نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خالص دیسی گھی طویل عمری کاراز

خالص دیسی گھی طویل عمری کاراز

(حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (پی ۔ ایچ ۔ ڈی : امریکہ) ایڈیٹر : عبقری

           قدرت نے انسان کو جو قدرتی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کا نعم البدل کوئی بھی مصنوعی چیز نہیںہوسکتی۔ قدرت کے انمول تحفوں میں سے ایک خالص دیسی گھی بھی ہے جو انسانی جسم کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا اب تو جدید سائنسی تحقیق کے ماہرین بھی یہ بات کہہ رہے ہیں کہ بناسپتی گھی سے مختلف بیماریا ں لگتی ہیں اور کوکنگ آئل کے استعمال سے انسانی جسم کو مطلوب چکنائی نہ ملنے سے بھی مختلف بیماریا ں لگ رہی ہیں۔ لہٰذا دیسی گھی تھوڑی مقدارمیں کھانوں میں استعمال کرنا ہی انسانی جسم کی صحیح ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ سندھ میںتھر کا علاقہ اور چولستان کے لو گ اکثر لمبی عمر والے ہوتے ہیں۔ ان کے بڑے بوڑھے یہ بات کہتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ دیسی گھی استعمال کیا ہے کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے۔ یہ قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ دیسی گھی کا خالص ہونا لازمی ہے۔ ملاوٹی نہ ہو ایسنس اور کیمیکل والا نہ ہو۔ بعض کمپنیوں والے ایسنس اور کیمیکل استعمال کرتے ہیں یہ اور بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔ مسلسل تجربہ اور انوکھا استفادہ: قارئین! میری زندگی مسلسل مشاہدات، تجربات اور انوکھے استفادے سے ہمہ وقت مصروف ہے ہر آنے والا خط، ملاقات اور فون مجھے نت نئے انوکھے تجربات سے ملاقات کراتا ہے۔ دراصل میں لوگوں یا ڈاک سے ملاقات نہیں کرتا بلکہ تجربات اور مشاہدات سے ملاقات کرتا ہوں۔ تھرپارکر سے لے کر یہ ہزاروں میل کی پھیلی ہوئی صحرائی پٹی جیسل میر راجستھان تک صحرائے بہاولپور سے ہوتی ہوئی جاتی ہے اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو اس پٹی کے لوگوں کی صحت قابلِ رشک، موٹاپا نہیں، بڑی لاعلاج اور قابلِ عبرت بیماریاں نہیں پھر عمر لمبی تندرستی اور وجاہت حد سے زیادہ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ وہ اپنی خوراک میں دیسی گھی استعمال کرتے ہیں۔ صحرا کے بزرگ کا تجربہ: یہ کچھ پرانی با ت ہے کہ صحرائے بہاول پور میں ایک نہایت بوڑھے بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو میں بہت دلچسپ اور معلوما ت افزاء باتیں بتائیں دوران گفتگو کہنے لگے کہ میری دہی اور دیسی گھی سے دوستی ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تیری عمر اتنی زیادہ اور صحت جوانوں جیسی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ میں خالص دیسی گھی کھاتا ہوں۔ ماہرڈاکٹر کا تجربہ: آغا خان ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر سے کئی بار تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں وہ کچھ وقت یورپ میں پریکٹس کرتے ہیںاور کچھ وقت پاکستان میں۔ گورے ان کے بہت فین ہیں کہنے لگے کہ جو کچھ دیسی گھی میں ہے وہ اور کسی آئل میں نہیں۔ اب تو تحقیقات واپس پلٹ رہی ہیں کہ اگر کھانا ہے تو دیسی گھی کھائیں کولیسٹرول، موٹاپے، جوڑوںکے درد، کمر کے درد،جسم کے درد اور دل کے امراض کا آخری علا ج دیسی گھی ہے۔ 140سالہ بابا اور 110 سالہ نانی کی صحت کا راز: دوران گفتگو ایک صاحب بتانے لگے میںنے دیکھا کہ اندرونِ سندھ ایک بوڑھا بابا جس کی عمر تقریباً140 سال ہے بالکل صحت مند‘ اس نے کبھی دوائی نہیں کھائی ساری زندگی اس نے صرف دیسی گھی کھا یا ہے۔ 20 فروری 2009 کو حقیقی نانی اماں کا وصال ہوا ان کی عمر 110 سال سے زیادہ تھی۔ سماعت‘ نظر‘ جسم‘ دماغ، عقل، صلاحیت اور یادداشت بالکل درست تھی۔ بندہ نے نانی اماں کو ساری زندگی صرف اور صرف دیسی گھی کھاتے دیکھا ہے اور ہر پل عبادات اور ذکر کرتے دیکھا ہے بندہ کا یقینی خیال ہے کہ ان کی صحت کی وجہ عبادت اور دیسی گھی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ صحرا کے لوگوں کی صحت کا راز: دورانِ قلم صحرا کے شناسا ملک جان محمد زاہد نے دیسی گھی کے تجربات کچھ یوں بتائے کسی فارمی دیسی گھی جن میں ایسنس اور رنگ ملا ہوتا ہے اور صحرائی دیسی گھی کا فرق ایسے جیسے ڈالڈا اور دیسی گھی کیونکہ وہاں کا جانور صحرائی جڑی بوٹیاں کھا کر ہی زندگی گزارتا ہے۔ پھر وہ جانور بارش والا پانی پیتا ہے جو کچے تالابوں میں اکٹھا ہوتا ہے اب یہ بارش کا آفاقی پانی اور جڑی بوٹیوں کی تا ثیر اتنی پائیدار ہوجاتی ہے کہ اس کا دودھ حتیٰ کہ گوبر بھی پرتاثیر ہوتا ہے ہمارے طب کی بعض ادویا ت کو آگ پر پکانے کے لیے صحرائی گوبر کا انتخاب ہوتا ہے جس طرح کوئلے کے کبا ب اور سوئی گیس کے کباب میں فرق، لکڑی کے تندور کی روٹی اور گیس کے تندور کی روٹی میں، درخت پر قدرتی پکے پھل اور مصالحے کے ساتھ پکے پھل میں فرق، دیسی مرغی اور برائلر مرغی میں فرق۔ اس طرح فارمی اور صحرائی دیسی گھی میں زمین آسمان میں فرق ہوتا ہے۔ بھادوںکا گھی کمالات کا خزانہ: حتیٰ کہ ساون کی بارش کے بعد جب جڑی بوٹیاں اور قدرتی خوشبو دار گھاس اْگتا ہے تو صحرا میں بھادوں کا گھی مشہور ہوتا ہے کیونکہ ساون کی بارشوں کی وجہ سے بھادوں میںجڑی بوٹیاں کھا کر جو دودھ ہوتا ہے اور اس سے جو گھی ملتا ہے وہ 5-4 سال رکھیں تو نہ ذائقہ خراب نہ رنگت میں فرق۔ حتیٰ کہ تجربات میںجو بھادوں کا گھی ایک ماہ کھالے اس کی جوانی، طاقت، نگاہ یاداشت اور جسم کی تمام کھوئی قوتیں واپس آجاتی ہیں۔ یہاں تک کہ جس رنگ کی بوٹی ہوتی ہے۔ گائے کا دودھ اسی رنگ کا ہوتاہے۔ ایک بوٹی ہوتی ہے جس کو کھانے سے گائے سرخ رنگ کا دودھ دیتی ہے پھر مکھن سرخ رنگ کا ہوتا ہے اور گھی بھی سرخ رنگ کا جیسے خون جما ہوا ہے۔ اسی طرح خس کو کھا کر گھی میں بھی خس کی خوشبو آتی ہے۔ الغرض جو بوٹی گائے کھاتی ہے وہی گھی ملتا ہے بھیڑ اور بھینس کے گھی میں دانہ ہوتا ہے بکری اور گائے کے گھی میں دانہ نہیں ہوتا۔ بیماریوں سے پہلے پرہیز اپنائیں: قارئین! فطری زندگی کو آزمائیں فطری زندگی کی طرف آئیں۔ بیمار ہو کر پرہیز کیا تو کیا۔ اس سے پہلے ہی فطری زندگی کی طر ف آئیں اس کا مزہ ہی کچھ اورہے۔ ترکیب و طریقہ استعمال: آئیے ایک دیسی گھی کا گر بتاتا ہوں پھر اس کا فائدہ دیکھیںاور کمال آزمائیں۔ دیسی گھی ایک کلو سوجی 1/2 کلو میں بھون لیں۔ حسبِ ذائقہ چینی ملا کر اسمیں سونف ایک پائو بڑی الائچی ایک پائو۔ چھوٹی الائچی ایک پائو۔ تینوں چیزیںباریک پیس کر اس میںملا کر محفوظ رکھیں۔ یہ ایک چمچ صبح و شام نیم گرم دودھ سے لیں۔ دماغی کمزوری، یاداشت، اعصابی کمزوری‘ عینک اتارنے، جسم کی بے طا قتی‘ پٹھوں اور جسم کی کمزوری اور کھچائو، جوڑوں کے درد، کمر کے درد، مردانہ کمزوری، عورتوں کے اندرونی امراض کے لیے انتہائی طاقت ور اور کراماتی تحفہ ہے۔ یہ تحفہ دراصل مجھے ایک سو سالہ صحرائی بابے نے دیا تھا۔ بقول اس بابے کے میری زندگی کا راز ہے اورمیری صحت اور طاقت کا راز ہے جو مجھے موروثی ملا ہے۔ آج تک خطا نہیں گیا۔ (www.ubqari.org) ٭…٭…٭


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فیض کے شعری مجموعوں کا اجمالی جائزہ

: محمدی بیگم، ریسرچ اسکالر،  شعبہ اردو و فارسی،گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ کو فیض کے مکمل کلیات قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ان کا سارا کلام اور سارے شعری مجموعوں کو یکجا کردیا گیا ہے، بلکہ ان کے آخری شعری مجموعہ ’’ مرے دل مرے مسافر‘‘ کے بعد کا کلام بھی اس میں شامل ہے۔  فیض ؔ کے شعری مجموعوں کی کُل تعداد ’’سات ‘‘ ہے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:

عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری، ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبر، گلبرگہ نیورسٹی گلبرگہ Urdu poetry in the Bahmani period

  عہد بہمنیہ میں اُردو شاعری  Urdu poetry in the Bahmani period                                                                                                 ڈاکٹر سید چندا حسینی اکبرؔ 9844707960   Dr. Syed Chanda Hussaini Akber Lecturer, Dept of Urdu, GUK              ریاست کرناٹک میں شہر گلبرگہ کو علمی و ادبی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ جب ١٣٤٧ء میں حسن گنگو بہمنی نے سلطنت بہمیہ کی بنیاد رکھی تو اس شہر کو اپنا پائیہ تخت بنایا۔ اس لئے ہندوستان کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔ گلبرگہ نہ صرف صوفیا کرام کا مسکن رہاہے بلکہ گنگاجمنی تہذیب اور شعروادب کا گہوارہ بھی رہاہے۔ جنوبی ہند کی تاریخ میں سرزمین گلبرگہ کو ہی یہ اولین اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے دین حق، نسان دوستی، مذہبی رواداری اور ایک مشترکہ تہذیب و تمدن کے آغاز کا سہرا بھی اسی کے سر ہے . ۔   Urdu poetry in the Bahmani period

نیا قانون از سعادت حسن منٹو

نیا قانون از سعادت حسن منٹو منگو(مرکزی کردار) کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔۔۔اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔۔۔ استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی اطلاع سنی تھی۔۔۔اسپین میں جنگ چھڑگئی اور جب ہر شخص کو اسکا پتہ چلا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقہ پی رہے تھے دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کررہے تھے۔۔۔ استاد منگو کو انگریز سے بڑی نفرت تھی۔۔۔ایک روز استاد منگو نے کچہری سے دو سواریاں(مارواڑی) لادیں اور انکی گفتگو سے اسے پتہ چلا کے ہندوستان میں جلد ایک آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اسکی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔۔۔ سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔۔۔ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کررہی تھی۔۔۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا، مگر اس کے متعلق جو تصویر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا ، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہوجائے گا اور اسکو