نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اداریہ بسواس میگزین ڈسمبر 15 : ڈاکٹر سید عارف مرشد

 

عزیزان من!

 

            امید کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ بسواس کا تازہ شمارہ آپ لوگوں کی بصارتوں کے حوالے کرتے ہیں۔ ان پندرہ دنوں میں دیش اور دنیا پر کیا گزری  آپ لوگوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اچھائی پر برائی کی جیت کی ناکام کوشش ہمیشہ سے رہی ہے اور تا قیامت رہے گی۔ ایسی ہی ناکام کوشش IMA کے ذریعہ ڈاکٹر بیسواروپ کے کام کو روکنے کی کی جارہے ۔ ان پر FIR کیاگیا ہے۔ فی الحال ڈاکٹر صاحب پیش گی ضمانت پر باہر ہیں۔ شکریہ ان بندگان خدا کا جنہوں نے ان کی مدد کی۔  15 /ڈسمبر کو  پیشی ہے یعنی عدالت میں جواز پیش کرنا ہے۔ اللہ کرے کہ وہ کامیاب ہوجائیں۔ جس کے لئے ڈاکٹر صاحب نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ان کے ویڈیو دیکھ کر کسی کو بھی کچھ فائدہ ہوا ہو تو ایک ویڈیو بنا کر ارسال کریں۔  بہت سارے لوگوں نے اپنے تجربات بھیجے ہیں۔ DIP  ڈائٹ کو فالو کر کے جن جن لوگوں نے بھی فائدہ اٹھا یا ہے۔ انہوں نے کچھ ویڈیوز بھیجے ہیں۔

 

            لیکن کچھ لوگوں نے اعتراف تو کیا ہے لیکن ویڈیو بھیجنے سے ہچکچارہے ہیں پتہ نہیں کیوں کیا ڈر ان کے اندر ہے۔ کیا یہ سوچتے ہیں کہ ان کے ویڈیو بھیجنے سے یا ڈاکٹر بسواروپ کا ساتھ دینے سے حکومت انہیں بھی پریشان کرے گی۔ ایسا نہیں ہوگا۔

 

            دوستو! اگر ایک شخص انسانیت کیلئے کچھ اچھا کرنے کی کوشش کرراہا ہے تو ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم بھی جتنا ہوسکے زیادہ سے زیادہ اس کا ساتھ دیں۔

 

            انگریزوں نے دو سو سال حکومت کرنے کے بعد انہیں بھگانا پڑا وہ آسانی سے نہیں جانے والے تھے۔ کئی لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانی دیں تبھی جاکر یہ دیش آزاد ہوا ہے اور ہم آج چین کی سانس لے پارہے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح دیش کو جھوٹی بیماریوں اور زہریلی دواؤں سے  آزاد کروانا پڑے گا۔ تب ہی ہم ایک صحت مند اور اچھی زندگی جی پائیں گے اور آنے والی نسلوں کو صحت مند ماحول دے پائیں گے۔ اس کیلئے بھی ہمیں اپنی قربانی دینی پڑے گی۔  اب قربانی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنا سر ہی کٹوائیں!  کم از کم ان کے ساتھ تو رہ سکتے ہیں جنہوں نے ہمارے لئے اپنے سرپر کفن باندھا ہے۔

ڈاکٹر سید عارف مرشدؔ

مدیر: اُردو و ہندی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو