوئے میں نے اس کے ہاتھ سے وہ
پرچی لی جس پر وہ باہر سے اپنا نام اور نمبر درج کرواکر آئی تھی۔ نام تھا شیلا ۔
میں کمپیوٹر پر اس کا ریکارڈ درج کر رہا تھا تو میں نے اس سے پوچھا مس لکھو یا مسز
؟
”مس لکھئے۔۔۔۔وہ
ایسے کہہ رہی تھی جیسے وہ یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کر رہی ہو ۔ عمر ۔۔۔۔۔؟
17۔۔۔۔سال “ اچھی بات ہے آپ دو دن بعد آئیے ، وہ اپنا نام درج کروا کر چلی گئی اور
میں یہ سوچتا رہا یہ نسل وقت سے پہلے ہی 22ویں صدی میں داخل ہو نے پر کیوں تلی ہے۔
مگر میرا یہ سلسلہ ایک آواز نے توڑا ۔ اور میں نے پوچھا کیا ہے۔۔۔۔ ؟ ڈاکٹر صاحب
ابارشن کروانا ہے ۔۔۔۔ “ تھیک ہے آپ اپنا نام رجسٹر کروائے اور دو دن بعد آئیے۔ آپ
کانام کیا ہے مسز اگروال ۔عمر ۔۔۔۔۔؟ 28سال ۔۔۔“ ایک بات پوچھوں میڈیم آپ کو
اعتراض تو نہیں ۔۔۔؟ہاں پوچھیے ۔۔۔۔؟آپ کے بچے کتنے ہیں۔۔۔۔۔؟
” ایک بھی نہیں
۔۔۔۔؟ تو پھر آپ اپنا ابارشن کیوں کر وانا چاہتے ہیں ؟ جبکہ آپ اس قابل ہیں کہ اس
زندگی کو جنم دے سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب میرے پتی ذہنی طور پر کمزور ہیں ۔ آپ یہ
بات راز میں ہی رکھیں تو ٹھیک ہے ۔ یہ تو ہمارا پیشہ ہے میڈم ۔ یہ کہتے ہوئے میں
نے اپنی زبان اور ضمیر دونوں پر تالا لگا لیا۔
ایک روز مجھے ایک
اور جھٹکا لگا جب ایک تقریباً 45سالہ عورت اپنا ابارشن کر وانے آئی ۔ ویسے میرے
پیشہ کا تقاضہ نہیں تھا کہ میں ان کی وجوہات دریافت کروں ۔ پھر بھی میں یہ جاننا
ضروری سمجھا تھا کہ لوگ کن کن مجبوریوں میں یہ گنا ہ یا غلطی کر نے آما دہ ہو تے
ہیں۔ اس عورت کے شوہر کو گزرے تقریبا پانچ سال ہوئے تھے۔ وہ اس عمر میں بھی اپنے
جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے اپنے ایمان کو اور اپنی عزت کو اپنے ساتھ بیچ دیا تھا۔ لڑکیوں کے بعد سب سے زیا دہ
تعداد ان نوجوان سہاگنوں کی ہوتی ہے جن کے شوہر اپنے مستقبل یا پیسوں کے نام پر
ملک سے باہر رہتے ہیں اور وہ یہ بھول جا تے ہیں کہ ان کی بیوی جذبات کی آگ میں تپ
کر ان پکے ہوئے پھلوں کی مانند ہو تی ہیں جو کہ چھونے سے بھی جھونکے پر ٹوٹ کر گر
جاتی ہیں اور کوئی بھی آنے جا نے والا انہیں کما لیتا ہے۔ یہ سب کر تے کرتے میری
روح زخمی ہوتی جا رہی تھی ۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایسے کیسس (Cases)میرے پاس آئیں گے جن کو دیکھ کر میں کبھی
کبھی اپنے پیشہ سے نفرت کرنے لگوں گا۔ مجھے کوفت ہوتی اپنے سے اور اپنے ماہر پیشہ
سے ۔ میں اپنے آپ کو بھی ان کے گناہ کا حصہ دار تصور کرتا۔ اور کئی بار میرے دل نے
آواز دی کہ اس پیشہ کو ترک کردوں۔ مگر بھوک ہے کہ اس فیصلہ کو کھا جا تی تھی ۔ میں
زندگیاں لیتے لیتے تھک گیا تھا مگر یہ لوگ ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے
۔ ایک صبح میں اسپتال میں بیٹھا تھا کہ ایک 30-35سالہ عورت آئی جس کے ساتھ ایک
چھوٹی سی بچی بھی تھی۔ مجھے اس عورت کا ایسی جگہ اس چھوٹی سی بچی کو لے کر آنا
ناگوار لگا ۔ پھر یہ سوچ کر خامو ش ہو گیا کہ شائد کوئی مجبوری ہوگی ۔
”ڈاکٹر صاحب ابارشن
کروانا ہے“۔
ٹھیک ہے ۔ نام
بتائیے ۔عمر ۔۔۔۔۔۔۔؟
”10سال ۔۔۔۔“میں بچی
کی نہیں آپ کی عمر پوچھ رہا ہوں “ مگر ڈاکٹر صاحب ابارشن تو اس بچی کا ہی کر وانا
ہے ۔ کیا ۔۔۔۔؟ میری حیرت کی انتہا نہیں تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انسان
اس حد تک جلد بازی کر سکتا ہے ۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کا ش ۔۔۔۔!! اس لڑکا کا
بھی ابارشن اس کے والدین نے کروایا ہوتا ۔۔۔۔؟ جذباتی طور پر میری آنکھوں میں آنسو
آتے مگر میرا پیشے نے انہیں بہنے سے روک رکھا۔ میرے لئے تو سب ایک جیسے ہیں۔ چاہے
وہ دل میں 10سال کی ہو یا پچاس سال کی۔ میرا کام تو زندگی لینا ہے۔ اس واقع سے
میری روح کانپ اٹھی ۔ میرے اندر کا انسان جاگ اٹھا ۔ مگر میری لالچ نے اس کو جنم
لینے سے پہلے ہی ابارشن کر دیا۔ اور میں نے اپنا پیشہ جاری رکھا ۔ پھر میرے پاس
طرح طرح کے لوگ آنے لگے ۔ کئی تو بچے پیدا کر نے کی قابلیت رکھتے ہوئے اور شادی
شدہ ہوتے ہوئے بھی ابارشن کرواجاتے ۔ وجہ بہت معمولی ہوتی۔ کسی کے خوبصورتی پر اثر
پڑنے کا ڈر ہوتا کسی کو کیرئیر پر اثر پڑنے کا ڈر۔ کوئی بچے پیدا کرکے پریشانی مول
لینا نہیں چاہتے تھے ۔ اور کچھ لڑکی پیدا کر کے۔ مگر ایک واقعہ نے مجھے قطعی طور
پر ماہر پیشہ کو خیر آباد کہنے پر مجبور کیا۔ اس بار نہ تو پیسوں کا لالچ آڑے آیا
نہ شہرت ۔ اس واقعہ نے میرے اندر کے شیطان کو دفن کر دیا ۔ میں پوری طرح ٹوٹ گیا ۔
جس کے ریزوں کو جمع کر نے کے لئے مجھے عمر بھر اچھے کام کرنا پڑیں گے ۔ یہ لوگ اس
حد تک ماڈرن ہیں یہ میں خواب بھی سوچ نہیں سکتا تھا ۔ ایک لڑکی اپنا ابارشن کروانے
آئی تھی جس کی عمر 16سال تھی۔ میں نے اس کا نام اور نمبر درج کر لیا ۔ اور دو دن بعد
آنے کو کہا ۔ جب و ہ دو دن بعد آئی تو میں نے اس کی سونو گرافی کی۔ اس کا نتیجہ
اور تصویریں میرے سامنے تھیں۔ اس لڑکی کو میں غور سے دیکھ رہا تھا مگر اس کے چہرے
پر شرم و حیا نام کی کوئی چیز
Lensلگا
کر دیکھنے سے بھی نظر نہیں آئی ۔ بڑے ہی اطمینان سے بیٹھی تھی جیسے وہ اس کا حق
تھا۔ بہت دیر سوچنے کے بعد میں نے اس لڑکی سے پوچھا ۔
تو
تمہارا ابارشن کر نا ہے۔ ۔۔۔؟
”ہا ں اس لئے تو
آئی ہوں۔۔۔۔“کیا تم یہ بھی جانتی ہو کہ تمہارے پیٹ میں کس طرح کا بچہ ہے؟“ ہاں میں
یہ بھی جا نتی ہوں۔۔۔۔“ یہ جوامیرے لئے قیامت سے کم نہ تھا اور اسی جواب نے مجھ
ماہر ڈاکٹر کو اپنا پیشہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ”کیوں کیا تمہیں ۔۔۔“ میری بات کو
کاٹتے ہوئے اس لڑکی نے کہا ۔”نہیں ڈاکٹر ہم اکیسویں صدی کی ماڈرن لڑکیاں ہیں ۔
زمانے سے آگے رہنا پسند کر تے ہیں۔ یہ میرا شوق اور تجر بہ دونوں تھے۔ آپ اس کی جو
قیمت چاہو لے سکتے ۔۔۔ہو“
یہ میرا آخری
ابارشن تھا اس لڑکی کے پیٹ سے ایک جانور نما بچہ نکلا تھا۔ ٭
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں