نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اداریہ

 

آداب!

 

                اُمید کہ آپ تمام خیریت سے ہوں گے۔ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ بھی ٹلتا ہوا نظر آرہاہے۔ زندگی کی گاڑی پٹری پر آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ خیر یہ کورونا کی لہر یا کورونا کا بنایا ہوا جال تو دو سال سے چل رہاہے۔ لیکن کیا ہم صحت کو لے کر پہلے پریشان نہیں تھے؟ ہمارے گھروں میں ہمارے خاندانوں میں بیماریوں کا بھنڈار پڑا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نا کچھ بیماری ہے۔ سردرد جیسے چھوٹی بیماری سے لے کر کینسر جیسے جان لیوا امراض  تک ہمارے خاندانوں میں ضرور پائے جاتی ہے۔

 

                عزیزان من!  کیا آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہورہاہے۔اگر ہم  ہمارے آبا و اجداد کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں کوئی بیماری نظر نہیں آتی۔ چند ایک کو چھوڑ کر جن کی عمریں زیادہ ہوئیں تھیں وہ بھی زیادہ بیڑی کا استعمال کرنے والوں کو پھیپھروں کا کچھ مسئلہ رہتا تھا وہ بھی جان لیوا نہیں ہوا کرتا تھا۔ بس زیادہ سے زیادہ کھانستے رہتے تھے۔ اور آخری دم تک کھانستے ہی رہتے تھے۔ ان کی عمریں سو یا سو کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔

 

                کبھی کسی کو دل کا دورہ نہیں ہوا کرتا تھا اور نا ہی شوگر یا بی پی کا کوئی مرض لاحق ہوتا۔ لیکن پچھلے تین دہوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ ہر گھر میں بوڑھا ہو یا جوان شوگر، بی پی، ہارٹ جیسے امراض میں مبتلا نظر آتا ہے۔  اگر ہم ہمارے پچھلے لوگوں کی زندگی کا جائزہ لیں ان کے رہن سہن کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں زیادہ تر جدید آلات پر انحصار نہیں کرتے تھے۔ ان کی روزمرہ کی زندگی بہت ہی آسان اور سرل تھی۔ وہ ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانے کیلئے پیدل یا گھوڑا گاڑی یا بیل گاڑی  کا استعمال کیا کرتے تھے۔

 

                گھروں میں پکانے کیلئے کچی مٹی کے برتنوں کا استعمال ، چولہا لکڑی کا، کوٹنے کیلئے چکی، ہون دستہ، وغیرہ کا استعما ہوتا تھا۔ چائے کا استعمال بالکل نہ کے برابر تھا بہت ضعیف لوگ چائے پیتے تھے جس میں شکر کا نہیں گڑھ کا استعمال ہوتا تھا۔ پتی کی جگہ دیگر اشیاء جیسے دال چینی، الائیچی، تیج پات، لونگ، پودینا، تلسی جیسے قدرتی جڑی بوٹیوں سے چائے بنائی جاتی تھی۔

    

                اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیوں سے بھی بیماریوں کا خاتمہ ہو تو ہمیں بھی دور گزشتہ کی طرف جانا ہوگا۔ اور ہماری زندگیوں سے ترقی کے نام پر جو جو چیزیں چلی گئی ہیں  انہیں جہاں تک ممکن ہو اپنی زندگی میں واپس لانا ہوگا۔ تب ہی ہم صحت مند رہ سکتے ہیں۔

 

ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ

  مدیر : ہندی و اُردو

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو