نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حکیم اجمل خاں کا تعارف عالمِ عرب میں

 

حکیم اجمل خاں کا تعارف عالمِ عرب میں

 

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

جدید دور کے ہندوستانی اطبا ء میں صرف حکیم محمد اجمل خاں (۱۸۶۸۔ ۱۹۲۷) ہی ایسی شخصیت کے مالک ہیں جن کی شہرت    بر صغیر ہند و پاک کے طبی، علمی سماجی اور سیاسی آفاق سے نکل کر عالمِ عرب، بلکہ یورپ تک پہنچی۔ اہم بات یہ کہ وہ اپنی زندگی ہی میں شہرت کے بامِ عروج پر پہنچ گئے تھے۔ انھیں جس طرح ہندوستان کے تمام طبقات میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جا تا تھا، اہم ملّی و سیاسی رہ نماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا اور اصحابِ علم و دین کی مجلسوں میں گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا تھا، اسی طرح عالمِ عرب کے علمی حلقوں میں بھی ان کی بڑی پزیرائی تھی۔

حکیم اجمل کی شخصیت اور خدمات پر ایک درجن سے زاید مستقل کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور جدید ہندوستان کی تاریخ اور عظیم شخصیات کے تذکرہ و سوانح پر لکھی جانے والی پچاسوں کتابوں میں ان کا ذکرِ خیر پایا جاتا ہے،لیکن تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود حیاتِ اجمل کا یہ پہلو اب تک تشنہ ہے اور اس کے بارے میں سوانح نگار خاطر خواہ معلومات نہیں پیش کر سکے ہیں۔ راقم سطور نے اس موضوع پر کچھ نئی معلومات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

عربی زبان کی تعلیم

حکیم اجمل کی تعلیم و تربیت قدیم روایتی طرز پر وقت کے فاضل اساتذہ کے ذریعے ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کی توجہ طب کی طرف ہوئی۔ اس زمانے میں طبی تعلیم عربی مصادرِ طب کے ذریعے دی جاتی تھی۔ رام پور کے زمانۂ قیام(۱۸۹۲۔ ۱۹۰۲) میں حکیم صاحب کو علامہ محمد طیب عرب مکی (م۱۹۱۶) سے خصوصی استفادہ کا موقع ملاتھا۔ علامہ طیب عرب کا وطن مکہ معظمہ تھا، جہاں سے وہ نوجوانی ہی میں رام پور آگئے تھے۔ وہ عربی ادب اور معقولات کے امام تھے۔ تاریخ، انسابِ عرب اور عربی شاعری میں وسیع معلومات رکھتے تھے۔ ان سے استفادہ کے نتیجے میں حکیم اجمل کو عربی زبان میں مہارت حاصل ہو گئی تھی۔

عربی زبان میں تصنیف و تالیف

قیامِ رام پور کے زمانے میں حکیم صاحب کو اپنے ذوقِ مطالعہ کی آبیاری کا خوب موقع ملا۔ ریاست کا قدیم اور بے مثال کتب خانہ ان کے سپرد تھا۔ انھوں نے وہاں کے ذخیرے اور خاص طور پر عربی کتب سے خصوصی استفادہ کیا۔ ان کا ایک اہم علمی کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے کتب خانے کی عربی کتابوں کی فہرست تیار کروائی اور اسے طبع کرایا۔ اسی زمانے میں انھوں نے طبی موضوعات پر تصنیف و تالیف کا بھی کام انجام دیا۔ ان کی صرف ایک کتاب(رسالۂ طاعون) کے علاوہ ان کی تمام تصانیف عربی زبان میں ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں :(۱) القول المرغوب فی الماء المشروب (۲)الساعاتیۃ (۳) التحفۃ الحامدیۃ فی الصناعۃ التکلیسیۃ (۴) البیان الحسن بشرح المعجون المسمّیٰ باکسیر البدن (۵)أوراق مزھرۃ مثمرۃ (۶)خمس مسائل (۷) الوجیزۃ (۸) مقدمۃ اللغات الطبیۃ۔

حکیم اجمل کی ان تصانیف میں خاص طور پر آخر الذکر کتاب بہت اہمیت رکھتی ہے، اس لیے کہ وہ تین پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے: اولاً اس کا موضوع طب ہے۔ ثانیاً وہ عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔ ثالثاً اس میں لغت نویسی کے اصول و مبادی بیان کیے گئے ہیں۔ عربی زبان میں فقہ اللغۃ پر بہت سی کتابیں پائی جاتی ہیں، طبی کتبِ لغات کی بھی کمی نہیں ہے، لیکن حکیم اجمل نے اس کتاب میں دونوں موضوعات کو جس خوب صورتی سے جمع کر دیا ہے اور جتنی دقّت و مہارت کے ساتھ بحث کی ہے اس کی نظیر تلاش کرنا مشکل ہے۔

عالم عرب کی سیاحت

حکیم اجمل ان خوش قسمت افراد میں سے ہیں جنھیں مختلف مناسبتوں سے متعددمرتبہ عالمِ عرب کی سیاحت کا موقع ملا۔ ہر جگہ ان کا تعارف ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی رہ نما اور حاذق طبیب کی حیثیت سے ہوا۔

انھوں نے پہلا سفر مارچ ۱۹۰۵ میں عراق کا کیا، جہاں تقریباً تین ماہ گزارا اور بصرہ، نجف، کربلا اور دیگر متبرک و تاریخی مقامات کی زیارت کی۔

ان کا دوسرا سفر ۱۹۱۱ میں یورپ کا ہوا، جس میں وہ لندن، کیمبرج،آکسفورڈ کے علاوہ فرانس اور جرمنی کے متعدد شہروں میں گئے اور وہاں کے علمی اداروں، اسپتالوں، میوزیم اور لائبریریوں کا معاینہ کیا اور نادر کتابیں اور مخطوطات ملاحظہ کیے۔ اس سفر میں وہ ترکی اور مصر بھی تشریف لے گئے اور وہاں کی علمی شخصیات سے ملاقات کی اور اہم مخطوطات کے مطالعہ میں وقت گزارا۔

انھوں نے تیسرا سفر بھی یورپ کا۱۹۲۵ میں کیا۔ اس موقع پر تقریباً ڈیڑھ ماہ(۲۴؍مئی تا ۷؍ جولائی) سوئزرلینڈ میں گزارا۔ وہاں ان کے میزبان ان کے مصری نژاد دوست فؤاد سلیم بک الحجازی تھے۔ ان کے توسط سے وہاں بعض ترکوں اور مصریوں سے حکیم صاحب کی راہ و رسم ہوئی۔ واپسی میں وہ مصر، شام، فلسطین اور لبنان بھی تشریف لے گئے۔ مصر میں ارکانِ مؤتمر خلافت، علمائے ازہر، ارکان جمعیۃ رابطۂ شرقیہ، انجمن رابطۂ ہندیہ، شیخ الازہر، شیخ سید رشید رضا اور دیگر اہلِ علم اور عمائدین سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔ شام اور لبنان میں بھی علمی اداروں اور شخصیات سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔ ‘‘(حیاتِ اجمل، ص ۳۴۹،۳۵۵،۳۵۷)

حکیم اجمل بڑی روانی سے اور بلا تکلّف عربی زبان بولتے تھے۔ اس صلاحیت سے انھوں نے عالمِ عرب کی سیاحت کے دوران خوب فائدہ اٹھایا تھا۔

علامہ رشید رضا مصری سے خصوصی تعلق

عالم عرب کی جن شخصیات سے حکیم اجمل کے قریبی تعلقات تھے ان میں سے ایک علامہ سید رشید رضا مصری (۱۸۶۵۔ ۱۹۳۵ء) ہیں۔

 رشید رضا مصر کی عظیم شخصیت شیخ محمد عبدہ(۱۸۴۹۔ ۱۹۰۵ء) کے شاگرد رشید تھے۔ ان کی زیر ادارت مجلہ المنار کا شمار عالم اسلام کے موقر اور اعلیٰ پایے کے علمی رسائل میں ہوتا تھا۔

رشید رضا ۱۹۱۲ میں ندوۃ العلماء کی دعوت پر ہندوستان تشریف لائے اور اس کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی۔ اس موقع پر وہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں گئے۔ دہلی میں حکیم اجمل نے ان کا جس انداز سے اعزاز و اکرام کیا، اس کا تذکرہ انھوں نے اپنے سفر نامے میں بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے، جو مجلہ المنار میں شائع ہوا تھا۔ اس کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

’’ رہے اہل دہلی تو ان میں میری مدح و ثنا اور شکریے کے سب سے زیادہ مستحق عظیم شخصیت، مشہور طبیب،حاذق الملک نواب محمد اجمل خاں ہیں، جن کا شمار ہندوستان میں علم و فضل اور اعلیٰ اخلاق میں ممتاز مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ ‘‘ (مجلۃ المنار،جزء؍۱۶،ص۷۷)

مصر میں حکیم صاحب کی مصروفیات کی روداد رشید رضا کے قلم سے حکیم اجمل عالمِ عرب کی سیاحت کے دوران جب مصر تشریف لے گئے تو ان سے ملاقات کرنے والوں میں شیخ رشید رضا بھی تھے۔ انھوں نے مجلۃ المنار میں، مصر میں حکیم اجمل کی سرگرمیوں کی روداد تفصیل سے بیان کی ہے۔ رشید رضا نے لکھا ہے:

’’اس سال کے موسم گرما میں اہل مصر کو شرف اور مسرت حاصل ہوئی کہ یہاں ہندوستان کے کچھ بڑے رہ نما تشریف لائے۔ وہ ہیں :مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں دہلوی، نواب امیر الدین اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ مصر نے ان معزز مہمانوں اور چوٹی کے لیڈروں کا پر تپاک استقبال کیا۔ ان میں وہ جماعتیں اور پارٹیاں پیش پیش تھیں جو مشرق اور اسلام کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان کے معاملات میں سرگرم ہیں۔  استقبال کرنے والی محترم شخصیات میں شیخ الجامع الازہر، رئیس المعاہد الدینیہ و مجلس ادارۂ مؤتمر خلافت عام، علامہ مفتی الدیار المصریۃ، علامہ شیخ حسین والی جنرل سکریٹری جامع ازہر و معاہد دینیہ و مؤتمر خلافت اور دیگر بڑی بڑی شخصیات تھیں۔ علماء کی جماعت کے ساتھ پرجوش استقبال کرنے والوں میں جمعیۃ الرابطۃ الشرقیۃ کے ذمے داران بھی تھے۔ ان میں اس کے صدر عالی جناب سید عبد الحمید البکری الصدیقی ( شیخ مشایخ الصوفیۃ) اور ناظم جناب احمد شفیق پاشا پیش پیش تھے۔ سیاسی پارٹیوں میں سے حزب وطنی کے ممبران بھی شامل تھے۔ ان تمام جماعتوں نے معزز مہمانوں کا استقبال کیا اور ان کے ذمے داروں نے ان کے لیے پر تکلف دعوتوں کا اہتمام کیا اور بڑے بڑے جلسے منعقد کیے، جن میں اسلام اور مسلمانوں کے معاملات،خلافت اور دیگر مذہبی، سیاسی اور سماجی مسائل زیر بحث آئے۔ ان مخلص زعماء کا ایسا ہی پر تپاک استقبال ان تمام مسلم ممالک میں ہوا جہاں وہ اس مبارک سفر کے دوران تشریف لے گئے۔ وہاں انھوں نے ان ملکوں کے سربرآوردہ لوگوں، دانش وروں، علمائے دین اور ماہرینِ سیاست سے ملاقات کی اور اسلام کے حال اور مستقبل کے بارے میں ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راقم سطور نے ان معزز مہمانوں سے خاص طور پرملاقات کی، مختلف مجلسوں میں ان کا تعارف کرایا اور ان کے مقام و مرتبہ سے حاضرین کوآگاہ کیا اور مختلف موضوعات پر ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ اس کے متعدد اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ راقم سطور کا ہندوستانی مسلمانوں سے کافی عرصہ سے گہرا تعلق ہے اور ان کے بعض رہ نماؤں، خاص طور پر حکیم محمد اجمل خاں سے دوستی ہے۔ ‘‘ (مجلۃ المنار، جزء۲۶،ص۴۷۸)

حکیم اجمل نے اس سیاحت سے واپس ہندوستان پہنچ کر ایک بڑے جلسے میں (جو غالباً جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد ہوا تھا) جس میں سربراہانِ قوم،اصحابِ علم و فضل، زعماء و رؤساء، سیاست داں اور قائدین، علماء، جماعتوں کے ذمے داران لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوئے تھے، سفر کے تاثرات بیان کیے۔ یہ تاثرات جریدہ’خلافت‘ میں شائع ہوئے تو رشید رضا نے مذکورہ جریدہ کے حوالے سے ان کا ترجمہ مجلہ المنار میں شائع کیا۔ (مجلۃ المنار، جزء۲۶، ص۵۴)

حکیم اجمل کی وفات پر شیخ رشید رضا کے تعزیتی تاثرات

حکیم اجمل خاں کی وفات پر شیخ رشید رضا نے مجلہ المنار میں جو تعزیتی شذرہ لکھا تھا، اس سے ان کی قدر و منزلت اور دونوں کے درمیان قریبی تعلق پر روشنی پڑتی ہے۔ اس کا ترجمہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

’’مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کا تعلق ایسے خانوادے سے ہے جسے زمانۂ قدیم سے اب تک ہر دور میں بہت زیادہ عزت اور احترام حاصل رہا ہے۔ انھوں نے مجھے خود بتایا کہ ان کا نسب مشہور محدث و فقیہ ملا علی قاریؒ سے جا ملتا ہے۔ اس موروثی مجد و شرف کے مظاہر میں سے یہ ہے کہ ان کے پاس ایک ذاتی کتب خانہ ہے جو عربی اور فارسی زبانوں میں مختلف علوم (شرعی، لغوی،طبّی، فنّی) کے انتہائی قیمتی مخطوطات پر مشتمل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکیم صاحب کو ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان طبی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں سربراہی کا مقام حاصل تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہندوستان کے دار الحکومت دہلی میں ان کا گھر ’بیت الحکمۃ‘ کہلاتا ہے۔ اس میں طب قدیم کی تعلیم ہوتی ہے، جس طرح ان کے آباء و اجداد کے دور میں ہوتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ مرحوم عام معاملات میں اہل الرأی اور اصحابِ بصیرت میں سے تھے۔ ا نھیں انجمنِ خلافت کی صدارت تفویض کی گئی۔ ان کی صدارت میں متعدد بڑی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ ان کا خیال تھا کہ ملک کے سیاسی، معاشی اور دیگر معاملات و مسائل میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اتحاد ضروری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ان کی وفات سے ہندوستان اپنے سب سے بڑے اور تجربہ کار لیڈر سے محروم ہو گیاہے، جو علم، حکمت، سیاست اور اخلاص کے بلند مرتبے پر فائز تھا۔ اس پر ہم پوری امت سے تعزیت کرتے ہیں۔ ‘‘ (مجلۃ المنار،جزء۲۸،ص۷۹۳)

دمشق اکیڈمی کی رکنیت

حکیم صاحب کی عربی زبان و ادب سے گہری واقفیت کے بین الاقوامی اعتراف کا ایک مظہر یہ ہے کہ انھیں دمشق کی بین الاقوامی اکیڈمی کا ممبر نام زد کیا گیا تھا۔ وہ پہلے ہندوستانی ہیں جنھیں یہ شرف حاصل ہوا۔ اکیڈمی کا قیام ۱۹۱۹ میں المجمع العلمی العربی کے نام سے ہوا تھا۔ بعد میں اس کا نام بدل کر مجمع اللغۃ العربیۃ کر دیا گیا۔ ۱۹۲۵ میں حکیم صاحب نے اپنے سفر یورپ سے واپسی پر مسلم ممالک کا دورہ کیا تھا تو اس موقع پر شام بھی تشریف لے گئے تھے۔ ۱۵؍ اگست کو آپ نے اکیڈمی کی زیارت کی تھی۔

اکیڈمی کے ترجمان مجلۃ المجمع العلمی العربی(جلد۶، شمارہ۱،کانون الثانی[جنوری]۱۹۲۶) میں ایک اجلاس کی روداد شائع ہوئی ہے، جو تشرین الاول(اکتوبر)۱۹۲۵ میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں غور کیا گیا کہ اکیڈمی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ چنانچہ طے پایا کہ ڈاکٹر فلپ حٹّی( رکن اکیڈمی، جو ان دنوں امریکا میں مقیم تھے) کے مشورے سے بعض امریکی اور وہاں مقیم شامی مہاجرین کو اکیڈمی کا رکن بنا لیا جائے۔ اسی موقع پر فرانس سے الاستاذ بوفا( سکریٹری ایشین سوسائٹی پیرس) اور ہندوستان سے حکیم محمد اجمل خاں کو اکیڈمی کا رکن مقرر کیاگیا۔ روداد میں حکیم صاحب کے نام کے ساتھ أحد علماء الھند المشھورین (ہندوستان کے ایک مشہور صاحبِ علم) لکھا گیا ہے۔ (ص۵۵۵)

مجلہ کے اسی شمارے میں اکیڈمی کے دوسرے اجلاس کی روداد بھی شائع ہوئی ہے، جو اگلے سال اکتوبر ۱۹۲۶ میں منعقد ہوا تھا۔ اس میں ذکر کیا گیا ہے:

’’ حکیم محمد اجمل خاں کو گزشتہ سال ہندوستان سے اکیڈمی کا رکن منتخب کیا گیا تھا۔ ان کا دہلی سے خط موصول ہوا ہے، جس میں انھوں نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اکیڈمی کا بھر پور تعاون کریں گے اور پہلی فرصت میں اس کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔ ‘‘(حوالہ سابق، ص۵۵۷)

اکیڈمی کی رپورٹ، جو مجلۃ المجمع، کانون الثانی (جنوری) ۱۹۲۹ میں شائع ہوئی ہے، اس میں اکیڈمی کے ان ارکان کا تذکرہ ہے جن کی گزشتہ سال وفات ہوئی اوران کا بھی جن کو اکیڈمی کا رکن بنایا گیا۔ وفات پانے والوں میں حکیم محمد اجمل خان کا بھی نام ہے، جو اس وقت تک ہندوستان سے واحد رکنِ اکیڈمی تھے۔

ڈاکٹر محمد کرد علی سے تعلق

دمشق اکیڈمی کے بانی صدر ڈاکٹر محمد کرد علی(۱۸۷۶۔ ۱۹۵۳) تھے۔ ان کا شمار شام کی بڑی علمی شخصیات میں ہوتا تھا۔ خلافت عثمانیہ سے شام کے آزاد ہونے کے بعد وہ وہاں کے پہلے وزیر تعلیم بنائے گئے۔ انھوں نے ہی دمشق اکیڈمی کی تاسیس کی اور تا حیات اس کے صدر رہے۔

کرد علی سے حکیم اجمل کے خصوصی تعلقات تھے۔ سفر شام میں انھوں نے حکیم صاحب کا پر تپاک استقبال کیا تھا۔ بعد میں حکیم صاحب کے، اکیڈمی کا رکن بن جانے کے بعد دونوں کے درمیان مراسلت رہی۔ اکیڈمی کی سالانہ رپورٹوں میں کرد علی نے حکیم صاحب کا اچھے الفاظ میں تذکرہ کیا ہے۔ حکیم صاحب کی وفات کے بعد ہندوستان کی دوسری عظیم علمی شخصیت علامہ عبد العزیز میمنی کو متعدد خطوط لکھے، جن میں ان سے گزارش کی کہ وہ حکیم اجمل کے حالاتِ زندگی پر کچھ مواد عربی زبان میں ترجمہ کرواکے بھیجیں۔ علامہ میمنی نے یہ ذمے داری علامہ سید سلیمان ندوی کے سپرد کی۔ انھوں نے کچھ مواد اکٹھا کرکے اور اس کا عربی ترجمہ کرواکے کرد علی کے پاس بھجوایا۔ یہ پتہ نہیں لگایا جا سکا کہ اس مواد کو کرد علی نے کیسے استعمال کیا۔

عالم عرب کی مطبوعات میں حکیم اجمل کا تذکرہ

عالم عرب میں ہندوستان سے متعلق جو کتابیں شائع ہوئی ہیں ان میں بھی حکیم اجمل کا تذکرہ بہت شان دار الفاظ میں ملتا ہے۔ ان میں سے بعض کتابیں خود عرب اصحابِ علم کی لکھی ہوئی ہیں تو بعض ہندوستانی علماء کی تحریر کردہ ہیں۔ یہ کتابیں بھی عالم عرب میں حکیم صاحب کے تعارف کا ذریعہ بنیں۔

ڈاکٹر محمد بن ناصر العبودی، سابق سکریٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے دنیا کے بیش تر ممالک کا سفر کیا ہے۔ عربی زبان میں ان کے سو سے زائد سفر نامے شائع ہوئے ہیں، جن میں سے کئی ہندوستان سے متعلق ہیں۔ انھوں نے شمالی ہند کے اپنے ایک سفر نامے میں ایک جگہ ان رہ نماؤں کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے ملک کو برطانوی استعمار سے آزاد کرانے اور اس کا ظالمانہ تسلط و اقتدار ختم کرنے کے لیے بھر پور جد و جہد کی اور اس راہ میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ ان میں دیگر زعماء کے ساتھ حکیم محمد اجمل خاں کا بھی نام لیا ہے۔ (نظرات فی شمال الھند، محمد بن ناصر العبودی، رابطۃ العالم الاسلامی، ص ۱۲۹)

مولانا عبد الحی الحسنی رائے بریلوی کی کتاب الثقافۃ الاسلامیۃ فی الھند مجمع اللغۃ العربیۃ دمشق سے ۱۹۸۳ء؍ ۱۴۰۳ھ میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں ہندوستان میں مختلف علوم و فنون کی تاریخ بیان کی گئی ہے، جن میں دینی علوم بھی شامل ہیں اور طبیعیاتی علوم بھی۔ مولانا حسنی نے اس میں طب کی تاریخ بھی بیان کی ہے۔ قدیم تاریخِ طب پر اجمالی روشنی ڈالنے کے بعد بارہویں، تیرہویں اور چودھویں صدی ہجری کے مشہور اطباء اور ان کی تصانیف کا تذکرہ الگ الگ کیا ہے۔ چودھویں صدی ہجری کے اطباء میں انھوں نے حکیم اجمل خاں کا بھی تذکرہ اختصار کے ساتھ کیا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ انھوں نے الفاضل الکبیر البارع فی العلوم العربیۃ و الصناعۃ الطبیۃ(فاضل اجل، عربی علوم اور فن طب کے ماہر) لکھا ہے۔ (ص۳۱۳)

مولانا عبد الحی حسنی ہی کی ایک اور کتاب نزھۃ الخواطرکے نام سے ہے، جو ہندوستان کی مشہور علمی شخصیات کے تذکرہ و سوانح پر ہے۔ اس کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے۔ یہ کتاب پہلے دائرۃ المعارف العثمانیۃ حیدر آباد سے آٹھ جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ ۱۹۹۹ء؍ ۱۴۲۰ھ میں اس کی اشاعت دار ابن حزم للطباعۃ والنشر و التوزیع، بیروت سے ’الاعلام بمن فی تاریخ الھند من الأعلام‘کے نام سے ایک جلد[۱۵۰۸ صفحات] میں ہوئی ہے۔ اس میں حکیم اجمل خاں کا مبسوط تذکرہ ہے۔ اس کا آغاز انھوں نے اس جملے سے ہواہے: الشیخ الفاضل العلامۃ، الحکیم الحاذق، أحد الأذکیاء الماھرین فی الصناعۃ الطبیۃ۔ اس تذکرے میں کچھ اضافہ مصنف کے فرزند ِ ارجمند مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے کیا ہے۔ انھوں نے بھی حکیم صاحب کی خدمات کو خوب سراہا ہے اور ان کے بلند مقام و مرتبہ کا تذکرہ کیا ہے۔ [ ملاحظہ کیجیے صفحات:۱۱۶۷۔ ۱۱۶۹]

حکیم صاحب کی تصانیف عالم عرب میں

حکیم اجمل خاں کی تصانیف عالم عرب میں پہنچی ہوں، اس کا تو علم نہیں ہو سکا، البتہ یقینی طور پر کہا جا سکتاہے کہ انھوں نے کتب خانہ ریاست رام پور میں موجود عربی کتابوں کی جو فہرست تیار کی تھی[ ۷۲۰؍صفحات]اور ۱۹۰۲ء میں اس کی اشاعت ہوئی تھی، وہ عرب ممالک میں پہنچی اور اس سے استفادہ کیا گیا۔ مکتبۃ الملک فہد الوطنیۃ  ریاض کے آن لائن کٹیلاگ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ فہرست کا ایک نسخہ وہاں موجود ہے۔ اسی طرح مرکز جمعۃ الماجد دبی میں، جہاں دنیا بھر کے تمام کٹیلاگس کو جمع کیا گیا ہے، یہ فہرست موجود ہے۔

خاتمہ

خلاصہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ حکیم اجمل خاں اپنی علمی، سیاسی اور سماجی خدمات کی بنا پر جس طرح ہندوستان میں مقبول تھے، اسی طرح عالمِ عرب میں بھی ان کا خوب تعارف تھا اور انھیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی عربی دانی کا عالمِ عرب میں وہ تعارف نہیں ہو سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کی کتاب مقدمۃ اللغات الطبیۃ اس قابل ہے کہ اسے اعلیٰ اور معیاری طباعت کے ساتھ کسی عرب ملک کے اشاعتی ادارے سے از سر نو طبع کرایا جائے، تاکہ عالمِ عرب میں اس کا بھر پور تعارف ہو اور فقہ اللغۃ کے موضوع پر علمی دنیا اس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا سکے۔ اس کام کو مرکزی کونسل برائے تحقیقات ِطب یونانی(CCRUM) جیسا ادرہ اپنے ذمے لے، تبھی اس کی تکمیل یقینی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک کی کسی یونی ورسٹی کے عربی شعبے کے تحت اس کتاب کے خصوصی حوالے سے طبی لغت نویسی اور طبی لغات کے جائزہ پر پی ایچ ڈی کروائی جائے۔ یہ کام بھی سی سی آر یو ایم کی دل چسپی ہی سے پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو